German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سُوال نمبر22

۔اگر تثلیث خُدا تعالیٰ کے خواص اور اس کی فطرت کا حصہ ہے، تب تو آدم زاد کی بھی عادات اور خاصیتیں یعنی اس کی امتیازی سیرت یا خصلت جنھیں خُداوند کریم نے اپنی مشابہت اور صفتِ اُلوہیت میں تخلیق کِیا، اگر یہی بات ہو تو ان کے لیے بھی تثلیثِ خُداوندی میں اِنسان کو مماثلت حاصل ہونی چاہیے۔ آخِر یہ خصوصیات، یہ نُمایاں صفات کیا ہیں؟ بہ الفاظِ دیگر، آخِر وُہ باتیں ہیں کیا کہ نوعِ اِنسان خُدا کے مماثل ہو گئی؟

 

جواب:۔ صاف بات تو یہی ہے کہ اِنسان کے بارے میں جو مسیحی تصوُّر ہے، خصوصاً فرد کے بارے میں جانکاری، وُہ اس رُوحانی اثر کے تحت اسے حاصل ہے جو خُدا کے بارے میں تین بھی ایک بھی ہونے کی افشاے حقیقت کی مرہونِ منّت ہے۔ یہ معرفت اگلے وقتوں سے چلی آ رہی۔ بصیرت کی تاثیر ہے کہ کِسی بھی مردِ خُداوند یا خاتون کی اپنی ذات کے بارے میں پہچان کا جذباتی تعلُّق ہوتا ہے اس کے مذہبی عقیدہ سے، اور اس کے نتیجے میں تشکیل پانے والے اس وژن سے جو خُدا کی ہستی کے بارے میں اس کے ذہن میںجگہ بناتا ہے۔ ڈاکٹر محمد اقبال نے کہا ہے۔

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی

تُو اگر میرا نہِیں بنتا ، نہ بن ، اپنا تو بن

جب بھی اپنے من میں غوطہ زن ہو کر کوئی اپنی کھوج آپ لگا لیتا ہے یا لگا لیتی ہے، کاملاً، تو وُہ اس سعی و عمل کا نتیجہ ہوتا ہے جس سے وُہ ذاتی طور پر گُذرا(یا گُذری) اور خُدا شناسی کے عرفان سے وُہ شخص یا وُہ خاتون جس قدر اور جس طور مستفیض ہوئے۔ علمِ الٰہیات کے ماہر سکالر ایمل برُونر نے خوب بات کہی۔کلچر کوئی بھی ہو اور تاریخ کا کوئی بھی دور ہو اس پر مندرجہ ذیل کہاوت صادق آتی ہے:

مجھے اپنے خُدا کے بارے میں بتاﺅ تو مَیں تُمھیں تُمھاری قدرو ماہیّت بطور اِنسان بتا دوں گا۔

خیال و عکسِ خُداوندی اور اِنسانی محاکات و تمثال اگر غور کِیا جائے تو ایک دُوسرے کا پرتو ہیں۔ کرسچین فلاسفی بہُت جلد اس بات کی تہہ تک پہنچ گئی کہ کِسی بھی شخص کا تثلیثِ خُداوندی کا تماثل ہونا، اصلی وُجُود یا ہستی ظاہر کرنا یہ کہہ کر کہ.... مَیں ہی ہوں.... یا یہ کہنا کہ.... مَیں وُہی ہوں جو مَیں اپنے تئیں آپ ہوں.... بس یہی نہِیں کہ یہ ابتدا میں ہی طے پا گیا تھا، بل کہ بات آگے بڑھی اور اس کا فیصلہ یُوں ہُوا کہ اس کا تو دارومدار اس تعلُّق کے ساتھ ہے جو مثلاً خُدا اور اس کی مخلُوق کے درمیان ہے۔ خُدا کا اِنسانوں سے اور اِنسانوں کا رِشتہ دیگر اِنسانوں سے اور اِنسانوں کا اور اوراور اور اِنسانوں سے۔ کوئی بھی مُتَنَفَّس تب ہی ممکن ہو گا کہ شخص کہلائے، کُلیةً انھی معانی میں جن سے یہ اسمِ نکرہ موسوم ہے۔ اور وُہ بھی باہمی شناخت و قدر شناسی کے ساتھ۔ یہ خُود دسروں میں موجد ہونے والی صُورت ہے اور دُوسروں کے لیے جینے والی رمز ہے۔ فرد، افراد میں موجو دہے تبھی افراد ایک ایک فرد سے عبارت ہیں۔ اور یہ جو فرد ہے نا، یہ اہم کڑی ہے زنجیر میں اپنا تشخص آپ بننے کی۔ کڑی کڑی بھی ہے، زنجیر بھی رہی ہے اور لوہا بھی۔ دُوسروں میں اور دُوسروں کے ذریعے، یُوں مَیں اپنی مَیں تک، اپنے آپ تک پہنچتا ہوں تو تب میری زندگی ایک بھرپور زندگی کہلاتی ہے۔ میرے خوابوں کو تعبیر ملتی ہے اور وُہ زندگی اپنی تکمیل کو پہنچتی ہے۔ وُہ جو فردِ دیگر ہے وُہ اسی لیے ایک اہم جزو ہے اپنی ذات آپ ہونے میں۔ جی ہاں، تین میں ایک خُدا اسی کی ایک زندہ و پایندہ مثال ہے اور اپنے آپے میں ہونا اور اپنے لیے ہونا کوئی متضاد حالتیں ہرگز نہِیں اور نہ ہی ایسا سوچ ایک دُوسرے کے ساتھ روابطِ معکوس کو راہ دیتا ہے۔ اکثر یہی کہا جاتا ہے کہ جتنا زیادہ مَیں اپنے آپے میں ہوں یعنی میری خُودی بلند ہے، اُتنا ہی مَیں دُوسروں کا محتاج نہِیں۔ اور مُجھے دُوسروں کو بھی کُچھ زیادہ درخورِ اعتنا سمجھنے کی احتیاج نہِیں۔ اسی طرح جتنا میرا دارومدار، انحصار دُوسروں پر ہو گا تو اِتنی ہی میری ذات کی نفی ہوتی جائے گی۔ میری مَیں جو میری اصل ہے یعنی میری خُودی.... وُہ ماری جائے گی۔مگر نہِیں، یہ خام خیالی ہے۔ تثلیث میں اکائی اگر ملحُوظِ خاطر رہے تو حقیقت کھُل کے سامنے آجائے گی۔ وُہ حقیقت یہ ہے کہ درج بالا دونوں صُورتیں ایک دُوسرے کے تناسب میں برابر برابر ہیں۔ وِن وِن کی اس صُورتِ حال میں متوازن تعلُّقات قائم رہتے ہیں۔ آدمی ہی آدمی کے کام آتا ہے اور جو خُدا ہے وُہ سب کا کارساز ہے۔ جو خُدا میں ہیں وُہ جُزو میں کُل اور کُل میں جُزو کی مثال ہیں کیوں کہ ان میں پوری پوری یونٹی ہے اور وُہ ایک دُوسرے کے لیے بمثل جسدِ واحد یونائیٹڈہیں اور اُلُوہیت یعنی خُدائی میں بھی ناقابلِ تقسیم طور پر کامل اکائی ہیں۔ اس سے کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے بل کہ جج کر سکتا ہے کہ یہ تعلُّق، واسطہ، رِشتہ، در اصل دُوسروں کے ساتھ گہرے روابط میں رہنا ہی اتحاد و اتفاق کی اعلیٰ ترین شکل ہے۔اور یہی خُدا میں توحید کا متحدہ اِقرار بھی ہے۔ ہم سب ایسی ہی یگانگت، اپنائیت اور اتفاق کے شِدّت سے مُشتاق رہتے ہیں۔ محض یہی نہِیں کہ ایک عالم کو اس میں لپیٹ لیں، نہِیں نہِیں، ہم تو ایسی یونٹی، وحدت کے قائل ہیں جو روابط کے ایسے سلسلے میں مربوط ہو جو اِکائی میں کام کرے اور ایسے میل مِلاپ پر منتج ہو جس میں آپس کے تعلُّقات باہمی چپقلشوں کے ہونے نہ ہونے سے بے نیا زبل کہ ان کے باوُجُود بھی دِن دُونی رات چوگنی ترقّی کریں۔

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?