German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سوال نمبر171

۔کاریتاس کے بارے میں کچھ ارشاد فرمانا پسند کریں گے؟ کیا یہ خفیہ تنظیمی ادارہ براے تبلیغِ دِینِ مسیحی قسم کی کوئی چیز تو نہیں؟


جواب:

۔25دسمبر 2005…پاپاے اعظم تقدس مآب جناب پوپ بینی ڈکٹ سولھویں نے اپنا چوپانی فرمان جاری کِیا تھا جس کی تھِیم تھی… خدا کی طرف سے محبت انسان کی طرف لپکتی ہے:"Deus Caritas est(= God is love)۔ مسیحی محبت ان کے فرمان کا مرکزی موضوع تھا۔ اور اس فرمان کے دو حصے تھے، پہلے میں اُنھوں نے خلقِ موجودات میں وحدتِ محبت اور نجات کی تاریخ و تفصیل پر اپنی راے سے نوازا۔ دوسرے حصہ میں اُنھوں نے کاریتاس کے بارے میں آگہی دی۔ کاریتاس کو اُنھوں نے کلیسیا کی طرف سے بطور محبت کی برادری کے محبت کی عملی مشق و تربیت سے معنون کِیا۔ مندرجہ بالا سوال کے جواب کے سلسلہ میں پاپاے اعظم کے فرمان سے چند منتخب حصص آپ کی زیرِ توجہ لانا چاہتا ہوں:

19۔[…]کلیسیا کی تمام تر فعالیت اُس کے اس اظہارِ محبت میں جھلکتی ہے کہ وہ ہمیشہ انسان کی بہتری کی جویا رہی اور اب بھی اس کی اچھائیوںکو سراہتی اور اس کی بھلائی کے لیے کوشاں رہتی ہے۔کلمہ اور ساکرامینٹ کے ذریعے انسان کے لیے تبلیغِ انجیلِ مقدس کی فکر کرتی ہے۔ اس کا اقرار و عزم بسا اوقات اس کی مہم پسندانہ و دلیرانہ سرگرمیوں کی حدود جا چھوتا ہے۔ وہ جو منصوبہ سازی کرتی ہے اسے تکمیل تک پہنچاتی ہے اور چاہتی ہے زندگی کے ہر میدان میں انسان کی سرگرم استعداد کے پیچھے اس کا دستِ معاونت و شفقت برابر موجودرہے۔ کلیسیا مقدس خداوند یسوع مسیح میں روح القدس کا گھر ہے اس لیے اس کا فیض اور اس کی برکتیں لامحدود ہیں، تمام انسانیت کے لیے وقف ہیں۔ اس لیے وہ محبت کو خدمت سمجھتی ہے اور یہ خدمت انسان کی مشکلات، مصیبتوں اور اس پر ئے ہوئے آڑے وقتوں میں کام آنے کے لیے، اس کی ضروریات اور توقعات پر پورا اُترآنے کی ہرممکن سعی کے ذریعے ہر دم، ہر آن، ہر لحظہ انجام دیتی رہتی ہے حتّٰی کہ اس کی مادی حاجات میں بھی ممد و معاون رہتی ہے۔[…]

20۔ ہمسایے کی محبت جس کی پنیری خدا کی محبت سے مستعار لی جاتی ہے کلیسیا اسے فرداً فرداً ہر مسیحی ایمان والے کی ترجیحی ذمہ داری قرار دیتی ہے۔ اور ہر سطح پر کلیسیائی برادری کو بھی یہ فرضِ محبت نبھانے کی تلقین و تدریس کرتی رہتی ہے۔ مقامی جماعتوں سے لے کے مقدس کلیسیا اور کلیت میں عالمگیر کلیسیا تک سب کو اس پر قائم رہنے کا استقلال بخشتی ہے۔[…]

22۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ کلیسیا کا دائرئہ عمل دُور دراز تک جا پہنچا۔ انسانی ہمدردی، محبت و رافت، اخلاص اور فیاضی اس کی دیگر سرگرمیوں میں لازمی سرگرمی تھی جسے خوب پذیرائی اور استحکام ملا۔ کلامِ مقدس کی منادی، اقرارِ حضوری، رحمتِ خداوندی کو متوجِّہ کرنے والی رسوم یعنی خداوند یسوع مسیح کی وفاتِ حسرت آیات کے یادگاری تحفے(Sacraments)مگر پڑوسیوں سے محبت، انسانوں سے محبت، او رخدمت کے فرائض ان پر سبقت لے گئے۔ بیوائوں، یتیموں، قیدیوں، بیماروں اور ہمہ قسم ضرورتوں سے محروم لوگوں کی خدمت، معاونت اور ان مجبور و بے کس لوگوں سے محبت دِینِ مسیحی کا ترجیحی فریضہ بن چکی ہے۔ کلیسیا چیریٹی کو دیگر تمام مذہبی خدمات پر فوقیت دیتی ہے۔[…]

کلیسیا کی فیاضانہ سرگرمیوں کی امتیازی خصوصیات

31۔ بہت ہیں، اور مختلف ، نوع در نوع تنظیمیں بھی بہت ہیں جو انسانی احتیاجات کا خیال رکھتی ہیں اور اپنے نیک جذبات کے جلو میں انھیں پورا کر سکنے میں کوشاں رہتی ہیں اس لیے بھی کہ اس حقیقت سے مفر نہیں کہ خدا خالق نے ہمسایے سے محبت (وسیع تناظر میں)کا حکم دیا ہے بل کہ اسے انسان کی سرشت میں جاگزیں کر دیا ہے۔ چناں چہ انسان ہی انسان کے کام آتا ہے۔ اور یہ اس لیے بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدمت کا یہ فطری عمل جاری رہتا ہے کیوں کہ دنیا میں مسیحیت زندہ و قائم ہے۔مسیحیت اس کا برابر اعادہ کرتی رہتی ہے اور خدمتِ انسان کو اپنا دینی لازمہ سمجھتے ہوئے اس کے لیے مصروفِ عمل رہتی ہے اور اپنے اس وصف پر بدرجہ غایت مخلص ہے۔ اس واسطے اپنے اس قسم کے ہر کارِ خیر کو مخفی بھی رکھتی ہے تا کہ جس کے کام آیا جائے اس کی انا کے آبگینے کو ٹھیس نہ لگے اور مدد بھی ہو جائے۔

ہے یہی عبادت یہی دِین و ایماں

کہ دنیا میں کام آئے انساں کے انساں

یہی وجہ ہے ، اور ضروری بھی کہ کلیسیا کی ایسی خدمات سے قابلِ ستایش عمدگی تو مترشح ہو سو ہو۔ مگر دیگر سماجی تنظیموں اور اداروں سے مختلف بھی نظر آئیں۔ اپنی کارکردگی کے ڈھنڈورے پیٹنا اس کے شایانِ شان نہیں۔

تو پھر، عام مسیحیوں اور کلیسیائی جماعتوں کے اعمال میں چیریٹی کن ضروری لوازمات کا مرکب ہے؟

انسانی ہمدردی، اخلاص، فیاضی چیریٹی والے سکّے کا ایک رُک ہیں، دوسرا رُخ محبت و رافت ہے(Love and Tenderness) .

(a)… نیک سامریوں کی داستان کو پیشِ نگاہ رکھتے ہوئے مسیحی چیریٹی جماعت فوری ضرورتوں اور مخصوص صورتِ حالا ت کا جائزہ لیتی ہے اور پھر اپنی حکمتِ عملی طے کرتی ہے کہ ان سے کیوںکر عہدہ برآ ہو سکتی ہے مثلاً افلاس زدہ بھوکوں کو خوراک کی ترسیل، برہنہ لوگوں کی برہنگی چھپانے کی عملی تدبیر، بیماروں کی دیکھ بھال، ان کے لیے طبی سہولیات کی فراہمی اور جو لوگ جیلوں، حوالات میں بند ہیں ان سے ملاقات اور ان کی قانونی امداد اور قیدیوں کے حقوق کا تحفظ اور ان کے لیے انسانی ہمدردی اور امداد، وغیرہ۔ کلیسیا کے خیراتی ادارے، جیسے کہ کاریتاس ہی کو لے لیجیے (ڈائیوسیز’’اسقفی علاقے‘‘، قومی اور بین الاقوامی سطح پر خدمات کے ضمن میں) حتی المقدور وسائل فراہم کرتے ہیں جن سے مسائل حل کیے جا سکتے ہوں۔ کاریتاس دینی رضاکار مہیا کرتی ہے جو اُن حالات میں کارآمد خدمات ادا کرنے کے لیے تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔ دوسروں کے کام آنے پر  آمادہ مسیحیوں کو پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں طاق ہونا چاہیے۔ انھیں کس سچوایشن میں کیا اور کیسے کرنا ہے اس میں مشتاق ہونا چاہیے، یہ نہ ہو کہ تربیت حاصل کریں، تھوڑی بہت یہ رسالتی خدمت ادا کریں اور پھر جلد اُوب کر غائب ہوجائیں۔خدمت کے کام کے لیے جذبہ اور دینی لگن ہونی چاہیے اور ارادے کی مضبوطی بھی۔ انسانیت کی خدمت دِکھتی تو ہے، مگر ہے نہیں آسان کام۔ خداوند یسوع کو ماننے والوں کو بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے، گھر بار سے دُوری، اپنا آرام تیاگنا، دوسروں کی احتیاجات پوری کرنے میں اپنی ذاتی ضروریاتِ زندگی بیک برنر پر لے جانا چند مثالیں ہیں۔ مستقل مزاجی اہم شرط ہے۔ جب کہ پروفیشنل مہارت، خلوص، لگن اوّلین اور بنیادی تقاضے ہیں جنھیں ذمہ داری اور انسانی ہمدردی کے احساسات کے ساتھ پورا کرنے ہوتے ہیں، رنگ، نسل، مذہب سے ماورا سوچ رکھنا ضروری ہے، اکثر مٹی میں مٹی ہونا پڑتا ہے، بودار غریب بستیوں اور گندے ماحول میںناک پر رومال نہیں رکھنا ہوتا۔اگر ایسا کرلیاتو ان لوگوں میں گھل مل کر اصلاح و فلاح کے کام کیسے کر سکیں گے؟ اپنائیت کا تاثُّر دینا پہلی اور آخری ضرورت ہے۔ مگر یہ بھی اتنی کافی نہیں، اس سے بھی زیادہ کی گنجایش ہے۔ انسانوں کے ساتھ انسانیت کا سلوک کرنا ہو تا ہے۔ انسان کی سرشت میں ہے کہ وہ محض تکنیکی طور مناسب دیکھ بھال، ہمدردی اور اخلاص سے مطمئن نہیں ہوتا، اس سے بڑھ کے اس کا متقاضی ہوتا ہے اور اس تقاضے کو محبت پورا کرتی ہے۔ دل سے دل کی راہ انھیں اطمینان دے سکتی ہے۔ پیار ہر مرض کا تیر بہ ہدف دارو ہے۔ مسیحی برادران کلیسیا کے لیے ایسی خدمات انجام دینے میں پیش پیش ہوتے ہیں یہ حقیقت انھیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ وقتی ضروریات ہی بس پوری نہیں کرتے، انھوں نے تو اپنی زندگیاں وقف کر دی ہوتی ہیں تعریف، طمع، تشہیر سے بالا ہوتے ہیں یہ لوگ، بدلے میں تشکر بھی قبول نہیں کرتے، بس اپنا فرض نبھائے چلے جاتے ہیں۔ ہمدردی اور محبت دے کے اطمینان اور محبت سمیٹتے ہیں۔ یوں جب کِسی کے کام آیا جاتا ہے تو ان کے بھی اس احساس کو تقویت ملتی ہے کہ انسانوں کی انسانوں میں توقیر ہے، انسانیت کی عظمت ہے یہ خدمت۔ نتیجہ یہ کہ اپنی پروفیشنل ٹریننگ سے لیس یہ لوگ جب ایسی خدمت کے لیے نکلتے ہیں تو ان کی بھی تالیفِ قلب ہوتی رہتی ہے۔ ان اجر و اُجرت کے نامحتاج ورکز کے لیے خدا مہربان کی طرف سے انعام ہے، یہ حوصلہ افزائی کہ مقدس خداوند یسوع مسیح میں خدا سے ملاقات جو ان کی محبت کو جِلا دیتی اور ان کے جذبوں اور ولولوں کو سدا جوان و توانا رکھتی ہے۔ ان کی ان تھک محنت رایگاں نہیں جاتی۔ خدا ذوالجلال کے ہاں بڑا مرتبہ ہے ان کا اور محبتِ مسیح خداوند ان کا نصیبہ۔ مختصر یہ کہ ہمسایوں سے اور ہمسایوں کے ہمسایوں سے محبت دینی فرمان سے زیادہ، کہنے دیجیے کہ ان کی دینی تربیت اور مذہب کا فیضان ہے جو محبت سے ہی پختہ ہوتا ہے…

کیوں کہ مسیحِ یسوع میں نہ تو ختنہ کچھ فائدہ دیتا ہے اور نہ غیر مختونی… مگر ایمان جو محبت سے عمل کرتا ہے۔

غلااطیوں…6:5

(b)… انسانی ہمدردی، شفقت و محبت اور دان پُن کی جو مسیحی سرگرمیاں ہیں وہ گروہی، نسلی، طبقاتی، سیاسی یا نظریاتی تعلق واسطوں سے بے نیاز ہونا ضروری ہیں۔ کِسی تعصب یا اثر سے متاثر نہ ہونے والی، آزاد و خود مختار ہوں، بیماروں، ناداروں کے دُکھ درد اور مشکلات میں کام آنے کے نصب العین کو مقدم رکھتی ہوں۔ فیاضی اُن کا خاصہ ہو۔ مسیحی چیریٹبل ایکٹویٹی اس لیے نہیں عمل پذیر ہوتی کہ اس کے ذریعہ نہ تو دنیا میں کوئی نظریاتی، دینی تبدیلی لانا مقصد قرار دیا گیااورنہ ہی وہ کوئی حربی تزویر یا مفاد حاصل کرنے کے لیے اختیار کِیا گیا کوئی مسیحی حیلہ ہوتی ہے۔ یہ تو مخلصانہ طور عملی ہمدردی کی ایک مہم ہے جس سے مقصود کُل عالمِ انسانیت میں محبت کا پرچار ہے جس کا انسان طالب ہے۔ محبت کی اشتہا اسے پہلے بھی تھی تو، مگر آج اس بھُوک میں کہِیں زیادہ شدت پیدا ہو گئی ہے۔ پیار کے دو بول اس کے مُردہ حوصلوں میں پھر سے جان ڈال دیتے ہیں۔ عہدِ جدید پر، خصوصاً اوائل انیسویں صدی سے ہی فلسفہء ارتقاء کی چھاپ اپنی مختلف روایتی شکلوں میں غالب آ چکی ہے جس کی جڑوں سے مارکسیت پھوٹی ہے۔ مارکسی تزویر کا ایک جزوِ خاص ابتر زرخیزی یعنی مفلس کرنے کے عمل کی تھیوری پر مبنی ہے۔ جب ہر طرف ظالمانہ، جابرانہ، ناروا، نامنصفانہ طاقتوں نے صورتِ حالا تبگاڑ رکھی ہو، ایسے حالات میں مخیرانہ اور صدقہ خیرات والے فیاضانہ اقدامات کی سرپرستی؟ 

سیدھی سی بات ہے مارکسی تو یہی کہیں گے کہ ایسی صورتِ حالات میں اس قسم کی کریم النفسیاں دِکھانا انصاف اور سچائی کے خلاف نظام کو تقویت پہنچانا بل کہ اس کی خدمت بجا لانے والا عمل ہے تا کہ جو جس حال میں ہے، وہیں اس کے منہ میں دو لقمے ڈال کے واپس سُلا دیا جائے، اپنی حالت سنوارنے کے لیے جاگے نہ، محنت کرنے کے جذبے اور دست و بازو چند سکوں کی خیرات سے شل رہیں۔ گھر پہنچی امداد اُنھیں معیشت، معاش اور معاشرتی تقاضوں کی ادھیڑ بُن سے نجات دِلا کر انھیں صبر، شکر اور قناعت کی نیند سُلا دے، یہ نوشتہء دیوار وہ نہ پڑھیں…

تُو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا

ورنہ گلشن میں علاجِ تنگیِ داماں بھی تھا

اگر مفت کی میسر آتی رہی تو جابرانہ نظام کے بھی لوگ عادی ہو کر صابر شاکر قانع بن جائیں گے۔ یہ توقیرِ انساں پر حرف آنے والی بات ہے، محنت کی عظمت سے آنکھیں مُوند لینے والا عمل ہے۔ انسانیت کی تحقیر ہے۔ ناقابلِ برداشت صورتِ حالات کو کِسی حد تک قابلِ برداشت بنانے والی حکمتِ عملی کا حصہ بن جانے والی چیریٹی ہے۔ مارکسزم اسے رد کرتی ہے۔ مضبوط انقلاب کی امکانی طاقت میں پوشیدہ صلاحیتوں کی رفتار کو دھیما کر دینے والے محرکات میں سے ایک محرک بن جانے والا ’’کارِ خیر‘‘ ہے۔ جو مارکسسٹوں کی نگاہ میں بہتر دنیا دیکھنے والے خواب کو چکنا چور کر دینے کے مترادفات میں سے ایک ہے۔ اس نکتہ سنجی کی بنیاد پر چیریٹی کی سنجیدگی سے اخلاص بھری کاوشوں کو شک سے دیکھنے، انھیں رد کرنے بل کہ اس کے بخیے ادھیڑنے میں اشتمالیت کا جو نظریہ کارل مارکس اور فریڈرک اینجلز کی تعلیمات پر مبنی ہے اس کے ماننے والے پیش پیش ہیں کیوں کہ وہ اسے حسبِ سابق حالت، غیر مبدل صورتِ حالات میں رکھنے کی حوصلہ افزائی کرنے والی سمجھتے ہیں۔ مگر اس ردِّ عمل کو جب زمینی صداقتوں کے حوالے سے غیر جانبدارانہ طور دیکھا جائے تو یہ فلسفہء فقر غیر انسانی اور بے رحمانہ دِکھائی دیتا ہے۔ یہ تو عصرِ حاضر میں سانس اور روح کا رِشتہ برقرار رکھنے کے خواہشمندوں کو مستقبل قریب میں انسان کو چٹ کر جانے والی دیوی کے قدموں میں قربان کر دینے والی حرکت ثابت ہو گی جو انسان کے مستقبل کو ہی خطرے میں ڈال دے گی۔ وہ لوگ جو مارکسزم کے پرچارک ہیں انسانیت کی بھلائی، بہتری اور خوشحالی کے لیے کیسے کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں جب کہ ان کے اپنے رویے سنگدلانہ ہیں، رحمدلی ہمدردی اور مہربانی کی صفات اُنھیں چھُو کر بھی نہیں گذریں۔ چیریٹی کی مسیحی خدمات تو مریضوں کی صحت مندی و تن درستی کے لیے، غریبوں، ناداروں، بے کس او رمجبوروں کی مدد کر کے انھیں اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے نقطہء نظر اور تعلیم کی روشنی پھیلا کر جہالت کی تاریکیاں دُور کرنے کے لیے وقف ہیں۔ اپاہجوں کو مزید اپاہج کوئی کیا بنائے گا، چیریٹی کا مشن غریبوں، محتاجوں کو منگتا بنانا نہیں، انھیں معاشرے کے مفید شہری بنانے کے لیے قعرِ مذلت سے باہر نکال کر دوسروں کے برابر لانے کی سبیل کرنا ہے۔ ہم مسیحی بہتر دنیا کے خواب چکنا چور نہیں کرتے بل کہ ان خوابوں کو خوشحالی اور ترقی کی عملی تعبیر عطا کرنے کے لیے ممد و معاون ہونے کے سلسلے میں ہر دم کوشاں رہتے ہیں اور اپنے حتی الوسع بہترین عمل کے ذریعے اپنے عزم پر پختگی سے قائم ہیں۔ جہاں اور جب بھی ہماری ضرورت ہوتی ہے، ہم پہنچتے ہیں۔ ہم ایسے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں جہاں اپنی پُر جوش و پُرخلوص مخیرانہ سرگرمیاںجاری رکھتے ہوئے اپنے سوچے سمجھے منصوبوں کو کامیابی سے ہمکنار کر سکیں۔ مسیحی پروگرام، مخیر اشخاص کے پروگرام ہیں جو ہماری وساطت سے حاجتمندوں کے کام آتے ہیں۔ انھیں ہم مقدس خداوند یسوع مسیح کے پروگرام قرار دیتے ہیں اور انھیں ہم پیار، محبت اوردل کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، جدھر محبت کی ضرورت ہوتی ہے ادھر کے لیے ہمارا دِل ہمکنے لگتا ہے اور وہیں محبتیں بانٹنے کے لیے جا موجود ہوتے ہیں، وہاں جو بھی خدمت انجام دیتے ہیں ہم مسیحی دِل سے انجام دیتے ہیں۔ انسانوں سے پیار ہے، ہمیں اور انسانیت سے پیار کرنا خداوند یسوع پاک نے اپنی جان تک قربان کرنے کی عملی مثال سے ہمیں سکھایا ہے۔ ایسی مواخاتی پیش قدمی (Communitarian Initiative)کے لیے کلیسیا اپنی ہمدردانہ، فیاضانہ، محبت و خلوص بھری مساعی عمل میں لاتی ہے تو افراد کی برجستگی کی حالت، بے ساختگی کی کیفیت و نوعیّت کو بھی منصوبہ بندی، پیش بینی اور تعاون کا تڑکا لگا ہونا چاہیے تا کہ ایسے ہی بھلائی کے کام کرنے والے دوسرے اداروں کو ساتھ لے کر چلا جا سکے۔

(c) چیریٹی…مہربانی، سخاوت، محبت، انسانی ہمدردی، اخلاص و رافت کے پیچھے کچھ اور ہی مقاصد ڈھونڈنا انسانی جذبوں اور احساسات کی قدر کرنے والوں کو زیب ہی نہیں دیتا۔ اس نیک مشن کو ایسے کاموں کے لیے استعمال ہرگز نہیں کِیا جا سکتا جسے ماڈرن ڈکشن میں پروسیلیٹزم (Proselytism)کہتے ہیں۔یعنی کِسی کا اپنا مذہب چھڑوا کے اپنے والے مذہب کا پیروکار بنانا، یعنی مسیحی بنانا۔ محبت آزاد ہوتی ہے، اس کی تہ میں کوئی مطلب نہیں چھپا ہوتا۔ محبت میں شفافیت ہے، دھوکا نہیں۔ یہ آبِ حیات ہے، سراب نہیں کہ ہو کچھ نظر آئے کچھ اور۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ فیاضی، خیر خواہی ، خیراتی کاموں، نیکی، ہمدردی اور محبت محبت میں خدا اور خداوندیسوع مسیح کا نام لینا ہی چھوڑ دیا جائے۔ ایسی سرگرمیوں میں خوش دلی کے ساتھ حصہ لیا ہی اس لیے جاتا ہے کہ چیریٹی پروگراموں کے ذریعے خدا خالق کی خلقت کی خدمت ہو جائے۔ یہ خدمت غریب ضرورتمند، محتاج انسانوںکا حق، غریب پرور، ضرورت پر کام آنے والوں، الٰہی صفت حاجت روائی سے متصف حاجتیں پوری کر سکنے والوں کا فرض ہے کہ خدا کے دیے میں سے خدا کے بندوں پر خرچ کریں، دُکھ درد، غم مصیبت میں دوسروں کے کام آئیں۔ صحت، تعلیم، انصاف کی سہولتیں معاشرے کی دسترس میں لائیں۔ ایسے کاموں میں مسیحی دوسری سیاسی، مذہبی، سماجی تنظیموں سے بہت آگے ہیں۔ انھیں گھر گھر جا کے تبلیغِ مسیحیت کی دستک دینے کی بھلا کیا مجبوری۔ ان کا کردار، اعمال، جذبات، احساسات، عزم اور ولولے، ارادے اور خلوصِ نیت سب سے بڑی تبلیغ ہے جس کی دستک دروازوں پر نہیں دِلوں پر پڑتی ہے۔ روح القدس کے وسیلے سے خدا بیٹے میں خدا باپ کو ہر سانس کے ساتھ ہم یاد کرتے ہیں، زندگی کے تمام کام اسی کی مدد، رہنمائی کے ساتھ اسی کو ہی راضی رکھنے کے لیے انجام دیتے ہیں، ہمارا اوڑھنا بچھونا، جینا مرنا، مسیحیت ہے مگر دوسروں کو اپنا مذہب بدلنے پر مجبور کرنا ہمارا کام ہے ہی نہیں۔ ہم جہاں پہنچتے ہیں مقدس صلیب گلے میں حمائل کیے خدمتِ انسانی کے لیے پہنچتے ہیں، اپنی صلیب اتار کے دوسروں کے گلے کا ہار بنانے کے لیے نہیں۔ ہم سے بہتر کون پرکھ رکھتا ہے:

یہ رتبہء بلند ملا جس کو مل گیا

ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں

ویسے بھی یہ اٹل حقیقت ہے جس ذِہن، دِل،انسان میں خدا نہ ہو، وہاں بُرے دنوں، امتحانوں، آزمایشوں کا قبضہ مافیا اپنا آفس کھول لیتا ہے۔ مدد کے لیے خدا کو نہ پکارو تو زیست اجیرن رہتی ہے۔

جو مسیحی دوست، بھائی، بہنیں کلیسیا کے حوالے سے چیریٹی پروگراموں کے لیے اپنا آپ وقف کر چکے ہیں وہ کبھی کلیسیائی عقائد کو عام انسانوں، مصیبت کے ماروں کے سر تھوپنے کی حرکت نہیں کرسکتے۔ وہ اچھی طرح یہ ادراک رکھتے ہیں کہ خدا جس پر ہمارا ایمان راسخ ہے اس کے ہاں بے لوث اور وافی محبت کو بڑا مقام حاصل ہے، اسی نے ہمیں محبتوں کی روشن راہیں دِکھائیں۔ اسی کی بارگاہ میں ڈھیر ساری ہماری پُرخلوص محبت گواہی ہے ہماری اس بے لوث خدمتِ انسانیت والی کارکردگی کی، جس کو اس نے اپنی مشیت پوری ہونے کا سبب بنایا، اور شکر ہے یہ اعزاز امتِ مسیحی کے حصے میں آیا۔ مسیحی باقاعدہ طور پر اس بات کی درک رکھتا ہے کہ کب مذہب کی، خدا کی، خداوند یسوع کی بابت ذکر لے بیٹھنے کا سنہری موقع اور موزوں ترین وقت ہوتا ہے۔ سیلاب زدگان مصیبت و آلام، بیماریوں اور فاقہ کشیوں میں مبتلا ہوں اور چیریٹی والے الٰہی رضاکار ان کے سامنے تبلیغی وعظ، پند و نصائح لے بیٹھیں، وہ تو کُتّے چھوڑ دیں گے ان پر جو تیرتے ہوئے ان کے ساتھ خانماں بربادی میں بھی دُم ہلاتے ان کے پیچھے آگئے۔ بہتر یہی ہوتا ہے کہ صبر و تحمل سے کام لیا جائے۔ Fist thing First۔ جو کارِ مفوضہ ہے وہ ہے خدمت، محبت، لگن اور اتھاہ انسانی ہمدردی رکھنے والے جذبہ کے ساتھ خدمت، اسی کے لیے آنے والوں کو پوری دلجمعی، تندہی اور محبت کے ساتھ اپنے کام میں لگے رہنا چاہیے، محبت خود ہی سب کے دِل موہ لے گی، خود ہی سب کہہ اُٹھیں گے ہم نے بھی یسوع کی غلامی میں آنا ہے۔ مسیحی جانتے مانتے ہیں خود خدا بھی محبت ہی محبت ہے…

جس میںمحبت نہیں وہ خدا کو نہیں جانتا کیوں کہ خدا محبت ہے۔

1۔ مقدس یوحنا…8:4

جب بھی ہم آئینے کی گہرائی میں اُتر کے اپنی بھرپور محبت کا عکس اس میں دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں خدا نظر آتا ہے۔ اب اپنے سوال کا جواب اس حقیقت میں تلاش کیجیے۔ محبت کی تحقیر کرنا خدا خالق اور اس کی مخلوق انسان کے سامنے غرور و تکبر کا مرتکب ہونا کہلاتا ہے اور انسان کا غرور و تکبر کرنا خدا کو ذرا بھی پسند نہیں کیوں کہ یہ تو خود خدا بن کے مالکِ حقیقی خدا قادر و عظیم کو خاطر میں نہ لانے والی بات ہے۔ توبہ توبہ! کانوں کو ہاتھ! دست بستہ معافی!!

لہٰذا، خدا جلال و رفعت والے کی ترجمانی اور اس کے بندے، اس کی صنّاعی کے شاہکار انسان کی حمایت اور دفاع بلا کم و کاست کہا جا سکتا ہے کہ محض محبت ہی سے ممکن ہیں۔ مقدس کلیسیا کی ایسی مدد امداد اور ہمہ قسم تعاون اور دیکھ بھال کرنے والی مسیحی تنظیموں پر لازم ہے کہ اپنے رفقاء کے دِلوں اور ذہنوں میں یہ آگاہی ٹھہرا دیں تا کہ اپنی فعال سرگرمیوں کے دوران نہ صرف اپنی خدمت و محبت کے ذریعے بل کہ اپنی زبان سے، زبانِ بے زبانی سے، اپنے کردار و عمل کی جیتی جاگتی مثالوں اور حسنِ اخلاق کے تاثُّر کے لحاظ سے مقدس خداوند یسوع المسیح کے حضور قابلِ اعتماد و معتبر گواہ کے طور پر پیش ہونے کی سعادت پانا ہے کہ ان کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جن سے تُو بے حد و بے حساب غیر مشروط محبت کرتا ہے۔

:سوال نمبر171

۔کاریتاس کے بارے میں کچھ ارشاد فرمانا پسند کریں گے؟ کیا یہ خفیہ تنظیمی ادارہ براے تبلیغِ دِینِ مسیحی قسم کی کوئی چیز تو نہیں؟


جواب:

۔25دسمبر 2005…پاپاے اعظم تقدس مآب جناب پوپ بینی ڈکٹ سولھویں نے اپنا چوپانی فرمان جاری کِیا تھا جس کی تھِیم تھی… خدا کی طرف سے محبت انسان کی طرف لپکتی ہے:"Deus Caritas est(= God is love)۔ مسیحی محبت ان کے فرمان کا مرکزی موضوع تھا۔ اور اس فرمان کے دو حصے تھے، پہلے میں اُنھوں نے خلقِ موجودات میں وحدتِ محبت اور نجات کی تاریخ و تفصیل پر اپنی راے سے نوازا۔ دوسرے حصہ میں اُنھوں نے کاریتاس کے بارے میں آگہی دی۔ کاریتاس کو اُنھوں نے کلیسیا کی طرف سے بطور محبت کی برادری کے محبت کی عملی مشق و تربیت سے معنون کِیا۔ مندرجہ بالا سوال کے جواب کے سلسلہ میں پاپاے اعظم کے فرمان سے چند منتخب حصص آپ کی زیرِ توجہ لانا چاہتا ہوں:

19۔[…]کلیسیا کی تمام تر فعالیت اُس کے اس اظہارِ محبت میں جھلکتی ہے کہ وہ ہمیشہ انسان کی بہتری کی جویا رہی اور اب بھی اس کی اچھائیوںکو سراہتی اور اس کی بھلائی کے لیے کوشاں رہتی ہے۔کلمہ اور ساکرامینٹ کے ذریعے انسان کے لیے تبلیغِ انجیلِ مقدس کی فکر کرتی ہے۔ اس کا اقرار و عزم بسا اوقات اس کی مہم پسندانہ و دلیرانہ سرگرمیوں کی حدود جا چھوتا ہے۔ وہ جو منصوبہ سازی کرتی ہے اسے تکمیل تک پہنچاتی ہے اور چاہتی ہے زندگی کے ہر میدان میں انسان کی سرگرم استعداد کے پیچھے اس کا دستِ معاونت و شفقت برابر موجودرہے۔ کلیسیا مقدس خداوند یسوع مسیح میں روح القدس کا گھر ہے اس لیے اس کا فیض اور اس کی برکتیں لامحدود ہیں، تمام انسانیت کے لیے وقف ہیں۔ اس لیے وہ محبت کو خدمت سمجھتی ہے اور یہ خدمت انسان کی مشکلات، مصیبتوں اور اس پر ئے ہوئے آڑے وقتوں میں کام آنے کے لیے، اس کی ضروریات اور توقعات پر پورا اُترآنے کی ہرممکن سعی کے ذریعے ہر دم، ہر آن، ہر لحظہ انجام دیتی رہتی ہے حتّٰی کہ اس کی مادی حاجات میں بھی ممد و معاون رہتی ہے۔[…]

20۔ ہمسایے کی محبت جس کی پنیری خدا کی محبت سے مستعار لی جاتی ہے کلیسیا اسے فرداً فرداً ہر مسیحی ایمان والے کی ترجیحی ذمہ داری قرار دیتی ہے۔ اور ہر سطح پر کلیسیائی برادری کو بھی یہ فرضِ محبت نبھانے کی تلقین و تدریس کرتی رہتی ہے۔ مقامی جماعتوں سے لے کے مقدس کلیسیا اور کلیت میں عالمگیر کلیسیا تک سب کو اس پر قائم رہنے کا استقلال بخشتی ہے۔[…]

22۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ کلیسیا کا دائرئہ عمل دُور دراز تک جا پہنچا۔ انسانی ہمدردی، محبت و رافت، اخلاص اور فیاضی اس کی دیگر سرگرمیوں میں لازمی سرگرمی تھی جسے خوب پذیرائی اور استحکام ملا۔ کلامِ مقدس کی منادی، اقرارِ حضوری، رحمتِ خداوندی کو متوجِّہ کرنے والی رسوم یعنی خداوند یسوع مسیح کی وفاتِ حسرت آیات کے یادگاری تحفے(Sacraments)مگر پڑوسیوں سے محبت، انسانوں سے محبت، او رخدمت کے فرائض ان پر سبقت لے گئے۔ بیوائوں، یتیموں، قیدیوں، بیماروں اور ہمہ قسم ضرورتوں سے محروم لوگوں کی خدمت، معاونت اور ان مجبور و بے کس لوگوں سے محبت دِینِ مسیحی کا ترجیحی فریضہ بن چکی ہے۔ کلیسیا چیریٹی کو دیگر تمام مذہبی خدمات پر فوقیت دیتی ہے۔[…]

کلیسیا کی فیاضانہ سرگرمیوں کی امتیازی خصوصیات

31۔ بہت ہیں، اور مختلف ، نوع در نوع تنظیمیں بھی بہت ہیں جو انسانی احتیاجات کا خیال رکھتی ہیں اور اپنے نیک جذبات کے جلو میں انھیں پورا کر سکنے میں کوشاں رہتی ہیں اس لیے بھی کہ اس حقیقت سے مفر نہیں کہ خدا خالق نے ہمسایے سے محبت (وسیع تناظر میں)کا حکم دیا ہے بل کہ اسے انسان کی سرشت میں جاگزیں کر دیا ہے۔ چناں چہ انسان ہی انسان کے کام آتا ہے۔ اور یہ اس لیے بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدمت کا یہ فطری عمل جاری رہتا ہے کیوں کہ دنیا میں مسیحیت زندہ و قائم ہے۔مسیحیت اس کا برابر اعادہ کرتی رہتی ہے اور خدمتِ انسان کو اپنا دینی لازمہ سمجھتے ہوئے اس کے لیے مصروفِ عمل رہتی ہے اور اپنے اس وصف پر بدرجہ غایت مخلص ہے۔ اس واسطے اپنے اس قسم کے ہر کارِ خیر کو مخفی بھی رکھتی ہے تا کہ جس کے کام آیا جائے اس کی انا کے آبگینے کو ٹھیس نہ لگے اور مدد بھی ہو جائے۔

ہے یہی عبادت یہی دِین و ایماں

کہ دنیا میں کام آئے انساں کے انساں

یہی وجہ ہے ، اور ضروری بھی کہ کلیسیا کی ایسی خدمات سے قابلِ ستایش عمدگی تو مترشح ہو سو ہو۔ مگر دیگر سماجی تنظیموں اور اداروں سے مختلف بھی نظر آئیں۔ اپنی کارکردگی کے ڈھنڈورے پیٹنا اس کے شایانِ شان نہیں۔

تو پھر، عام مسیحیوں اور کلیسیائی جماعتوں کے اعمال میں چیریٹی کن ضروری لوازمات کا مرکب ہے؟

انسانی ہمدردی، اخلاص، فیاضی چیریٹی والے سکّے کا ایک رُک ہیں، دوسرا رُخ محبت و رافت ہے(Love and Tenderness) .

(a)… نیک سامریوں کی داستان کو پیشِ نگاہ رکھتے ہوئے مسیحی چیریٹی جماعت فوری ضرورتوں اور مخصوص صورتِ حالا ت کا جائزہ لیتی ہے اور پھر اپنی حکمتِ عملی طے کرتی ہے کہ ان سے کیوںکر عہدہ برآ ہو سکتی ہے مثلاً افلاس زدہ بھوکوں کو خوراک کی ترسیل، برہنہ لوگوں کی برہنگی چھپانے کی عملی تدبیر، بیماروں کی دیکھ بھال، ان کے لیے طبی سہولیات کی فراہمی اور جو لوگ جیلوں، حوالات میں بند ہیں ان سے ملاقات اور ان کی قانونی امداد اور قیدیوں کے حقوق کا تحفظ اور ان کے لیے انسانی ہمدردی اور امداد، وغیرہ۔ کلیسیا کے خیراتی ادارے، جیسے کہ کاریتاس ہی کو لے لیجیے (ڈائیوسیز’’اسقفی علاقے‘‘، قومی اور بین الاقوامی سطح پر خدمات کے ضمن میں) حتی المقدور وسائل فراہم کرتے ہیں جن سے مسائل حل کیے جا سکتے ہوں۔ کاریتاس دینی رضاکار مہیا کرتی ہے جو اُن حالات میں کارآمد خدمات ادا کرنے کے لیے تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔ دوسروں کے کام آنے پر  آمادہ مسیحیوں کو پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں طاق ہونا چاہیے۔ انھیں کس سچوایشن میں کیا اور کیسے کرنا ہے اس میں مشتاق ہونا چاہیے، یہ نہ ہو کہ تربیت حاصل کریں، تھوڑی بہت یہ رسالتی خدمت ادا کریں اور پھر جلد اُوب کر غائب ہوجائیں۔خدمت کے کام کے لیے جذبہ اور دینی لگن ہونی چاہیے اور ارادے کی مضبوطی بھی۔ انسانیت کی خدمت دِکھتی تو ہے، مگر ہے نہیں آسان کام۔ خداوند یسوع کو ماننے والوں کو بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے، گھر بار سے دُوری، اپنا آرام تیاگنا، دوسروں کی احتیاجات پوری کرنے میں اپنی ذاتی ضروریاتِ زندگی بیک برنر پر لے جانا چند مثالیں ہیں۔ مستقل مزاجی اہم شرط ہے۔ جب کہ پروفیشنل مہارت، خلوص، لگن اوّلین اور بنیادی تقاضے ہیں جنھیں ذمہ داری اور انسانی ہمدردی کے احساسات کے ساتھ پورا کرنے ہوتے ہیں، رنگ، نسل، مذہب سے ماورا سوچ رکھنا ضروری ہے، اکثر مٹی میں مٹی ہونا پڑتا ہے، بودار غریب بستیوں اور گندے ماحول میںناک پر رومال نہیں رکھنا ہوتا۔اگر ایسا کرلیاتو ان لوگوں میں گھل مل کر اصلاح و فلاح کے کام کیسے کر سکیں گے؟ اپنائیت کا تاثُّر دینا پہلی اور آخری ضرورت ہے۔ مگر یہ بھی اتنی کافی نہیں، اس سے بھی زیادہ کی گنجایش ہے۔ انسانوں کے ساتھ انسانیت کا سلوک کرنا ہو تا ہے۔ انسان کی سرشت میں ہے کہ وہ محض تکنیکی طور مناسب دیکھ بھال، ہمدردی اور اخلاص سے مطمئن نہیں ہوتا، اس سے بڑھ کے اس کا متقاضی ہوتا ہے اور اس تقاضے کو محبت پورا کرتی ہے۔ دل سے دل کی راہ انھیں اطمینان دے سکتی ہے۔ پیار ہر مرض کا تیر بہ ہدف دارو ہے۔ مسیحی برادران کلیسیا کے لیے ایسی خدمات انجام دینے میں پیش پیش ہوتے ہیں یہ حقیقت انھیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ وقتی ضروریات ہی بس پوری نہیں کرتے، انھوں نے تو اپنی زندگیاں وقف کر دی ہوتی ہیں تعریف، طمع، تشہیر سے بالا ہوتے ہیں یہ لوگ، بدلے میں تشکر بھی قبول نہیں کرتے، بس اپنا فرض نبھائے چلے جاتے ہیں۔ ہمدردی اور محبت دے کے اطمینان اور محبت سمیٹتے ہیں۔ یوں جب کِسی کے کام آیا جاتا ہے تو ان کے بھی اس احساس کو تقویت ملتی ہے کہ انسانوں کی انسانوں میں توقیر ہے، انسانیت کی عظمت ہے یہ خدمت۔ نتیجہ یہ کہ اپنی پروفیشنل ٹریننگ سے لیس یہ لوگ جب ایسی خدمت کے لیے نکلتے ہیں تو ان کی بھی تالیفِ قلب ہوتی رہتی ہے۔ ان اجر و اُجرت کے نامحتاج ورکز کے لیے خدا مہربان کی طرف سے انعام ہے، یہ حوصلہ افزائی کہ مقدس خداوند یسوع مسیح میں خدا سے ملاقات جو ان کی محبت کو جِلا دیتی اور ان کے جذبوں اور ولولوں کو سدا جوان و توانا رکھتی ہے۔ ان کی ان تھک محنت رایگاں نہیں جاتی۔ خدا ذوالجلال کے ہاں بڑا مرتبہ ہے ان کا اور محبتِ مسیح خداوند ان کا نصیبہ۔ مختصر یہ کہ ہمسایوں سے اور ہمسایوں کے ہمسایوں سے محبت دینی فرمان سے زیادہ، کہنے دیجیے کہ ان کی دینی تربیت اور مذہب کا فیضان ہے جو محبت سے ہی پختہ ہوتا ہے…

کیوں کہ مسیحِ یسوع میں نہ تو ختنہ کچھ فائدہ دیتا ہے اور نہ غیر مختونی… مگر ایمان جو محبت سے عمل کرتا ہے۔

غلااطیوں…6:5

(b)… انسانی ہمدردی، شفقت و محبت اور دان پُن کی جو مسیحی سرگرمیاں ہیں وہ گروہی، نسلی، طبقاتی، سیاسی یا نظریاتی تعلق واسطوں سے بے نیاز ہونا ضروری ہیں۔ کِسی تعصب یا اثر سے متاثر نہ ہونے والی، آزاد و خود مختار ہوں، بیماروں، ناداروں کے دُکھ درد اور مشکلات میں کام آنے کے نصب العین کو مقدم رکھتی ہوں۔ فیاضی اُن کا خاصہ ہو۔ مسیحی چیریٹبل ایکٹویٹی اس لیے نہیں عمل پذیر ہوتی کہ اس کے ذریعہ نہ تو دنیا میں کوئی نظریاتی، دینی تبدیلی لانا مقصد قرار دیا گیااورنہ ہی وہ کوئی حربی تزویر یا مفاد حاصل کرنے کے لیے اختیار کِیا گیا کوئی مسیحی حیلہ ہوتی ہے۔ یہ تو مخلصانہ طور عملی ہمدردی کی ایک مہم ہے جس سے مقصود کُل عالمِ انسانیت میں محبت کا پرچار ہے جس کا انسان طالب ہے۔ محبت کی اشتہا اسے پہلے بھی تھی تو، مگر آج اس بھُوک میں کہِیں زیادہ شدت پیدا ہو گئی ہے۔ پیار کے دو بول اس کے مُردہ حوصلوں میں پھر سے جان ڈال دیتے ہیں۔ عہدِ جدید پر، خصوصاً اوائل انیسویں صدی سے ہی فلسفہء ارتقاء کی چھاپ اپنی مختلف روایتی شکلوں میں غالب آ چکی ہے جس کی جڑوں سے مارکسیت پھوٹی ہے۔ مارکسی تزویر کا ایک جزوِ خاص ابتر زرخیزی یعنی مفلس کرنے کے عمل کی تھیوری پر مبنی ہے۔ جب ہر طرف ظالمانہ، جابرانہ، ناروا، نامنصفانہ طاقتوں نے صورتِ حالا تبگاڑ رکھی ہو، ایسے حالات میں مخیرانہ اور صدقہ خیرات والے فیاضانہ اقدامات کی سرپرستی؟ 

سیدھی سی بات ہے مارکسی تو یہی کہیں گے کہ ایسی صورتِ حالات میں اس قسم کی کریم النفسیاں دِکھانا انصاف اور سچائی کے خلاف نظام کو تقویت پہنچانا بل کہ اس کی خدمت بجا لانے والا عمل ہے تا کہ جو جس حال میں ہے، وہیں اس کے منہ میں دو لقمے ڈال کے واپس سُلا دیا جائے، اپنی حالت سنوارنے کے لیے جاگے نہ، محنت کرنے کے جذبے اور دست و بازو چند سکوں کی خیرات سے شل رہیں۔ گھر پہنچی امداد اُنھیں معیشت، معاش اور معاشرتی تقاضوں کی ادھیڑ بُن سے نجات دِلا کر انھیں صبر، شکر اور قناعت کی نیند سُلا دے، یہ نوشتہء دیوار وہ نہ پڑھیں…

تُو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا

ورنہ گلشن میں علاجِ تنگیِ داماں بھی تھا

اگر مفت کی میسر آتی رہی تو جابرانہ نظام کے بھی لوگ عادی ہو کر صابر شاکر قانع بن جائیں گے۔ یہ توقیرِ انساں پر حرف آنے والی بات ہے، محنت کی عظمت سے آنکھیں مُوند لینے والا عمل ہے۔ انسانیت کی تحقیر ہے۔ ناقابلِ برداشت صورتِ حالات کو کِسی حد تک قابلِ برداشت بنانے والی حکمتِ عملی کا حصہ بن جانے والی چیریٹی ہے۔ مارکسزم اسے رد کرتی ہے۔ مضبوط انقلاب کی امکانی طاقت میں پوشیدہ صلاحیتوں کی رفتار کو دھیما کر دینے والے محرکات میں سے ایک محرک بن جانے والا ’’کارِ خیر‘‘ ہے۔ جو مارکسسٹوں کی نگاہ میں بہتر دنیا دیکھنے والے خواب کو چکنا چور کر دینے کے مترادفات میں سے ایک ہے۔ اس نکتہ سنجی کی بنیاد پر چیریٹی کی سنجیدگی سے اخلاص بھری کاوشوں کو شک سے دیکھنے، انھیں رد کرنے بل کہ اس کے بخیے ادھیڑنے میں اشتمالیت کا جو نظریہ کارل مارکس اور فریڈرک اینجلز کی تعلیمات پر مبنی ہے اس کے ماننے والے پیش پیش ہیں کیوں کہ وہ اسے حسبِ سابق حالت، غیر مبدل صورتِ حالات میں رکھنے کی حوصلہ افزائی کرنے والی سمجھتے ہیں۔ مگر اس ردِّ عمل کو جب زمینی صداقتوں کے حوالے سے غیر جانبدارانہ طور دیکھا جائے تو یہ فلسفہء فقر غیر انسانی اور بے رحمانہ دِکھائی دیتا ہے۔ یہ تو عصرِ حاضر میں سانس اور روح کا رِشتہ برقرار رکھنے کے خواہشمندوں کو مستقبل قریب میں انسان کو چٹ کر جانے والی دیوی کے قدموں میں قربان کر دینے والی حرکت ثابت ہو گی جو انسان کے مستقبل کو ہی خطرے میں ڈال دے گی۔ وہ لوگ جو مارکسزم کے پرچارک ہیں انسانیت کی بھلائی، بہتری اور خوشحالی کے لیے کیسے کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں جب کہ ان کے اپنے رویے سنگدلانہ ہیں، رحمدلی ہمدردی اور مہربانی کی صفات اُنھیں چھُو کر بھی نہیں گذریں۔ چیریٹی کی مسیحی خدمات تو مریضوں کی صحت مندی و تن درستی کے لیے، غریبوں، ناداروں، بے کس او رمجبوروں کی مدد کر کے انھیں اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے نقطہء نظر اور تعلیم کی روشنی پھیلا کر جہالت کی تاریکیاں دُور کرنے کے لیے وقف ہیں۔ اپاہجوں کو مزید اپاہج کوئی کیا بنائے گا، چیریٹی کا مشن غریبوں، محتاجوں کو منگتا بنانا نہیں، انھیں معاشرے کے مفید شہری بنانے کے لیے قعرِ مذلت سے باہر نکال کر دوسروں کے برابر لانے کی سبیل کرنا ہے۔ ہم مسیحی بہتر دنیا کے خواب چکنا چور نہیں کرتے بل کہ ان خوابوں کو خوشحالی اور ترقی کی عملی تعبیر عطا کرنے کے لیے ممد و معاون ہونے کے سلسلے میں ہر دم کوشاں رہتے ہیں اور اپنے حتی الوسع بہترین عمل کے ذریعے اپنے عزم پر پختگی سے قائم ہیں۔ جہاں اور جب بھی ہماری ضرورت ہوتی ہے، ہم پہنچتے ہیں۔ ہم ایسے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں جہاں اپنی پُر جوش و پُرخلوص مخیرانہ سرگرمیاںجاری رکھتے ہوئے اپنے سوچے سمجھے منصوبوں کو کامیابی سے ہمکنار کر سکیں۔ مسیحی پروگرام، مخیر اشخاص کے پروگرام ہیں جو ہماری وساطت سے حاجتمندوں کے کام آتے ہیں۔ انھیں ہم مقدس خداوند یسوع مسیح کے پروگرام قرار دیتے ہیں اور انھیں ہم پیار، محبت اوردل کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، جدھر محبت کی ضرورت ہوتی ہے ادھر کے لیے ہمارا دِل ہمکنے لگتا ہے اور وہیں محبتیں بانٹنے کے لیے جا موجود ہوتے ہیں، وہاں جو بھی خدمت انجام دیتے ہیں ہم مسیحی دِل سے انجام دیتے ہیں۔ انسانوں سے پیار ہے، ہمیں اور انسانیت سے پیار کرنا خداوند یسوع پاک نے اپنی جان تک قربان کرنے کی عملی مثال سے ہمیں سکھایا ہے۔ ایسی مواخاتی پیش قدمی (Communitarian Initiative)کے لیے کلیسیا اپنی ہمدردانہ، فیاضانہ، محبت و خلوص بھری مساعی عمل میں لاتی ہے تو افراد کی برجستگی کی حالت، بے ساختگی کی کیفیت و نوعیّت کو بھی منصوبہ بندی، پیش بینی اور تعاون کا تڑکا لگا ہونا چاہیے تا کہ ایسے ہی بھلائی کے کام کرنے والے دوسرے اداروں کو ساتھ لے کر چلا جا سکے۔

(c) چیریٹی…مہربانی، سخاوت، محبت، انسانی ہمدردی، اخلاص و رافت کے پیچھے کچھ اور ہی مقاصد ڈھونڈنا انسانی جذبوں اور احساسات کی قدر کرنے والوں کو زیب ہی نہیں دیتا۔ اس نیک مشن کو ایسے کاموں کے لیے استعمال ہرگز نہیں کِیا جا سکتا جسے ماڈرن ڈکشن میں پروسیلیٹزم (Proselytism)کہتے ہیں۔یعنی کِسی کا اپنا مذہب چھڑوا کے اپنے والے مذہب کا پیروکار بنانا، یعنی مسیحی بنانا۔ محبت آزاد ہوتی ہے، اس کی تہ میں کوئی مطلب نہیں چھپا ہوتا۔ محبت میں شفافیت ہے، دھوکا نہیں۔ یہ آبِ حیات ہے، سراب نہیں کہ ہو کچھ نظر آئے کچھ اور۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ فیاضی، خیر خواہی ، خیراتی کاموں، نیکی، ہمدردی اور محبت محبت میں خدا اور خداوندیسوع مسیح کا نام لینا ہی چھوڑ دیا جائے۔ ایسی سرگرمیوں میں خوش دلی کے ساتھ حصہ لیا ہی اس لیے جاتا ہے کہ چیریٹی پروگراموں کے ذریعے خدا خالق کی خلقت کی خدمت ہو جائے۔ یہ خدمت غریب ضرورتمند، محتاج انسانوںکا حق، غریب پرور، ضرورت پر کام آنے والوں، الٰہی صفت حاجت روائی سے متصف حاجتیں پوری کر سکنے والوں کا فرض ہے کہ خدا کے دیے میں سے خدا کے بندوں پر خرچ کریں، دُکھ درد، غم مصیبت میں دوسروں کے کام آئیں۔ صحت، تعلیم، انصاف کی سہولتیں معاشرے کی دسترس میں لائیں۔ ایسے کاموں میں مسیحی دوسری سیاسی، مذہبی، سماجی تنظیموں سے بہت آگے ہیں۔ انھیں گھر گھر جا کے تبلیغِ مسیحیت کی دستک دینے کی بھلا کیا مجبوری۔ ان کا کردار، اعمال، جذبات، احساسات، عزم اور ولولے، ارادے اور خلوصِ نیت سب سے بڑی تبلیغ ہے جس کی دستک دروازوں پر نہیں دِلوں پر پڑتی ہے۔ روح القدس کے وسیلے سے خدا بیٹے میں خدا باپ کو ہر سانس کے ساتھ ہم یاد کرتے ہیں، زندگی کے تمام کام اسی کی مدد، رہنمائی کے ساتھ اسی کو ہی راضی رکھنے کے لیے انجام دیتے ہیں، ہمارا اوڑھنا بچھونا، جینا مرنا، مسیحیت ہے مگر دوسروں کو اپنا مذہب بدلنے پر مجبور کرنا ہمارا کام ہے ہی نہیں۔ ہم جہاں پہنچتے ہیں مقدس صلیب گلے میں حمائل کیے خدمتِ انسانی کے لیے پہنچتے ہیں، اپنی صلیب اتار کے دوسروں کے گلے کا ہار بنانے کے لیے نہیں۔ ہم سے بہتر کون پرکھ رکھتا ہے:

یہ رتبہء بلند ملا جس کو مل گیا

ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں

ویسے بھی یہ اٹل حقیقت ہے جس ذِہن، دِل،انسان میں خدا نہ ہو، وہاں بُرے دنوں، امتحانوں، آزمایشوں کا قبضہ مافیا اپنا آفس کھول لیتا ہے۔ مدد کے لیے خدا کو نہ پکارو تو زیست اجیرن رہتی ہے۔

جو مسیحی دوست، بھائی، بہنیں کلیسیا کے حوالے سے چیریٹی پروگراموں کے لیے اپنا آپ وقف کر چکے ہیں وہ کبھی کلیسیائی عقائد کو عام انسانوں، مصیبت کے ماروں کے سر تھوپنے کی حرکت نہیں کرسکتے۔ وہ اچھی طرح یہ ادراک رکھتے ہیں کہ خدا جس پر ہمارا ایمان راسخ ہے اس کے ہاں بے لوث اور وافی محبت کو بڑا مقام حاصل ہے، اسی نے ہمیں محبتوں کی روشن راہیں دِکھائیں۔ اسی کی بارگاہ میں ڈھیر ساری ہماری پُرخلوص محبت گواہی ہے ہماری اس بے لوث خدمتِ انسانیت والی کارکردگی کی، جس کو اس نے اپنی مشیت پوری ہونے کا سبب بنایا، اور شکر ہے یہ اعزاز امتِ مسیحی کے حصے میں آیا۔ مسیحی باقاعدہ طور پر اس بات کی درک رکھتا ہے کہ کب مذہب کی، خدا کی، خداوند یسوع کی بابت ذکر لے بیٹھنے کا سنہری موقع اور موزوں ترین وقت ہوتا ہے۔ سیلاب زدگان مصیبت و آلام، بیماریوں اور فاقہ کشیوں میں مبتلا ہوں اور چیریٹی والے الٰہی رضاکار ان کے سامنے تبلیغی وعظ، پند و نصائح لے بیٹھیں، وہ تو کُتّے چھوڑ دیں گے ان پر جو تیرتے ہوئے ان کے ساتھ خانماں بربادی میں بھی دُم ہلاتے ان کے پیچھے آگئے۔ بہتر یہی ہوتا ہے کہ صبر و تحمل سے کام لیا جائے۔ Fist thing First۔ جو کارِ مفوضہ ہے وہ ہے خدمت، محبت، لگن اور اتھاہ انسانی ہمدردی رکھنے والے جذبہ کے ساتھ خدمت، اسی کے لیے آنے والوں کو پوری دلجمعی، تندہی اور محبت کے ساتھ اپنے کام میں لگے رہنا چاہیے، محبت خود ہی سب کے دِل موہ لے گی، خود ہی سب کہہ اُٹھیں گے ہم نے بھی یسوع کی غلامی میں آنا ہے۔ مسیحی جانتے مانتے ہیں خود خدا بھی محبت ہی محبت ہے…

جس میںمحبت نہیں وہ خدا کو نہیں جانتا کیوں کہ خدا محبت ہے۔

1۔ مقدس یوحنا…8:4

جب بھی ہم آئینے کی گہرائی میں اُتر کے اپنی بھرپور محبت کا عکس اس میں دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں خدا نظر آتا ہے۔ اب اپنے سوال کا جواب اس حقیقت میں تلاش کیجیے۔ محبت کی تحقیر کرنا خدا خالق اور اس کی مخلوق انسان کے سامنے غرور و تکبر کا مرتکب ہونا کہلاتا ہے اور انسان کا غرور و تکبر کرنا خدا کو ذرا بھی پسند نہیں کیوں کہ یہ تو خود خدا بن کے مالکِ حقیقی خدا قادر و عظیم کو خاطر میں نہ لانے والی بات ہے۔ توبہ توبہ! کانوں کو ہاتھ! دست بستہ معافی!!

لہٰذا، خدا جلال و رفعت والے کی ترجمانی اور اس کے بندے، اس کی صنّاعی کے شاہکار انسان کی حمایت اور دفاع بلا کم و کاست کہا جا سکتا ہے کہ محض محبت ہی سے ممکن ہیں۔ مقدس کلیسیا کی ایسی مدد امداد اور ہمہ قسم تعاون اور دیکھ بھال کرنے والی مسیحی تنظیموں پر لازم ہے کہ اپنے رفقاء کے دِلوں اور ذہنوں میں یہ آگاہی ٹھہرا دیں تا کہ اپنی فعال سرگرمیوں کے دوران نہ صرف اپنی خدمت و محبت کے ذریعے بل کہ اپنی زبان سے، زبانِ بے زبانی سے، اپنے کردار و عمل کی جیتی جاگتی مثالوں اور حسنِ اخلاق کے تاثُّر کے لحاظ سے مقدس خداوند یسوع المسیح کے حضور قابلِ اعتماد و معتبر گواہ کے طور پر پیش ہونے کی سعادت پانا ہے کہ ان کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جن سے تُو بے حد و بے حساب غیر مشروط محبت کرتا ہے۔

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?