:سوال نمبر184
دوسری جنگِ عظیم کے دوران ویٹی کن کی جو سرگرمیاں عالمی منظر پر دکھائی دیں، ان کے بارے میں اپنی جانچ سے تو مطلع فرمائیے۔ کیا یہودیوں کو نیست و نابود کر دینے کی نازی حکمتِ عملی میں ویٹی کن کی صوابدید بھی ہٹلر کے شاملِ حال تھی؟
جواب:
۔تقدس مآب پوپ بینی ڈکٹ پندرھویں (Pope Benedict XV)نے پہلی جنگِ عظیم میں عالمی امن کے لیے بڑی زوردار اپیلیں کی تھیں جس پر بڑی تُند و تُرش تنقید کی گئی۔ جنگِ عظیم دوم1939-45عیسوی کے دوران معاملہ یوں برعکس رہا کہ پُرتقدیس جناب پوپ پائیس بارھویں (Pope Pius XII)کے اقدامات کی تحسین و آفرین کی جاتی رہی۔ قریباً ہر کوئی معترف تھا، حتّٰی کہ اُن کے تمام عرصہء حیات کے دوران عالمی جنگ میں اُن کے مؤقف پر اظہارِ ناپسندیدگی بھی کِیا جاتا رہا۔
1963عیسوی میں کہِیں جا کر ایسا ہوا کہ جرمن ڈراما نگار رالف ہوخوٹ نے ڈراما ’’دی ڈپٹی‘‘ (The Deputy)لکھا جسے عوام و خواص میں بڑی پذیرائی ملی۔ اس کھیل میں اس نے جناب پوپ پائیس بارھویں کو موردِ الزام ٹھہرایا کہ اُنھوں نے نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کے استیصال کی علانیہ مذمت نہیں کی تھی۔ بس پھر کیا تھا، ایک قضیہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ سخت قسم کے اختلافِ راے نے ناک میں دم کر دیا۔ کیا مقدس پوپ پائیس بارھویں میں حوصلہ نہ تھا کہ کُھل کے یہودیوں کے قتلِ عام کی مذمت کرتے اور نازیوں کے اس ظلم پر اُنھیں لائقِ ملامت قرار دیتے؟تو کیا وہ نازیوں کے ہم خیال تھے؟ یا جو کچھ ہو رہا تھا اُس کے بارے میں کیا اُنھیں اندھیرے میں رکھا گیا تھا؟ ہوخوٹ تنازُع کا ایک مثبت پہلو بھی سامنے آیا۔ اس کے طفیل اطلاعات و معلومات کا وسیع محفوظ شدہ دستاویزی ذخیرہ منظرِ عام پر آگیا۔ اس آرکائیو خزینے سے بہت سے حالات وواقعات طشت از بام ہوئے۔ بطور سفارتکار اور انچارج امورِ خارجہ(19290)، کارڈینل (1939)، سیکرٹری آف سٹیٹ اور پھر پوپپائیس بارھویں(1939)، جرمنی کے علاوہ نازی افواج کی طرف سے اور جہاں جہاں جو کچھ ہو رہا تھا اس سے یقینا پوری طرح باخبر تھے۔ 1933عیسوی میں اُنھوں نے ہٹلر کے ساتھ ایک پاپائی معاہدے پر دستخط کیے تھے اور بعد ازاں 1937عیسوی میں پاپاے اعظم کے چوپانی فرمان کہ جسے گہری تشویش اور بڑے اضطراب کی حالت میں لکھا گیا تھا، اس کے ڈرافٹ کی تکمیل میں اُنھوں نے قابلِ ذکر کردار ادا کِیا تھا۔ گو کہ اُنھیں نازیوں کے ساتھ مطلق کوئی ہمدردی نہیں تھی، مگر مذہبی رسوم کے حقوق کے ضمن میں وہ امتیازی سفارتی و سیاسی مداخلت کے اعلامیہ کو ترجیح کی نظر سے دیکھتے تھے۔
1939-40عیسوی کے سالوںمیں تاریخ گواہ ہے کہ تقدس مآب پوپ پائیس بارھویں نے سر توڑ کوشش کی کہ جنگ کے شعلے مزید بھڑکنے نہ پائیں۔ مسولینی کو بھی جنگی تعاون سے باز رہنے کی تلقین کر دیکھی تا کہ ہٹلر کے ساتھ اپنے معاہدے سے باہر ہو جائے اور اُنھوں نے محوری طاقتوں سے بھی اپیل کی کہ جارحیت کے بجاے مصالحانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے گفت و شنید سے معاملات طے کریں۔ انسانوں کو جنگ کا ایندھن نہ بنائیں، مذاکرات کی راہ اپنائیں۔ اس عالمگیر جنگ کے تمام عرصہ میں اپنے بہت سے پاپائی خطابات اور کرسمس کے پیغامات میں، زوردار الفاظ میں تو بیشک نہیں مگر بار بار امن کی اپیلیں کیں۔ جنگ کی بے مقصدیت، تباہی و بربادی اور حرمان و زیاں کے اشارے دیے، امن کی میز کے گرد بیٹھ کے مذاکرات سے سلامتی کی راہ نکالنے کی تجویز دی۔ اپناد فترِ اطلاعات قائم کِیا اور اس کا مہتمم منیجر مونیتنی کو بنایا ( جو بعد کے عرصہ 1963-78 عیسوی میں پوپ پال ششم بنے)۔ اس دفتر سے جنگی قیدیوں کی فہرستیں اور خبریں شایع کی جاتی رہیں اور گمشدہ فوجیوں کے بارے میں اطلاعات بھی بہم پہنچائی گئیں۔ یہودیوں اور دوسرے لوگوں کو جنھیں جان کے لالے پڑے تھے اُنھیں پاپائی محلات، عمارتوں اور راہب خانوں میں مکمل رازداری کے ساتھ انسانی ہمدردی میں پناہ دی گئی۔ 1943-44عیسوی میں جب جنگ کے مہیب بادلوں کی لپیٹ میں اٹلی بھی آگیا تو اس تھیئٹر آف وار کو اُس کے انجام سے بچانے کے لیے اٹلی کے بادشاہ پرپوپ پائیس بارھویں نے زور ڈالا کہ وہ مسولینی سے روم کی گلوخلاصی کروائے۔ اس موقع پر پوپ نے بمباریوں کے خلاف بھی شدید احتجاج کِیا۔ جناب پوپ بینی ڈکٹ پندرھویں (جو 1914-22 عیسوی پاپاے اعظم رہے تھے)کی طرح پوپ پائیس بارھویں بھی غیر جانبدار (متحاربین سے الگ) رہنا چاہتے تھے تا کہ اس عالمی فساد کا حصہ نہ بنیں۔ بالشویکیت (روسی اشتراکیت) اور نیشنل سوشلزم کی خطرناکی میں بہنیں بہنیں ہونے میں بھلا کوئی کسر دِکھائی دیتی ہے؟ نہیں نا؟
بجا کہ یہودیوں کے دیس نکالا بل کہ انھیں صفحہء ہستی سے مٹا دینے کی سٹریٹجی (حکمتِ عملی) اظہر من الشمس تھی، آئے دِن ان کے نیست و نابود کیے جانے کی اطلاعات میں اضافہ ہی ہو رہا تھا، ویٹی کن بھی ان خبروں سے بے خبر نہ تھا مگر ایسی معلومات مبہم مبہم نظر آتی تھیں، لگتا تھا بڑھا چڑھا کے مشہور کی جا رہی تھیں، شک کی دُھول میں ان کی شفافیت و صداقت ماند ماند دِکھائی پڑتی تھی۔ وسیع تر جنگ کا دائرئہ کار فوری تصدیق کی راہ میں حائل تھا۔ اطلاعات میں اشتعال و غلو کا عنصر اس قدر محسوس ہوتا تھا کہ کہنا پڑتا ہے ، سوچ سے باہر تھا۔ اس لیے ان پر یقین کر لینا آسان نہ تھا۔ 1943عیسوی کے جنگ آلود موسمِ بہار کے آتے آتے تقدس مآب پوپ پائیس بارھویں کو ہٹلر کے تحت آئے علاقوں اور اس کے جنگی دائرئہ کار کے پھیلاو میں شامل ملکوں پر جو بیت رہی تھی ان سے باوثوق حوالوں سے باہر خبر رکھا جانے لگا۔ ان میں وہ قصے بھی تھے کہ کِس طرح چُن چُن کے یہودیوں کا خاتمہ کِیا جا رہا تھا۔ بہت ہی دردناک خبریں تھیں جو پہنچ رہی تھیں۔ پاپاے اعظم کو ابتداء ً تو اس احساس نے گھیر لیا کہ اس وقت کی صورتِ حالات میں وہ محض مجبور و بے بس تھے۔ کچھ عرصہ بے چارگی کی کیفیت ان پر طاری رہی، ہر طرف آسمان سے بھی آگ برس رہی تھی اور زمین بھی گولا بارود اور نعشوں کی سڑاند سے اٹی پڑی تھی۔ اپنے دو عالمی خطبوں میں پاپاے اعظم نے بڑے پیمانے پر کی جانے والی نسل کُشی کا حوالہ دیا اور 1942عیسوی کے اپنے کرسمس پیغام میں اور پھر پاپائی مجلسِ اعیان میں کارڈینلز سے خطاب کے دوران 2جون1943عیسوی میں اُنھوں نے انسانیت کے قتلِ عام کا مناسب حد تک نوٹس لیا۔ عام سطح پر اصل معاملہ پر اشاروں کنایوں میں بات کی مگر کی تو سہی نا، چاہے اپنی تقریروں میں اُنھوں نے نہ جرمنوں کا نام لیا نہ یہودیوں کا۔ مقدس پوپ نے اپنی تشویش و فکر مندی کے بارے میں بتایا کہ انھیں خدشہ ہے اگر اُنھوں نے مزید کچھ مداخلت کی تو ان لوگوں کے لیے مشکلات پیدا ہو جائیں گی جن کی وہ جانیں اور نقصانات بچانا چاہتے ہیں۔اور یہ بھی اُنھوں نے کِیا کہ تمام بشپ صاحبان کو فری ہینڈ دے دیا کہ اپنی پیش قدمیوں اور سرگرمیوں میں اپنی صوابدید اور عدل گستری سے کام لے سکتے ہیں۔ اس سے دہرے نتائج سامنے آئے۔ بعض احتجاجی اقدامات سے کچل کے رکھ دینے والے جذبات اور حرکتوں اور جرمنوں کی طرف سے کئی تشدد کی وارداتوں کو بڑھاوا مِلا اور دوسرا ردِّ عمل یہ سامنے آیا کہ بین الاقوامی سفارتی مداخلت کے زیرِ اثر سلواکیہ، کروشیا اور ہنگری کے ممالک میں یہودی قوم جلاوطنی کے عذاب سے بچ گئی اور کافی عرصہ تک بچی رہی۔ 16اکتوبر1943عیسوی کو جب یہودیوں کو قیدی بنایا گیا تو اٹلی میں جناب پوپ نے چپ تو سادھے رکھی مگر ان کی ممیزمداخلت نے اس قسم کے سانحہ کو اٹلی میں دوبارہ برپا ہونے کی راہیں بند کر دیں۔
یہ وہ وجوہ تھیں جنھیں ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے جناب پوپ نے ممکنہ حد تک بیان بازی سے احتراز کِیا اور اس کے بجاے دیدہ و دانستہ سفارتی و سیاسی ذرائع سے کام لینے کو اپنا ترجیحی ایجنڈا بنائے رکھا۔ عالمی جنگ جب اپنے کلائمکس اور اس کے بعد اینٹی کلائمکس کی اور بڑھنے لگی تھی تو بہت سے مدبرین کا خیال تھا کہ اب تقدس مآب پوپ اپنے نبوی نقطہء نظر اور مرتبہ کے باوصف جنگ اور جنگ کے بعد کی تباہیوں اور انتقامی کارروائیوں سے بچاو کے لیے اپنا کردار لازمی طور نبھائیں گے۔ 1964عیسوی میں میونخ کے آرچ بشپ جناب جولیئس کارڈینل ڈویپفنر نے اعتراف کِیا کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ جنگ کے بعد کی پس اندیشی ہی کو کام میں لاتے ہوئے جناب پوپ پائیس بارھویں نے شد و مد سے احتجاج کر دیا ہوتا جس کی بازگشت کُل عالم میں سنی جانی تھی۔ اصلاحِ احوال کے ضمن میں جب تاریخ پر پھاہا رکھنے اور ایک دنیا کو تباہیوں بربادیوں سے بچانے کی سبیل پیدا کرنے کی مساعی ریکارڈ پر آجاتیں اور انسانیت ان دُر گھٹنائوں، اڑچنوں، مصائب و آلام، معیشت اور معاش کی مشکلات میں نہ پھنستی جن میں آج بھی گرفتار ہے۔ جو ہونا تھا، سو ہو گیا، تاہم،ہم کِسی طور بھی مجاز نہیں، نہ ہی کوئی جواز پیش کر سکتے ہیں جس کو بنیاد بنا کر ہم پوپ کے خلوصِ نیت پر کوئی شائبہ ذہن میں لائیں، یقینا وقت کی مصلحت، سوچے سمجھے لائحہء عمل، استنادِ حکمتِ عملی جو گہرے اور طویل غور و خوض کے بعد اپنائی گئی اس کی صحت اور صداقت کی ہی پیروی کی ہو گی تقدس مآب پوپ پائیس بارھویں نے۔
(cf. J. Comby with D. MacCulloch, How to Read Church History, vol. 2 [From the Reformation to the present day] London: SCM Press, 1989, S. 213-215.)