:سُوال نمبر79
کلامِ مُقدّس: توریت پاک: اسفارِ تواریخی: مُقدّس اسفارِ خمسہ: (١)۔۔۔۔۔۔ تکوین، باب 11، آیت5
''اور خُداوند اُس شہر اور بُرج کو جسے بنی آدم بنا رہے تھے، دیکھنے اُترا''۔
لوگوں نے وُہ جو شہر اور بُرج تعمیر کِیا، خُدا تعالیٰ اُسے دیکھنے کے لیے قریب آیا۔ تو کیا خُدا کی، آپ کے خُدا کی، نزدِیک والی نظرکمزور ہے؟ ایسا اس سبب سے پُوچھا ہے کہ ساتویں آسمان سے اُسے دِکھائی نہیں دیا، اسے فلک بہ فلک نیچے اُترنا پڑا، تا کہ شہر اور بُرج اُسے نظر آ سکیں؟
جواب:۔ دو باتیں ہیں جو آپ کے گوش گُزار کر دُوں:
پہلی یہ کہ ایک ایک کر کے تکوین کے پہلے گیارہ ابواب اپنے اپنے طور پر انتہائی غور طلب ہیں۔نسلِ انسانی کا کیوں کر آغاز ہوا، معروف و مقبول انداز میں ا س کی وضاحت کی گئی ہے، بڑے سادہ، عام فہم، باتصویر دِلچسپ و معلوماتی پیراےے میں تا کہ سادہ لوح انسانوں کی ذہنی سطح کے عین مُطابِق اظہارِ بیان رہے اور لفظ لفظ بات اُنھیں سمجھ آجائے۔ مُقدّس تکوین کی کتاب کے یہ ابواب بُنیادی سچّائیوں کا برملا اعلان کرتے ہیں۔ انھی صداقتوں پر نجات کے سارے الٰہی منصوبے کا دارومدار ہے۔ یہ صداقتیں کیا ہیں؟
ازل کو پہچان اور وقت کو معانی دیتے ہی خالقِ کائنات نے دائیں بائیں، آگے پیچھے، اُوپر نیچے تخلیق کے نادر نمُونے پھیلا دیے۔ مرد اور پِھر عورت کی تخلیق کے سَمے ذاتی خُصُوصی الٰہی خبرگیری بہ شکلِ معاونت فرشتوں کو حاصل رہی۔ انسان کے لیے خُدا رحیم کا پہلا اور عظیم ترین انعام و احسان یہی ہے اور اسی لیے یہ مخلوق اشرف المخلوقات کہلاتی ہے۔ ایک اور صداقت یہ ہے کہ نوعِ بشر کو یگانگت کی سُوجھ بُوجھ دی، ایک ہونے کی حقیقت کا فہم اور اس پر عمل کی توفیق بخشی۔ اور یہ بھی آفاقی سچ ہے کہ ہمارے بابا آدم اور امّاں حوّا سے پہلا گُناہ سرزد ہُوا، عنایاتِ ربّی سے وُہ محرُوم کر دیے گئے اور جنّت سے دیس نکالا مِل گیا، زمین پر آ رہے، یہی اُن کی پاداش تھی۔ اُس گُناہ کے نتیجہ کو اُن کی اولاد نے بھی ورثہ میں پایا اور اس کا کڑوا پھل نسل در نسل چکھتی چلی آ رہی ہے۔ یہ تمام اساسی سچّائیاں ہیں، ان سے مَفَر نہیں۔ عقیدہ از رُوے الٰہیات سے بھی ان کا تعلُّق سبھاو ہے اور ان کی تصدیق و توثیق اور ضمانت کتابِ مُقدّس کے اختیار سے باہر نہیں۔ بے شک یہ ٹھوس حقیقتیں ہیں۔یہ الگ بات کہ ہمیں ان سچّائیوں کا مُکمَّل اِدراک نہیں۔ در اصل انھیں ہم تک پہنچایا بھی تو اساطیری انداز میں گیا تھاجو اُس زمانے اُن وقتوں اور مقاموں کے عین مُطابِق تھا
(بحوالہ دی نیو جیروشلم بائبل، صفحہ11۔۔۔۔۔۔ نئی یروشلم بائبل لانگ مین اور ٹوڈ کے اہتمام سے لندن کے علاقہ ڈارٹن میں 1985ع میں چھپی تھی)
اور دُوسری بات یا راے یہ ہے کہ خُدا کو انسانی اُسلُوب میں بیان کرنے کے طریقے کو مُقدّس عہد نامہء قدیم میں واضح الٰہی کلام کے ذریعے حوالہ بنا کر جو آیتِ مُبارکہ سامنے لائی گئی ہے (تکوین۔۔۔۔۔۔5:11)، اسی مضمُون کی اور بھی آیات ہیں جو جدید دور کے قاری کو ادھیڑ بُن میں ڈال دیتی ہیں اور بعض حضرات ورطہء حیرت سے باہر نہیں آسکتے، چکرا جاتے ہیں۔ لیکن رمز افشانی کے لیے آسان زُبان و مفہُوم میں جب اس مخصُوص مضمُون کو ڈھال دیں تو لُبِّ لُباب دانست میں آجائے گا۔ مثلاً یہواہ پاک کی ابدی زندگی، نہ اسے تھکاوٹ ہے، نہ نیند، نہ موت۔ اسی طرح انسان کے بارے میں خاص مشیّتِ ایزدی۔ گویا ساری چیڑھی گانٹھیں آسان بنائی جا سکتی ہیں۔ انسانی صُورت و سیرت میں خُدا کو انسانی جذبات و احساسات سے مُتّصِف ٹھہرائے جانے کا عقیدہ تابندہ کر دیتا ہے خُداوندِ قُدُّوس کی روحانی موت سے استثنا کو۔ اسی کو نفسیات کی زبان میں ہستیِ مُطلق کہتے ہیں۔ ایک نُکتہ تو یہ ہے کہ بظاہر انسانی خواص سے مُتّصِف ہو کر خُدا کے کلام کرنے کے عمل اور اُس کے دین کا مُمکنہ غلط فہمیوں اور بُہتانوں سے بچاو اِس اعترافِ حقیقت کے ساتھ کر لیا جاتا ہے کہ یہواہ وقت اور فاصلوں کی حدود سے ماورا ہے۔ دُوسرا نُکتہ یہ ہے کہ اس کے بطن البطون اور مرکزی کردار کو تحفُّظ حاصل ہے اس انداز کے خلاف کہ جس کے تحت عبرانیوں نے اپنے آپ کو اندھیرے میں رکّھا تشخص و مرکزیت یعنی عقلِ کُل ہستی کی حیثیت سے وُجُود میں ہونے کی حالتِ دائمی اور رُوح کے بارے میں بھی مُعاملات عبرانی لوگ اور ان کے دانا اپنے ذہنوں میں کھنگال نہ سکے۔ یہواہ کے ساتھ ضمائرِ شخصی منسُوب نہ کر سکے، جیسے ہستیِ یہواہ،'' مَیں'' یہواہ،''وُہ'' خُدا یعنی یہواہ۔
جناب اے ڈائسیلر نے اپنے تبصرے میں کہا کہ اس سے وُہ الفاظ مُہیّا ہو جاتے ہیں جن کے ذریعے اظہار کِیا جا سکتا ہو کہ تشخّص کے لیے اصل خواص ہیں کیا کیا، یعنی علم اور دانش، قُوّتِ ارادی اور حِسِّ آزادی۔۔۔۔۔۔ کلام کے محض موضُوعی امرتک ہی محدُود رہ کے نہیں بل کہ خُدا کے اپنے لہجے میں جب وُہ خُود بول رہا ہوتا ہے اس کا اظہارہو۔ درحقیقت بائبل مُقدّس کا عہدِ عتیق ہر اس چیز کا احاطہ کرتا ہے جس کا تعلُّق مشیّتِ ایزدی سے ہوتا ہے، خارجی لحاظ سے بھی اپنے خلق کردہ عالَمِ کون و مکاں کہ جس کے بارے میں کلمہء اُلُوہیّت ایسا ہے جس نے تاریخ ہی بدل کے رکھ دی اور تخصیصی الہامی لفظ یہواہ نے بھی اس تبدیلی سے اثر لیا۔
(Die Grundbotschaft des Alten Testaments, in B. Dreher u.a. (hg.), Handbuch der Verkündigung 1, Freiburg 1970, S. 162.) Siehe: Theodor Schneider, Was wir glauben. Düsseldorf: Patmos, 1988, p. 97.