German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سُوال نمبر58

مُقدّس متی 18:16کے اعتبار سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے شاگردِ رشید پطرس سے کہا کہ وُہ کیفا ہے یعنی چٹان ہے جس پر وہ اپنی کلیسیا تعمیر کریں گے۔ حتّٰی کہ یہ بھی فرمایاکہ آسمان کی بادشاہی کی چابیاں بھی وُہ اُسی کے حوالے کر دیں گے۔ یعنی وُہ کلیسیا جو پطرس پر بنائی جائے گی اس میں پطرس اپنے قائم مقاموں کی معرفت سدا سرداری کرتا رہے گا۔ اللہ اللہ! کیا مقام!!۔۔۔۔۔۔ مگر چند ہی آیات آگے منظر نامہ ہی بدل جاتا ہے، حضرت عیسیٰ رُوحُ اللہ، پطرس کوفرماتے ہیں کہ دُور ہو جا میری نگاہوں سے تُو او شیطان!۔۔۔۔۔۔ اوہو ہو ہو، یہ ذِلّت، یہ پستی، اِتنی بے آبرُوئی!!! مَیں کِس بات پر یقین کروں؟ ہیں جی؟ پطرس کو شیطان شُمارکروں یا اُسے وہ تعظیم دُوں جو آسمان کی بادشاہت کے کلید بردار کا حق ہے؟

 

جواب:۔ مُقدّس متی، 16، آیت 18میں کلامِ اقد س ہے:

''اور مَیں تُجھ سے کہتا ہُوں کہ تُو (پطرس) کیفا ہے اور مَیں اس کیفا (چٹان) پر اپنی کلیسیا بناؤں گا اور عالمِ اسفل کے دروازے اُس پر غالب نہ آئیں گے''۔

اِس کا مطلب ہے کہ بُرائی کے جو اثرات و نتائج ہیں، وُہ بنی نوعِ انسان کو پہلے تو اُس موت کے دروازے پر لا کھڑا کرتے ہیں جس کے اندر گُناہ ہی گُناہ بھرے پڑے ہوتے ہیں جو انسان کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے جب وُہی گُناہ آلُود انسان بالآخِر اٹل موت کے نوکیلے دانتوں تلے جا پِستا ہے۔ انسانیت کو بچانے کے لیے کلیسیا نے یہ کام اپنے ذِمّہ لیا ہے کہ وُہ ان خُداوندِ خُدا کے پسندیدہ، منتخب انسانوں اور موت کی حُکمرانی کے درمیان ڈھال بن کر رہے گی، اصل اور دائمی موت اُن کا کُچھ نہ بِگاڑ سکے گی، شیطان اور دُنیا میں پھیلے اُس کے چیلے اُسے کوئی نُقصان نہ پہنچا سکیں گے اور وُہ اِنسان خراماں خراماں آسمان کی بادشاہت یعنی خُداوند کی بادشاہی میں جا داخل ہو گا۔

حوالہ۔۔۔۔۔۔کلسیوں۔۔۔۔۔۔13:1آیت 

1۔ قرنتیوں۔۔۔۔۔۔26:15 آیت

مکاشفہ۔۔۔۔۔۔8:6 آیت

۔۔۔۔۔۔13:20 آیت

فنا کی وادی یعنی موت کے ملک کی طرح خُداوندوں کے خُداوند کی بادشاہت کے بھی دروازے ہیں۔ پاک خُداوند کی بادشاہت کے دروازوں سے بس وُہی اندر آ سکتے ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو اِس لائق بنایا ہو۔ اِس قابل ہوں کہ اُنھیں داخلے کی اجازت سے سرفراز کِیا جا سکتا ہو۔ مُقدّس متی13:23آیت میں پاک خُداوند یسُّوع مسیح کا فرمان ہے: 

''۔۔۔۔۔۔لیکن تُم پر افسوس! اے فقیہو اور فریسیو!! اے ریاکارو! کیوںکہ تُم آسمان کی بادشاہی لوگوں کے لیے بند کرتے ہو۔ نہ تو آپ داخل ہوتے ہو اور نہ اندر جانے والوں کو داخل ہونے دیتے ہو''۔

مُقدّس رسول پطرس کو اُن دروازوں کی کُنجیاں سِپُرد کی جاتی ہیں یعنی اُس کو یہ کِردار سونپ دیا جاتا ہے جو کلیسیا کی وساطت سے اُسے مِلا کہ وُہ قاردِ مطلق خُدا کی بادشاہی کے دروازے کلید بردار ہونے کے اعزاز کے بِرتے کھولے گا بھی اور بند بھی کردینے کا مجاز ہو گا۔

اگر خُدا کی بخشی توفیق آپ کو حاصل ہو تو تلاوت کیجیے: مُقدّس متی۔۔۔۔۔۔ باب16، آیت23:

''اُس نے پِھر کر پطرس سے کہا۔۔۔۔۔۔ اے شیطان! میرے سامنے سے دُور ہو۔ تُو میرے لیے ٹھوکر کا باعث ہے۔ کیوں کہ تُو خُدا کی باتوں کا نہیں بل کہ آدمیوں کی باتوں کا خیال رکھتا ہے''۔

مُقدّس متی21:16ویں آیت میں خُداوند پاک یسُّوع مسیح نے اپنے اُوپر آنے والے اذیّت ناک دنوں کے بارے میں پہلی دفعہ مطلع کرتے ہُوئے یہ خبر بھی پیشگی سُنا دی تھی کہ اُسے یروشلم جانا پڑے گا اور وہاں بہُت سے دُکھ اُٹھانے پڑیں گے۔ اور وہاں پایانِ کار۔۔۔۔۔۔ بالکل سچ بات ہے، اُسے موت سے ہمکنار کر دیا جائے گا۔ تاہم مر جانے کے تیسرے دِن وُہ مُردوں میں سے جی اُٹھے گا۔ مسیحیّت کی شان، اذیّت کے کرب کے ساتھ اکٹھی کر دِکھائی ازلی ابدی مسیحا مُقدّس خُداوند یسُّوع نے۔ یہ بس اُسی کے حوصلے اور استقامت کی زندہ مثال ہے جو اُس کی ربوبیت کے بَل پر قائم کی۔

حوالہ۔۔۔۔۔۔ حبقوق۔۔۔۔۔۔13:3 آیت

1۔ سموئیل۔۔۔۔۔۔10:2 آیت

مزمور۔۔۔۔۔۔2

جلال اور شان والے خُدا کے اِس اذیّتیں برداشت کرنے والے مردِ غمناک (حوالہ اشعیا53باب) کہ اُس نے عالمِ انسانیت کے لیے اپنی مسیحائی کا فضل بھی ساتھ ساتھ جاری رکھا۔

حوالہ۔۔۔۔۔۔ اشعیا۔۔۔۔۔۔1:42تا9 آیت

1:49 تا 6 آیت

مُقدّس خُداوند نے اپنے شاگردوں کو ان کے عقیدہ پر مضبُوط رکھنے کے لیے پیش آنے والے بُحران سے خبردار اور اِس کے لیے تیّار بھی کِیا۔ وہ بُحران تھا خُداوندِ خُدا کی موت اور پِھر اُس کے جی اُٹھنے کا واقعہ۔ تُم میری سیدھی صاف راہ کا روڑا ہو، رُکاوٹ ہو، پتھّر ہو جس سے ٹھوکر لگ سکتی ہے۔ ایسا کیوں کہا خُداوند یسُّوع نے؟۔۔۔۔۔۔ ایسا کہنے میں اُس کی مُراد یہ تھی کہ وُہ رسول پطرس کو سمجھا جارہا تھا کہ تُجھ میں میرے جا پڑنے کی زبردست اِمکانی صُورت چِھپی ہے۔ کیوں کہ تُو نے بات ہی ایسی کی ہے۔ (مُقدّس پطرس خُداوند کو موت کے مُنہ میں جانے سے روک رہا تھا مگر یہ حُکمِ ربّی کے خلاف بات تھی کیوں کہ وُہ ہونا تھا جو ہو کر رہنا تھا)۔ نافرمانی تو یسُّوع پاک کے نزدِیک بے وفائی تھی، یعنی موت تھی، المناک موت۔ یہی وَجہ تھی جس پر خُداوند نے مُقدّس پطرس کو اپنی راہ کا روڑا بتایا اور شیطان کہا کہ شیطان کا کام بھی تو اچھّے کام میں رُکاوٹیں ڈالنا اور بھٹکانا ہوتا ہے، تا کہ بندہ حُکم عدُولیاں کرتا پھرے۔ یونانی زُبان میں راہ کے پتھّر کو سکیندالون کہتے ہیں۔ اگر آپ بائبل پاک میں مُقدّس متی۔۔۔۔۔۔1:4تا 10کی تلاوت سے مشرّف ہوں تو آپ کو پتا چلے گا کہ اس کے مصنّف رسول نے بتا دیا تھا کہ شیطان کی اُن ملعُون و مطعُون مساعی کے بارے میں جو اُس نے پاک خُداوند یسُّوع مسیح کو ورغلانے پر صَرف کر دی تھیں۔ گو بے اثر او ربے نتیجہ رہیں۔ غارت گئیں مگر تھیں بڑی تیکھی۔ بڑے اچانک وار تھے۔ حُکم برداریِ خُداوندِ قُدُّوس کی خاطر رضاکارانہ عاجزی، خاکساری، پست حالی قُبُول کرتے ہُوئے یسُّوع پاک اُس کی راہ میں بے چُون و چرا کرب و آزار سے گُذرتا رہا اور سب دُکھ، درد، صدمے، رنج، کلفتیں، مشقّتیں برداشت کرتا، اپنی جان پر سہتا، رواں دواں رہا۔ شیطان کے ورغلانے، اُس کے بھٹکانے میں نہ آیا۔ خُدا باپ کی بتائی راہ پر چلتا رہا جس طرح خُدا بیٹے کے چلنے کا حق تھا۔ مُقدّس رسول پطرس اور دُوسرے مُقدّسین نے پُوری پُوری آس باندھ لی تھی بل کہ خُداوندِپاک یسُّوع کے آخری سانس، آخری ہچکی تک اُنھیں یقین تھا کہ آخِر کب تک؟۔۔۔۔۔۔ بالآخِر پانسا پلٹے گا۔ خُداوند اپنی طاقت، اپنی قُدرت، اپنا جلال کام میں لائے گا اور دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کے جمِ غفیر کے سامنے، دھرتی پر موجُود اپنے تمام دُشمنوں کو کیفرِ کِردار تک پہنچاتے ہُوئے فتح کے عَلَم بُلند کر دے گا مگر ایسا کُچھ بھی نہ ہُوا۔ یسُّوع کے حواریوں میں مایُوسی چھاگئی، بد دِلی پھیل گئی۔ اُس وقت تک اُس کے شاگردوں کی حالتِ زار دیکھی نہ جاتی تھی جب تک مُقدّس رُوحُ الحق کا اُن کے درمیان نُزُول نہ ہُوا۔ اُس کی برکت اور فضل سے پطرس اور دُوسرے شاگردوں کو یہ استطاعت نصیب ہُوئی کہ صلیب اور خُود خُداوند کی دُوسری زِندگی کے باب میں اصل حقیقت اور الٰہی مصلحت و مشیّت جان سکیں۔ پاک خُداوند کے تمام حواری، وُہ لوگ جو اُس کے پیروکار ہونے کا دم بھرتے ہیں اور اُنھیں مُقدّس یسُّوع مسیح کی شاگردی کا دعویٰ ہے یہ جان رکھیں کہ اُنھیں اُس مسیحی راہ کا راہرو بننا ہے جس میں گُل و گُلزار نہیں، سنگ و خار ہی سنگ و خار ہیں۔ ناہموار اور پتھروں بھرے راستے اُن کے انتظار میں ہیں جن پر اُنھیں، خواتین ہوں یا مرد، برہنہ پا چلنا ہے اور ''سِی'' تک نہیں کرنی۔ ایسا کریں گے تو یہ عِزّت مآب جان سکیں گے کہ خُداوندِخُدا کے ساتھ صُعُوبتوں اور اذیّتوں کو جھیلنے کا راستہ ہے۔سچ پُوچھیے تو مَحَبّت، مَحَبّت اور نجات کا راستہ ہے، اور۔۔۔۔۔۔ اُن قابلِ احترام شخصیات کے لیے تو خاص یہی راستہ ہے جنھیں مُقدّس پطرس کے جانشین ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور کلیسیائی اُمُور کی انجام دہی کے لیے وُہ خادمانِ دِین کے منصب پر فائز ہیں۔ یہی چوپانی ہے، یہی پاسبانی ! 

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?