:سوال نمبر85
سائینسی نظریہء ارتقا پر آپ کا نظریہ کیا ہے؟
جواب:۔ بالغ کیتھولکس کے لیے مسیحی تعلیم(جرمن بشپس کانفرنس کی مساعی سے یہ کتاب 1985ع میں چَھپ کر تیّار ہُوئی) اِس کتاب کے صفحہ93اور اس سے اگلے صفحات میں بہُت تفصیل کے ساتھ تو نہیں مگراجمالاً اِس موضُوع کا مناسب تذکرہ کِیا گیا ہے۔
اگر ہم عِلمِ دِین کی طرف سے جو مصلحت ہے نیستی سے ہستی میں لانے کی کہانی کے ضِمن میں اسے اور اِس سلسلے کی جو تخیلاتی داستان مشہُور کر دی گئی ہے اس کے مابین فرق تفریق قائم کریں تو پتا چلے گا کہ اس رام کہانی کو مصنّف نے عالمی تناظُر میں رکھ کر دیکھا ہے، اِس لیے ایک خاصی بڑی گمبھیرتا پیدا ہو گئی ہے۔ اور وُہ ہے تخلیق اور ارتقا کے درمیان جو ایک ربط ہے اُس کا تعیُّن۔ ماڈرن سائینس کی نمایندگی کرنے والے سائینس دان کیا کرتے ہیں کہ وہُ ایک مفرُوضے سے شُرُوع ہوتے ہیں کہ جو دُنیا میں مادّی جِنس ہے بتدریج ترقّی، نظم و ترتیب کے ساتھ ارتقائی مراحل طے کرتی ہے۔ سادگیِ غیر منظم سے منظم پیچیدگی کی جانب ارتقائی عمل کی مسلسل پیشرفت ایسی اشکالِ حیات کی نمُود اور ظہُور سامنے لاتی ہے کہ آدمی اپنے مدارج طے کرتا ہُوا اپنی صفات اور توانائیوں کے ساتھ آتا ہے اور دُنیا پر چھا جاتا ہے۔ اس کا انگُوٹھا ہے، بول سکتا ہے، سُوچ سکتا ہے، احساسات اور جذبات ہیں، ردِّ عمل ہے۔ نظریہء ارتقا کا مطمحِ نظر بس یہِیں تک ہے۔ اِن مفرُوضوں پر اگر غور کِیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ دُنیا کو تخلیق ہُوئے قریباً بارہ بلین سال گُذر چُکے، ہمارا سیّارہ زمین بس پانچ چھے بلین سال ہی پہلے وُجُود میں آیا ہو گا۔ اور یہی کوئی تین بلین برس پہلے کی بات ہے کہ زمین پر زِندگی کے آثار ہویدا ہُوئے اور حضرتِ انسان، اس نے موجُودہ شکل و صُورت جِسم فارم اختیار کرتے کرتے اب تک ایک تخمینے کے مُطابِق دو بلین سال بِتا دیے۔
یہ نظریہ کہ تمام ذِی حیات موجُودات کا سِلسلہ حیات کی چند سادہ صُورتوں یا واحد صُورت سے چلا ہے، اس کا تخلیقِ کائنات، حیات، موجُودات کے ساتھ کیا رِشتہ ہے۔ ارتقائی عمل اور عملِ تخلیق کیوں کر ایک دُوسرے کے ساتھ لگّا کھا سکتے ہیں؟آئیے یہی جاننے کی کوشِش کرتے ہیں۔ ترقّی کے مادّہ پرستانہ اُصُول کو ہمیں مُسترد کرنا ہو گا۔ کیوں کہ وُہ تو یہی پوزیشن اختیار کر چُکا ہے کہ ہر طرح کی زِندگی، ظاہر ہے اِس میں انسانی حیات و رُوح بھی شامل ہیں، تخلیق شُدہ نہیں بل کہ پہلے سے خُود ہی موجُود ہے۔ بہُت سے سائینس دان ایسے بھی ہیں جو ایوولیوشن تھیوری کی اِس تعبیر و تشریح سے توبہ تائب ہو چکے ہیں۔ آج کے دور میں روز بہ روز جڑ پکڑتی راے یہ ہے کہ تخلیق و ارتقا تو جواب ہیں دو پکے پکائے مُختلف سُوالات کا اور اُن جوابات کا لیول بھی اسی طرح مُختلف ہے۔ جِس نہج کا سُوال، اُسی انداز کا جواب۔ ارتقا ایک تجرباتی عمل کے لیے اصطلاح ہے، محض تجربے اور مُشاہدے پر مبنی جس میں سائینس یا نظریے کو ملحُوظ نہ رکّھا گیا ہو۔ یہ اِس قبیل کی اصطلاح ہے کہ نوع میں اُفقی سُوال یعنی ''کہاں'' کا جواب اور یہ کہ ظہُور میں تواتُر سے آنے والی مخلُوقات کی کون و مکاں کی حُدُود میں پابندی کا جواب بھی اس کے دائرئہ اختیار میں ہے۔ تخلیق کی اصطلاح کو ایک دُوسرے ہی طریقے سے جانچنا پڑے گا۔ تخلیق ایک الٰہیاتی اصطلاح ہے اور یہ عمودی سٹائل کے سُوالات''کیوں''، ''کِس لیے'' کے جوابات پر قادر ہے۔ ارتقا نے کبھی کا یہ مان رکّھا ہے کہ جب کُچھ نہیں تھا، کُچھ تھا، پہلے سے موجُود تھا۔ اس میں تبدیلی آئی، ترقّی ہُوئی۔ تخلیق اگلی گُتھّیاں سُلجھاتی ہے۔ وُہ بتاتی ہے کہ جو تھا، وُہ کیوں تھا اور اس کے ہونے کا مقصد کیا رہا، اِسی لیے اس میں تغیرات نُمایاں ہُوئے، ارتقا کی صُورت پیدا ہُوئی اور اِنسان مُکمَّل ہُوا تو وُہ کون و مکاں کی تسخیر کو نِکل کھڑا ہُوا۔ نتیجہ ہے کہ اب وقت، فاصلے، خلا اس کے قبضے میں خُدا نے دے دیے ہیں۔
ڈُھونڈنے والے کو ہم دُنیا بھی نئی دیتے ہیں
برِّاعظم اس نے ڈُھونڈ نکالے، اب سیّاروں، سِتاروں پر کمندیں پھینک رہا ہے۔ سب قُدرت کے کرشمے ہیں۔
دونوں نقطہ ہاے نظر کے اختلاف کے بعد علمِ الٰہیات کے اکثر ماہرین کا فرمانا ہے کہ خُدا نے مخلُوق کو جب پیدا کِیا تو اپنی تخلیق پر نازاں ہُوا اور خُوش ہو کر اُنھیں ماحول کے مُطابِق اپنی بہبُود کے لیے، ارتقائی منازل خُود سے طے کرنے کی آزادی بھی بخش دی۔ اپنی حالت آپ سنوارو، پھلو، پھُولو اور بڑھو۔ (حوالہ پی۔ ٹائی ہارڈ ڈی شارڈِن)۔ اس سے مُراد یہ ہے کہ خُدا نے یہ کائنات بس یونہی نہیں تخلیق کر ڈالی اور جب بنا لی تو اس کی فلاح و بہبُود، ترقّی، نسلی ارتقا سب اپنی خلق کی ہُوئی مخلُوقات پر چھوڑ دیا۔ فنا تو اُس کے ہاتھ میں ہے ہی، اس کائنات کی حقیقت، اس کی بقا کی قُدرت بھی تو اسی کے پاس ہے۔ اِس سلسلے میں اُس سے کوئی چُوک نہیں ہو سکتی، وُہ خُدا ہے، بھُول چُوک سے مُبرّا۔ کُل عالم کی تکوین سے یومِ عدالت و نجات تک اور نجات سے ابدالآباد، ہمیشہ ہمیشہ کی بقا تک وُہی ناصر، وُہی ہادی، وُہی رقیب، وُہی حسیب، وُہی راکھا اُسی کی سب خلقت کو رکّھاں۔ وُہ محبّت کرنے والا خُدا ہے، محبّت کے سارے لوازمات بھی تو اسی نے ہی پُورے کرنے ہیں۔ جو کُچھ ہے وُہ اِس سب کُچھ پر محیط ہے، جو کُچھ کہ وُجُود رکھتی ہے، نہیں رکھتی اور ہے، سب اسی کے گھیرے میں ہے، تخلیقی بساط پر وُہ قادر ہے، قادرِ مُطلق۔ وُہی آزاد چھوڑتا ہے اور مخلُوق کو اپنے حِصّے کا کِردار ادا کرنے کے لیے اسے سرگرمی و اثر میں وُسعت عطا کرتا ہے۔ اسی لیے تو ہے کہ خُدا افضل و برتر کی عطا کردہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی بِنا پر یہ جو اشرف المخلوقات ہے اپنے خُدا خالق کا پرتو قرار پایا ہے۔ چُناں چہ تخلیق اور ارتقا کی تھیوری میں قطعاً کوئی بُنیادی تضاد موجُود ہے ہی نہیں بل کہ ہم مسیحیوں کا اعتقاد کی حد تک یہ پُختہ خیال ہے کہ دونوں ہی ایسی صفات ہیں، ایسے عمل ہیں جو در اصل سرے سے مُختلف سُوالات کا مضبُوط جواب ہیں۔ اپنی اپنی سطح پر مُدَلَّل اور تسلّی بخش جواب۔
بظاہر تو جو چیز تخلیق کے عمل سے گُذرتی ہے، ارتقائی عمل سے بھی گُذرے گی، مگر دونوں اِبلاغ اور پِھر اِدراک کے لیے مُختلف عُلُوم ہیں جو وہاں تک رسائی دیتے ہیں۔ کیوں کہ دونوں، عمل کی دو مُختلف شاخیں ہیں۔۔۔۔۔۔ لیکن ایک کے بغیر دُوسری کا وُجُود لایعنی ہے۔ باقی وُہی بات کہ۔۔۔۔۔۔
فِکر ہرکس بقدرِ ہِمّت اُو ست
تخلیق و ارتقا، دونوں کو ہی الگ الگ مائیکرو سکوپ تلے رکھنے کے باوُجُود سائینس اور الٰہیات دو الگ الگ دُنیاؤں والی رام کتھا نہیں۔ یہ دونوں کائناتی سچّائی والے ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔ جِن کے تجزیے البتّہ مُختلف حوالوں سے کیے جاتے رہے ہیں۔ عُلماے دِین اور سائینسی عُلُوم کے ماہرین کو زیب نہیں دیتا کہ ایک دُوسرے کے سینگوں میں سینگ پھنسانے میں ہی اُلجھے رہیں۔ کانپتی ٹانگوں، پھُولے دم اور ٹُوٹے سینگوں کے ساتھ بے دم و بے حال تھک تھکا کے، مضمحل و بے ہوش گِرے پڑے ہوں گے۔ دونوں۔ اِس لیے مُحتاط رہیں۔ دونوں ایک ہی کھُرلی کھونٹے کے بیل ہیں۔ کیا ہُوا ایک نیلی کا اور دُوسرا ساندل بار کا بیل ہے۔ نتھنے نہ پھُلائیں، پھُنکارے نہ ماریں، ڈکارنا بند کریں، مفاہمت پر آجائیں۔ امن، پیار اور دوستانہ سرگوشیاں زِندگی کو توانائی اور خُوب صُورتی عطا کرنے والا اصل امرت دھارا ہیں۔ ورنہ۔ ورنہ پِھر وہی چھُریاں ٹوکے اور وُہی ذبح کرنے والوں کے ہاتھ۔