:سوال نمبر162
کیا آپ مانتے ہیں مرئی یا غیر مرئی طور پر مقدسہ مریم کی ہستی کا کہِیں ظہور ہوا؟ دنیا میں بعض مقامات پرلوگوں نے اُنھیں دیکھا بھی، جیسے فاطمہ(پرتگال) میں؟
جواب:
۔ نہ تو کیتھولک کلیسیا کی مذہبی تعلیم میں، نہ ہی جرمن بشپس کانفرنس کی جرمن بالغوں کے لیے دینی تعلیم میں کبھی کہِیں ذکر آیا ہے کہ مقدسہ کنواری ماں مریم کے ہیولاتی یا جسمانی طور پر کہِیں دِکھائی دے جانے کا عمل واقع ہوا ہو۔ نہ تو منصبی لحاظ سے اور نہ ہی کلیسیا کی نجات بخش تعلیمات میں انھیں موضوع بنانے کو کبھی ضروری سمجھا جاسکا ہے۔ ایسے عقائد کلیسیا کے عرفانی اسراری وجدان کے حامل عوامل سے فائدہ اُٹھانے کے لیے انھیں تاثراتی تحفہ سمجھ لیا گیا۔ ایسا ہونا کِسی شخص کے اپنی ذاتی شعور کا کارنامہ ہوتا ہے، اسے لوگوں کی خیالی پرواز بھی کہہ سکتے ہیں، ان کی تخیل پسندی کا کمال بھی۔ کلیسیا ٹھوس حقائق میں یقین رکھتی ہے مشکوک اور گھڑی گھڑائی تمثیلوں میں نہیں۔ مگر ایسا ہونا سچ بھی ہو سکتا ہے مگر کوئی ثبوت نہیں۔
آپ نے فاطمہ کا حوالہ دیا، پرتگال کے لادینی ملحدانہ دورِ حکومت کی معدودے چند مسیحی مومنین پر معاندانہ کارروائیوں کے ردِّ عمل کے طور پر اس زمانہ میں کِسی بھی مقدس ہستی (موجودہ صورت میں مقدسہ مریم) کے بارے میں جسے چاہے جسمانی ہیئت میں نہ تو دیکھا گیا ہو کیوں کہ اس میں خاص حواس و عوامل شامل ہو جاتے ہیں مگر یوں قیاس کِیا جا سکتا ہے کہ مذہب کی برتری اور جلال بتانے کے لیے اور ایک سنسنی سی پھیلانے کی خاطر اسے مشاہدے اور غیر معمولی تجربے کی شاید مثال بنا دیا گیا ہو۔ تاریخِ کلیسیا میں ایسی بہت سی داستانوں کو جنھیں بہت مؤثِّر و معتبر مذہبی رنگ دے کر پیش کِیا جاتا رہا ہے، کلیسیا کو بار بار سامنا کرنا پڑ جاتا رہا ہے۔ ایک خیر اندیشی کی مصلحت آڑے آگئی اور کلیسیا کو اپنا مؤقف سامنے لانے پر خاموشی اختیار کرنے میں ہی عافیت نظر آئی۔ وہ یوں کہ لوگوں کی سچ جھوٹ جیسی بھی باتیں تھیںانھیں سن کر ایک بڑی تعداد مسیحیت اختیار کرنے پر آمادہ ہونے لگی تھی۔ انگریزی میں کہتے ہیں، وہ کیا ہے کہ Ends justify the means۔ جب کہ کلیسیا کے کوئی تبصرہ نہ کرنے کو اس حکایت سے اپنے آپ کو دُور رکھنے سے بھی تعبیر کِیا جا سکتا ہے۔
مقدس مریم ایسی پاک ہستیوں کے نادر الظہور مظاہر سیدھے سادے ایماندار مسیحیوں اور عامۃ الناس میں ہی مقبول رہے ہیں اور یہ لوگ اپنی ناسمجھی میں کلیسیا کو امتحان میں ڈالنے کا سبب بنتے چلے آئے ہیں۔ فریقین میں متضاد آرا اس لیے قائم ہو جاتی ہیں کہ ایسے وقوعوں کے مافوق الفطرت مرکزی حیثیت کے کرداروں اور اُن سے منسوب باتوں کے لیے کوئی مضبوط ثبوت سامنے نہیں آتا اِکّا دُکّا یا چند افراد کہہ رہے ہوتے ہیں کہ جی ہم نے اپنی ان گنہگار آنکھوں سے خود دیکھا تھا۔ اب یہ تو کوئی پختہ بات نہ ہوئی۔ اس کے لیے تو پرکھنے، اس کی صداقت جاننے کے لیے کسوٹی معین کرنا پڑتی ہے، جانچ کے معیاروں اور اصولوں کو سامنے رکھنا پڑتا ہے، تب کوئی فیصلہ، نتیجہ اخذ کِیا جا سکتا ہے۔ ورنہ ایسے عوامی قسم کے انکشافات تو اکثر ہوتے ہی رہتے ہیں۔
پہلی کسوٹی:
دیکھنا پڑتا ہے کہ ذہنی صحت کے اعتبار سے اور اخلاقی راستبازی کے لحاظ سے وہ جس نے کِسی مقدس ہستی کو جاگتی آنکھوں سے دیکھا خود غیر عملی خیالات اور اساتیری منصوبوں کا رسیا بندہ تو نہیں۔ عارفانہ الٰہیات ایسی نکتہ رسی میں بہت مدد دیتی ہیں اور وہ جانچ پرکھ کا حوالہ بناتی ہیں فرد کی عدل و حکمت والی خوبیوں کو، صدق و سچائی، ضبط و متانت، حلیمی و انکساری کے اوصاف کو، فرد کی سلامتی و امن پسندی کی خُو کو اور نیک چلنی و اعتدال پسندی کے وصف کو۔ وہ شخص نفرتیں اور کدورتیں پالنے والا نہیں، مہر و محبت سے پیش آنے والا ہو۔ تولنے جانچنے کے جدید طریقے کہ جنھیں علمِ نفسیات نے اپ ٹو دی مارک کر دیا ہے صاحبِ کشف کی اخلاقی زندگی کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔
دوسری کسوٹی
اس امر کا تعین یقینی بنانا ہو گاکہ جو تفصیلِ انکشاف سامنے لائی جا رہی ہے کہِیں ان سے ہٹ کے تو نہیں جو تعلیمات مقدس بائبل اور دوسرے اقدس نوشتوں میں موجود ہیں اور یہ بھی تصدیق کرنا ہو گی کہ پھیلائی گئی ایسی باتیں مقدس کلیسیا کے عقائد کے خلاف تو نہیں جاتیں۔ اگر کوئی خلافِ عقیدہ کہانی ہو تو اس کا نوٹس لیا جانا لازمی امر ہے۔ کلیسیا کی روایت میں جن نقاط کو تاکیدی اہمیت دی جاتی ہے کِسی کو دیکھ کر بیانات دینے والوں نے اپنی روانی میں انھیں تو مجروح نہیں کر دیا؟ اور کِسی بائبلی عقیدے کو کوئی اپنا غلط رنگ تو نہیں دے دیا گیا، مثلاً بیان کا نتیجہ لوگوں کو خوفزدہ کرنے کا کوئی سین تو نہیں، یا انھیں دھمکانے ڈرانے کی کوشش تو نہیں کی گئی کہ گھبرا کے مسیحیت قبول کر لیں۔ انجیلِ پاک تو ہے ہی خوشخبری۔ رعب ڈالنے، لرزہ طاری کرنے والا کلامِ مقدس نہیں، لوگوں کے دِل حسنِ اخلاق اور خدمتِ انسانی سے جیتے جاتے ہیں، ڈرا دھمکا کر نہیں۔ اس لیے کِسی کے ظہور سے کوئی غلط پیغام نہیں جانا چاہیے۔
مسیحی مکاشفہ کی تھیم کا مطلق مرکز خداوند یسوع کی پاک ذاتِ پُرانوار رحمت ہے، ما بعد دی گئی تمام تقدیسیں تبھی واثق قرار پائیں گی جب اس حقیقت کو پایداری ملے۔ صداقت، اٹل صداقت پہلی شرط بھی ہے اور آخری بھی۔مختلف زمانوں میں مختلف مقامات پر مقدس مریم کی عموماً ظاہر ہونے کی باتیںیوں نہ قبول کی جائیں جیسے یہ خدا کے مقدس کلام کا کوئی ضمیمہ ہیں۔ یہ تو عمل کی تحریک دینے کے لیے وقفوں وقفوں میں نمودار ہونے والے اچانک کے اضطراری رجحانات ہیں، عام لوگوں کو اس حقیقت کی وضاحت دینے کے لیے، انھیں اس طرف راغب کرنے کے لیے کہ آئیں اور مسیحیت کی اس صداقت کو قبول کر لیں کہ تاریخ کے معینہ دور میں مقدس خداوند یسوع مسیح کا دنیا میں ظہور ہونے والا ہے۔
جانچ، تشخیص اور معیار کے مطابق جو تقویم سامنے آ سکتی ہے لوکل بشپ صاحب کے ہاں سے پاپائی عدالت سے کِسی کے دِکھائی دیے جانے کے بیانات و اعلانات کے مسترد کیے جانے پر بھی منتج ہو نے کے واضح امکانات ہیں۔ اگر بعض حلقوں سے مثبت تشخیص کے حوالے بھی آنے لگیں تو اس صورت میں مقدس کنواری ماں مریم کے ظاہر ہونے یا کِسی اور مقدس ہستی کے جو اس دنیا میں موجود نہیں تھی اور کوئی کہے کہ دکھائی دی اور بچوں سے یا بڑوں سے باتیں بھی کیں اور چلی گئی تو ماننے والوں کو حد درجہ کی آزادی کا استعمال کرنے کی توفیق حاصل ہے کہ دیکھنے والوں کے اصرار پر ان کے قولِ فیصل کو قبول کر لیں۔ مگریہ انسان کا اپنا ذاتی عقیدہ ہو گا، مذہبی نہیں۔اور اس قبولیت کو تعقُّل یعنی شعوری سطح پر راسخ سمجھنے کے اصولوں کے تابع رکھنا افضل ہو گا۔ جب کہ دینی عقیدہ جو متبرک صداقتوں پر مبنی ہوتا ہے اس سے تب صرفِ نظر ہو بھی جائے تو مضایقہ نہیں مگر باوقار اور با لحاظ تردید اور حتمی دُوری اس پورے معاملے سے اختیار کرلی جائے تو وہ زیادہ جائز اور درست فعل ہو گا…
(Franz Courth, art. Marienerscheinungen, in: Praktisches Lexikon der Spiritualität, hg. Christian Schütz. Freiburg, 1988.)