German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سُوال نمبر57

انجیلِ مُقدّس میں یوحنّا باب تین، آیت تیرہ میں لِکھّا ہے کہ واحد حضرت عیسیٰ علیہ اسلام ہی تھے جو آسمان پر سے اُترے تھے، آسمان پر چڑھ گئے۔ کلامِ مُقدّس میں 2ملوک باب 2آیت11میں الیاس علیہ السلام آسمان کی طرف چڑھ گئے۔ اور 2قرنتیوں باب12، آیت 2تا 4ایک شخص کے بارے میں بتاتی ہے کہ تیسرے آسمان تک یکایک اُسے اُٹھا لیا گیا۔ مزید یہ کہ عبرانیوں، باب11، آیت 5کہتی ہے کہ ایمان ہی سے حنوک کو اِس دُنیا سے اُٹھا لیا گیا۔ پہلے حوالہ میں فردِ واحد کی بات کی گئی، یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی لیکن وہی کتابِ مُقدّس تین دُوسرے لوگوں کا بھی ذِکر کرتی ہے۔ کیا کہیں گے آپ؟

 

جواب:۔سبھی مذاہبِ عالم میں آسمان کا حوالہ یُوں ہی ہے کہ یہ خُدا، بعض کے لحاظ سے خُداؤں، دیوتاؤں اور بعض اِس عقیدے پر قائم ہیں فطرتی قُوّتوں سے بالاتر قُوّتوں کے رہنے کا مقام ہے آسمان۔ اُسی دم یہ بھی مانا جاتا رہا ہے کہ عقبیٰ یعنی عالمِ آخرت جو بے پایاں ہے، بسیط ہے، لا محدُود ہے، آسمان اس کا اِستعارہ بِالکنایہ ہے اور ماوراے عالم ہادیِ مُطلق ہستی کی علامت یعنی خُدا کی علامت ہے۔ علمِ تفسیر سے استفادہ کرتے ہُوئے کہا جا سکتا ہے کہ اس کی تفصیل، اس کے معانی، بہُت سی مُختلف سطحوں پر پھیلے ہیں، اس میں ایک مقام، ایک جگہ ہے آسمان، جس کا اِدراک زمانہء قدیم سے چلے آرہے نظریات کو سامنے رکھ کے بآسانی کِیا جا سکتا ہے جس کے مُطابِق آسمان اس کائنات کا ایک حصّہ ہے۔ اسے ہم ستاروں اور سیّاروں بھرا گنبدِ افلاک کہہ سکتے ہیں۔ یہ نصف کُرہ فلکی اوندھا پیالہ ہے جو سپاٹ زمین پررکّھا ہے۔ اِسی طرح علمِ الٰہیات میں کھو جائے تو پتا چلے گا کہ آسمانِ آخِر پر اُس کا عرش رکّھا ہے جس پر بیٹھ کے خُدا آدم زادوں کے نصیبوں والے فرمان جاری کرتا ہے۔ مُقدّس پُرانا عہد نامہ بھی اساطیری تعبیرات کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ ہستیِ خُداوند بھلا اِس ارض و سما میں کہاں سما سکتی ہے۔ آسمانوں میں اُس کی رہایش تو ایک حوالہ ہے اُس کی ماورائیت کا۔ ماوراے ادراک ہونے کی کیفیت کا۔ نزدیکی میں بھی دُوری کا، اور بُعد میں قُرب کا۔ وُہ نزدیک سے بھی خُدا ہے اور دُور سے بھی۔

حوالہ۔۔۔۔۔۔ارمیا۔۔۔۔۔۔23:23اور آگے۔

وُہ جو ہر لحظہ موجُود، ہر لمحہ قریب، رگِ جاں سے بھی زیادہ قریب ہے، وُہی خُدا ہے، اور اُسی کا جلال عرش فرش سب پر محیط ہے۔

حوالہ۔۔۔۔۔۔ اشعیا۔۔۔۔۔۔3:6 

وہ اپنے بندوں کی اِلتجائیں سُنتا ہے، قُبُول کرتا ہے، سبھی بندوں کی۔ اُن کی جو اُس کے اپنے بندے ہیں، پیارے بندے اور اُن کی بھی جنھیں اُن کی نافرمانیوں کے باوُجُود وُہ اپنا سمجھتا ہے اور پیار کرتا ہے، اُس کی مَحَبّت سب کے لیے ہے کیوں کہ وُہ سب کا خُدا ہے، مسیحی کا اور غیر مسیحی کا بھی۔ یہی کہا جاتا ہے کہ خُدا آسمانوں پر رہتا ہے۔ اِسی لیے اُوپر، آسمان، فلک سب اِس اُوپر والے کے نام کے مترادفات ہیں۔

ہوئے تُم دوست جس کے دُشمن اُس کا آسماں کیوں ہو

یہاں آسماں سے مُراد خُدا کی ذات ہے جو ہر چیز پر قادر ہے۔ اِس مصرع میں وُہی الٰہی اسم ہے جسے دُوسرے الفاظ میں بیان کرنے کا ڈھنگ اپنایا گیا ہے۔ جو کُچھ آسمان سے نازل ہوتا ہے، وہی تو ہے جو خُدا نے نازل کِیا۔

دیکھیے:دانیال۔۔۔۔۔۔23:4 آیت

مُقدّس یوحنّا۔۔۔۔۔۔27:3 آیت

اقتدار آسمان کی طرف سے ہے۔ جس کو جو مِلتا ہے آسمان سے مِلتا ہے۔ جب کہا جاتا ہے کہ۔۔۔۔۔۔ آسمان میں ہے، مُراد ہوتی ہے کہ خُدا کے پاس ہے۔ آسمان کی بادشاہی سے یہی مطلب اخذ ہوتا ہے کہ خُدا کی بادشاہی۔

حوالہ۔۔۔۔۔۔:مُقدّس متی۔۔۔۔۔۔19:16 آیت

     ۔۔۔۔۔۔18:18 آیت

     مُقدّس لُوقا ۔۔۔۔۔۔38:19 آیت

عِلمُ الآخرت جو عِلمِ الٰہی کہ وُہ شاخ ہے جس میں آخری آخری چیزوں کا۔۔۔۔۔۔موت، عدالت، بقا کا مُطالَعہ کِیا جاتا ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ علم البشریات اور بشری عِلمُ المسیح کا بھی مُطالَعہ کریں تو یہ نکتہ سامنے آتا ہے کہ خُدا تک فقط ایک ہی ہستی کی رسائی ہُوئی اور وُہ ہے پاک خُداوند یسُّوع مسیح کی ہستی۔ بائبل مُقدّس کے عہدِ عتیق میں بعد والی تصنیفات میں اِس کا ذِکر آغاز میں ہی آ جاتا ہے۔ خُداوندِ پاک یسُّوع مسیح کے بارے میں اُس کے آسمان پر جانے اور صِرف اُسی کے جانے والی بات کا سرچشمہ بھی وُہی ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ الٰہی توفیق ہی کے سبب ہے اور فضلِ ربّی ہے کہ وُہ ہمارے اُوپر احسان کرتا ہے اپنی اُس مہربانی کا کہ اُس کی حُضُوری میں پہنچنے لائق ہو جائیں۔ ورنہ کہاں شانِ ربُوبیّت اور کہاں ہماری اوقات! 

تناظُرِ علمُ المسیحی سے نتائج اخذ کرنے کو بائبل مُقدّس کے عہدِ جدید میں بڑی فوقیت حاصل ہے۔ اپنی ذاتِ بابرکات اور قُدرت و اِستعداد کے مُطابِق خُداوند یسُّوع مسیح اقدس آسمان عرشِ مُعلّٰی سے زمیں پر اُترا۔۔۔۔۔۔ روٹی جو آسمان سے اُتری۔۔۔۔۔۔

مُقدّس یوحنّا۔۔۔۔۔۔13:3آیت

38:6اور 41۔۔۔۔۔۔اور50۔۔۔۔۔۔ 

اور اس کی مراجعت ہُوئی جب وُہ مُردوں میں سے جی اُٹھا، لوٹا تو تختِ ربّی پر اُس کے داہنے ہاتھ آن پدھارا۔

مُقدّس مرقس۔۔۔۔۔۔19:16آیت

اعمال     ۔۔۔۔۔۔21:3آیت

افسیوں     ۔۔۔۔۔۔20:1آیت

     ۔۔۔۔۔۔6:2آیت

عبرانیوں ۔۔۔۔۔۔1:8آیت

1۔پطرس۔۔۔۔۔۔22:3 آیت

خُداوند یسُّوع پاک کے آسمان پر صعود کی تمثال اِسی طرح بیان کی گئی۔ سو، اُس نے اُوپر جانے کا سفر اختیار کِیا اور خُدا کے مسکن تک آ پہنچا۔

عبرانیوں۔۔۔۔۔۔11:9اور آگے،24 آیت

تا کہ دُنیا ختم ہونے سے پہلے کے مہ وسال میں اُس کا ورودِ مسعُود یہاں ہو جائے۔ وُہ مُکتی داتا سب کی نجات کے لیے انسانوں میں پِھر لوٹ آئے۔

عبرانیوں۔۔۔۔۔۔28:9 آیت

اِن معانی و مفاہیم میں یہی ہے کہ جسے مُقدّس پولوس رسول نے یُوں بیان کِیا ہے کہ جو مسیحی رویّہ ہے زِندگی کے باب میں، وُہ پُراُمِّید انتظار کا رویّہ ہے جو وُہ مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح کی متوقّع واپسی کی خُوشی میں ہر دم تازہ رکھتے ہیں۔ وُہ آسمانوںسے دوبارہ زمین پر آئے گا، سب کے بیچ۔

1۔تسالونیکیوں۔۔۔۔۔۔10:1آیت

  ۔۔۔۔۔۔16:4آیت

2۔تسالونیکیوں۔۔۔۔۔۔7:1آیت

صداقت بھری نئی دُنیا اور نئے آسمان کی راہ دیکھتے رہنا ہے جہاں خُداوند پاک، نجات دہندہ آئے گا جس کی تمجید اب بھی ہوتی اور ابدتک جاری رہے گی۔

2۔ پطرس۔۔۔۔۔۔13:3 آیت

اِس ساری گُفتگُو اور اِقتباسات کے لُبِّ لُباب کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ مسیحی نقطہء نظر سے فلک، افلاک، عرشِ بریں، جنت، بہشت، فردوس سب عِلمِ دِین میں آخری اُخروی نجات اور بنی نوعِ انسان کے گُناہوں کے کفارہ کے لیے دِینی اِستعارہ ہیںاُس ملاپ کا، جو انسان اور خُدا کے درمیان کبھی نہ ختم ہونے والا ملاپ ہے۔ یہ بندے کا خُدا کے ساتھ ایک ہوجانا اور آپس میں بندوں کا بندوں سے اتّفاق و اِتّحاد رکھنا بھی ہے، جو یسُّوع مسیح پاک خُداوند کی موت اور بنی آدم کے لیے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے ذریعے مُمکن ہوتا ہے تاکہ خُدا شان والے کے حُضُور موافقت پذیری حاصل ہو جائے۔ اور اُس کی بارگاہ میں حاضری کو مقبُولیت ملے، قُربِ خُداوندی انعام ہو جائے۔ اب بات واضح ہو گئی ہو گی کہ آسمان وقت کی قید سے آزاد کوئی مرئی یعنی کِسی مکانی حقیقت کا نام نہیں۔ نہ ہی یہ کون و مکان میں مکانیت پر محمُول بادشاہی سلطنت ہے۔ لیکن انفرادی منفرد ذاتی حقیقت ضرُور ہے۔ یہ خُدا کے ساتھ پایدار، سدا قائم رہنے والا اِتّحاد ہے، انسانیّت کا خُدا کی ذات میں مدغم ہونے کا عمل ہے، خُدا کہاجانا یہی تو ہوتا ہے اور یہی ہوتا ہے کِسی کو اپنا کر لینا یا کِسی کا ہو جانا۔ اپنائیت کا یہ جذبہ سب انسانوں میں بانٹنا پڑتا ہے۔ خُدا اپنی نعمتیں بانٹتے ہُوئے نہیں دیکھتا کہ میرا ماننے والا ہے کہ نہیں۔ انسان کو بھی پریم بانٹتے ہُوئے نہیں دیکھنا چاہیے کہ سامنے میرا جاننے والا ہے کہ نہیں۔

موازنہ کیجیے:

(ایل۔ ہاگیمَن اور ہِم میل2مسیحی اور آڈیل۔ ٹے ہا۔۔۔۔۔۔ خوری (ہاگے) لیکسیوکن ریلجی اوئے سیر گرُونڈ بیگرِنّے: یہودیت، مسیحیّت، اسلام۔ گراٹس: سٹائیریا 1987۔ صفحات 486تا 488) 

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?