:سوال نمبر130
۔کیا یہ خُداوند قدوس کے احکامات کی صریح خلاف ورزی نہیں کہ آپ لوگوں نے شریعتِ موسوی کے بعض اجزا منسوخ ہی کر دیے مثلاً تنسیخِ فرمانِ ختنہ، سؤر کا گوشت کھانے سے ممانعت والا حکم؟
جواب:۔مقدس خُداوند یسوع مسیح کے اعلان کا مرکزی نقطہ یہی تھا کہ بادشاہی کے قیام کا پیغام سب تک پہنچے۔۔۔۔۔۔
اور کہا کہ وقت پورا ہوا اور خُدا کی بادشاہی نزدیک آگئی ہے۔ توبہ کرو اور انجیل پر ایمان لاؤ۔
مقدس مرقس۔۔۔۔۔۔15:1
پھر یوں خُداوند یسوع پاک نے یہودی شریعت کے ابتدائی دور کے قوانین کو نئے معانی دیے۔ خُداوند نے یہ بھی نہیںکہ موسوی شریعت فرسودہ و متروک ہونے یا اس کے ناقص و باطل ہونے کا اعلان فرمایا ہو۔ البتہ اس سے ضرور صادر ہوا کہ بڑے تحکمانہ انداز میں اس نے اپنے تجزیے کے مطابق اپنے ارادے کے اظہار کے لیے کسی پس و پیش سے کام نہ لیا، جس کی بدولت بڑی واضح صورت میں مشیتِ ایزدی کا جو ابتدائی قوانین میں اصلی مقصد تھا، سامنے آگیا۔ مقدس انجیل متی کے پانچویں باب میں کمانڈنگ لہجے میں کہا گیا۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔لیکن یہ میرا حکم ہے۔۔۔۔۔۔ (مَیں تم سے کہتا ہوں۔۔۔۔۔۔)
سارے پانچویں باب کی تلاوت سے سب کچھ آپ پر منکشف ہو جائے گا۔ اس باب میں پہاڑی وعظ، مبارکبادیاں، ا ِکمالِ شریعت کے مضامین ہیں۔ اِکمالِ شریعت کی ابتدا ہے:
یہ خیال مت کرو کہ مَیں تورات یا صحائفِ انبیا کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے کو نہیں، بل کہ پورا کرنے آیاہوں۔ کیوں کہ مَیں تم سے سچ کہتاہوں۔۔۔۔۔۔
قانون و ثقافت کے بارے میں خُداوند پاک یسوع المسیح کے تنقیدی الفاظ ایسی مثالوں کا احاطہ کرتے ہیں جیسے اس کے اعلاناتِ شادی بیاہ اور ازدواجی تعلقات، دشمن سے پیار و محبت ہی بہترین انتقام ہے:
یہ بھی کہا گیا تھا کہ جوکوئی اپنی بیوی کو چھوڑے اُسے طلاق نامہ لکھ دے۔۔۔۔۔۔
مقدس متی۔۔۔۔۔۔5: آیت31اور آگے
تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت۔ مگر مَیں تم سے کہتا ہوں کہ برائی کا مقابلہ نہ کرنا، بل کہ جو تیرے داہنے گال پرطمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے۔
مقدس متی۔۔۔۔۔۔38:5،39
تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا، اپنے ہمساےے کو پیار کر اور اپنے دشمن سے کینہ رکھ۔ لیکن مَیں تم سے یہ کہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں کو پیار کرو اور اپنے ستانے والوں کے لیے دعا مانگو۔ اور جو تمھیں ستائیں اور بدنام کریں اُن کے لیے دعا مانگو۔ تا کہ تم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے فرزند ٹھہرو۔ کیوں کہ وہ اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں پر طلوع کرتا ہے اور راست بازوں اور ناراستوں پر مینہ برساتا ہے۔ کیوں کہ اگر تم انہی کو پیار کرو جو تمھیں پیار کرتے ہیں تو تمھارے لیے کیا اجر ہے! کیا محصول لینے والے بھی ایسا نہیں کرتے؟ اگر تم فقط اپنے بھائیوں ہی کو سلام کرو تو تم کیا فیاضی کرتے ہو؟ کیا غیرقوموں کے لوگ بھی ایسا نہیں کرتے؟ اس واسطے تم کامل ہو جیسا تمھارا آسمانی باپ کامل ہے۔
مقدس متی۔۔۔۔۔۔43:5تا48
مقدس لوقا کی انجیل پاک میں بھی یہ مضمون اسی طرح روایت ہوا ہے۔آداب و رسومِ پاکیزگی۔۔۔۔۔۔
کوئی چیز باہر سے آدمی میں داخل ہو کر اسے ناپاک نہیں کر سکتی۔ مگر جو چیزیں آدمی میں سے نکلتی ہیں وہی اسے ناپاک کرتی ہیں۔
مقدس متی۔۔۔۔۔۔مرقس۔۔۔۔۔۔15:7ویں آیت
سبت کے روز عطاے شفا۔۔۔۔۔۔
اور اس نے اُن سے کہا کہ سبت انسان کے لیے بنایا گیا تھا، نہ کہ انسان سبت کے لیے۔ پس ابنِ انسان سبت کا بھی مالک ہے۔
مقدس مرقس۔۔۔۔۔۔27:2
قوانینِ شریعت کی مُکمَّل توجہ اُن دُہرے فرامین پر ہے جو خُدا سے محبت اور ہمساےے کی محبت سے متعلق ہیں۔ حکمِ عظیم کے ذیل میں فرمایا گیا ہے:
اور فقیہوں میں سے ایک نے اُن کامباحثہ سُنا اور جان کر کہ اُس نے اُنھیں خوب جواب دیا تو پاس آ کر اُس سے پوچھا کہ سب سے پہلا حکم کون سا ہے؟ یسوع نے جواب دیا کہ پہلا یہ ہے: ''سُن اے اسرائیل! کہ خُداوند ہمارا خُدا ایک ہی خُداوند ہے۔ پس تُو خُداوند اپنے خُدا کو اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے پیار کر''۔
اور دوسرا یہ کہ:''تُو اپنے ہمساےے کو اپنے مانند پیارکر''۔ ان سے بڑا اور کوئی حکم نہیں۔
اور فقیہہ نے اُس سے کہا: کیا خوب اے اُستاد! تُو نے سچ کہا ہے کہ وہ ایک ہی ہے اور کہ اُس کے سوا اور کوئی نہیں۔ اور کہ اُس کو سارے دِل اور ساری عقل اور ساری طاقت سے، اور اپنے ہمساےے کو اپنے مانند پیار کرنا سب سوختنی قربانیوں اور ذبیحوں سے افضل ہے۔
اور جب یسوع نے دیکھا کہ اُس نے عقلمندی سے جواب دیا تو اُس سے کہا: ''تُو خُدا کی بادشاہی سے دُور نہیں۔ اور بعد اس کے کِسی نے اُس سے سوال کرنے کی جُرأت نہ کی''۔
مقدس متی۔۔۔۔۔۔28:12تا34
مقدس ہیکلِ یروشلیم کی تنگی کے بارے میں اس کے منصوبہ پر گواہی دی گئی:
ہم نے اُسے یہ کہتا سنا ہے کہ مَیں اِس ہیکل کو جو ہاتھ سے بنی ہے ڈھا دُوں گا اور تین دن میں دوسری بناؤں گا جو ہاتھ سے نہ بنی ہو۔
مقدس مرقس۔۔۔۔۔۔58:14
بعض دعاوی ایسے بھی ہیں جن کا تعلق براہِ راست مقدس خُداوند یسوع المسیح کی عادات و اطوار سے ہے۔ مثلاً عاصیوں پر اس کی توجہ، ان پر رحم اور پیار اور وہ بھی غیر مشروط۔ وہ تو ایک ہی دسترخوان پر ان کے ساتھ بیٹھ کے کھا بھی لیتا تھا:
اور یوں ہوا کہ جب وہ اس کے گھر میں کھانا کھانے بیٹھا تو بہت سے محصل اور گنہگار یسوع اور اُس کے شاگردوں کے ساتھ کھانے بیٹھے کیوںکہ وہ بہت تھے جو اُس کے پیچھے چلے آئے تھے۔ اور جب فریسیوں اور فقیہوں نے اُسے محصلوں اور گنہگاروں کے ساتھ کھاتا دیکھاتو اس کے شاگردوں سے کہا کہ تمھارا اُستاد محصلوں اور گنہگاروں کے ساتھ کِس لیے کھاتا پیتا ہے؟ یسوع نے سُن کر اُن سے کہا، تن دُرُستوں کو طبیب درکار نہیں بل کہ مریضوں کو۔ کیوں کہ مَیں راست بازوں کو نہیں بلکہ گنہگاروں کو بُلانے آیا ہوں۔
مقدس مرقس۔۔۔۔۔۔15:2تا17
مقدس لوقا۔۔۔۔۔۔باب15مُکمَّل لائقِ فیضیابی ہے،برکت حاصل کیجیے۔
اور رہی بات بیماروں کی(اور وہ بھی یومِ سبت پر کیے گئے معجزات)۔۔۔۔۔۔
اور وہ عبادت خانے میں پھر داخل ہوا۔ اور وہاں ایک آدمی تھا جس کا ہاتھ سوکھا ہوا تھا۔ اور وہ اُس کی تاک میں رہے کہ اگر وہ اُسے سبت کے دن شفا بخشے تو اُس پر الزام لگائیں۔ اور اُس نے اُس آدمی سے جس کا ہاتھ سُوکھا ہوا تھا کہا: بیچ میں کھڑاہو۔ اور اُس نے اُن سے کہاکہ سبت کے دِن نیکی کرنا روا ہے یا بدی کرنا، جان بچانا یا ہلاک کرنا؟ مگر وہ چپ رہ گئے۔ اور اُس نے اُن پر غصے سے نظر دوڑا کر اور ان کی سنگدلی کے سبب غمگین ہو کر اُس آدمی سے کہا: اپنا ہاتھ بڑھا۔ اُس نے بڑھا یا اور اُس کا ہاتھ بحال ہو گیا۔
تب فریسی باہر جا کر فی الفور ہیرودیوں کے ساتھ اُس کے خلاف مشورہ کرنے لگے کہ کس طرح اُسے ہلاک کریں۔
مقدس مرقس۔۔۔۔۔۔1:3تا6
کبڑی عورت کی شفا۔۔۔۔۔۔
اور سبت کے دِن وہ کِسی عبادت خانے میں تعلیم دیتا تھا۔ اور دیکھو ایک عورت تھی جس پر اٹھارہ برس سے کمزوری کی روح تھی۔ وہ کبڑی ہو گئی تھی اور بالکل سیدھی نہ ہو سکتی تھی۔ یسوع نے اُسے دیکھ کر اپنے پاس بلایا اور اُس سے کہا: بی بی تُو اپنی کمزوری سے چھُوٹ گئی اور اُس نے اُس پر ہاتھ رکھے اور وہ اُسی دم سیدھی ہو گئی اور خُدا کی تمجید کرنے لگی۔
تب عبادت خانے کا سرداراِس لیے کہ یسوع نے سبت کے دِن شفا بخشی خفا ہو کر ہجوم سے کہنے لگا: چھے دِن ہیں جن میں کام کرنا چاہیے۔ پس اُن میں آکر شفا پاؤ، نہ کہ سبت کے دِن۔ تب خُداوند نے اس کا جواب دیا اور کہا: اے ریا کارو! کیا ہر ایک تم میں سے سبت کو اپنے بیل یا گدھے کو تھان سے نہیں کھولتا اور پانی پلانے نہیں لے جاتا؟
پس کیا واجب نہ تھا کہ یہ جو ابراہیم کی بیٹی ہے جس کو شیطان نے (ذرا خیال تو کرو) اٹھارہ برس سے باندھ رکھا تھا سبت کے اِس دِن اِس بند سے چھُڑائی جاتی؟
اور جب وہ یہ باتیں کہتا تھا تو اُس کے سب مخالف شرمندہ ہوئے اور سارا ہجوم اُن شاندار کاموں سے خوش ہوتا تھا جو اُس سے ہوتے تھے۔
مقدس لوقا۔۔۔۔۔۔10:13تا17
سماج کے ٹھکرائے ہوئے لوگوں کے لیے صحتیابی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ایک کوڑھی نے اُس کے پاس آ کر اُس کی مِنّت کی اور گھُٹنے ٹیک کر اُس سے کہا کہ اگر تُو چاہے تو مجھے پاک صاف کر سکتا ہے۔
مقدس مرقس۔۔۔۔۔۔40:1
اور جب وہ ایک گاؤں میں داخل ہونے لگا تو دس مبروص آدمی اسے ملے۔ وہ کچھ فاصلہ پر کھڑے ہوگئے۔
مقدس لوقا۔۔۔۔۔۔12:17
اور اسی طرح نبیوں کی سُنّت کہ ہیکل کو پاک صاف کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور وہ یروشلم میں ہیکل میں آیا۔ اور سب چیزوں پر نظر دوڑا کر اُن بارہ کے ساتھ بیتِ عنیا کو گیا۔ کیوں کہ شام کا وقت ہو گیا تھا۔ اور دوسرے دن جب وہ بیتِ عنیا سے باہر آئے تو اُس کو بھُوک لگی اور وہ دُور سے انجیر کا ایک سرسبز درخت دیکھ کرگیا کہ شاید اُس میں کچھ پائے مگر جب وہ اُس کے پاس آیا تو پتّوں کے سوا کچھ نہ پایا کیوں کہ انجیرکا موسم نہ تھا۔ تب اُس نے اُس سے کہا۔۔۔۔۔۔آیندہ کوئی تجھ سے کبھی پھل نہ کھائے۔ اور اُس کے شاگردوں نے سُنا۔اور وہ یروشلیم میں آئے۔ اور وہ ہیکل میں داخل ہو کر اُنھیں جو ہیکل میں خریدو فروخت کرتے تھے باہر نکالنے لگا۔ اور صرّافوں کے تختے اور کبوتر فروشوں کی چوکیاں اُلٹ دیں اور کِسی کو ہیکل میں سے ہو کر کوئی برتن لے جانے نہ دیا۔ اور تعلیم دے کر اُن سے کہا: کیا یہ نہیں لکھا ہے؟ کہ میرا گھر سب قوموں کے لیے دُعا کا گھر کہلائے گا؟ لیکن۔۔۔۔۔۔ تم نے اُسے ڈاکوؤں کی کھوہ بنا دیا ہے۔
مقدس مرقس۔۔۔۔۔۔11:11تا17
یہودی حکمرانوں کے دورِ عروجِ اقتدار میں مقدس خُداوند یسوع مسیح کے لیے سزاے موت کا حکم اور اس کی تعمیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہودی قوانین اور رسوم و رواج پر پاک خُداوندکی تنقید اجازت کی حد اور قوتِ برداشتِ حاکمین کا امتحان لینے والی بات سے کوئی کم للکار نہ تھی۔ یہ تو صبر و اغماز کی مقررہ حدود پھلانگ جانے والی روش تھی اور ایسی حرکت و جرأت پر معمولی سی بھی لچک و نرمی دکھانے والے حاکم خال خال ہی تھے، بس چراغ لے کر ڈھونڈنے والی بات تھی نری۔
دورِ آغازِ مسیحیت میں ایسے بھی مسیحی موجود تھے جو پرانی لکیر کے فقیر تھے جو بغیر کِسی رد و قدح کے، کھلم کھلا یہودی قوانین کے تابع رہے اور ہیکل سے وابستہ مذہبی عقیدت اور طریقِ کار کے ایک عرصہ تک زیرِ اثر پائے گئے۔۔۔۔۔۔
اور ایک دِل ہو کر ہر روز ہیکل میں جمع ہوا کرتے تھے اور گھر گھر روٹی توڑا کرتے تھے اور خوشی اور دِل کی صفائی سے کھانا کھایا کرتے تھے۔
اعمال۔۔۔۔۔۔46:2
پطرس اور یوحنّا نماز کے وقت یعنی نویں گھڑی ہیکل کو چلے۔
اعمال۔۔۔۔۔۔1:3
اور اُنھوں نے یہ سُن کر خُدا کی بڑائی کی اور اُس سے کہا: اے بھائی! تو دیکھتا ہے کہ یہودیوں میں سے ہزارہا ہیں جو ایمان لے آئے ہیں اور سب شریعت کے لیے غیرت مند ہیں۔
اعمال۔۔۔۔۔۔20:21
اور وہ جو قدیم یونانی زبان اور تہذیب کے متوالے (Hellenists)تھے وہ ایسے دُور رس نتائج کھوج لائے کہ جو پاک خُداوند یسوع مسیح کے رویوں سے مطابقت رکھتے ہوئے یہودی قوانین و شریعت کو ہدفِ تنقید بنانے کا ثمرہ تھے، مثلاً خُداوند کے خلاف فردِ جرم اور سزاے موت اور اس پر ایمان لانے والوں کا عقیدہ کہ وہ مُردوں میں سے زندہ جی اُٹھا۔ وہ عبرانی یونانی سزا کے بھی خلاف بولنے لگے اور خُداوند کے دوبارہ جی اُٹھنے پر ایمان نہ رکھنے والوں کے بھی لتّے لینے لگے۔ اور وہ جو ان کا لیڈر تھا روح اور حکمت سے بھرا ہوا، یعنی ایمان اور روح القدس سے بھرا ہوا استینفانس جسے بعد میں سنگسار کر دیا گیا کیوں کہ وہ ہیکل اور شریعت پر تنقید کرتا تھا۔ رسولوں کے اعمال باب6،مُکمَّل باب سے استفادہ کیجیے۔
استیفانس کے مریدوں پر ظلم و ستم، ایذارسانیوں کے پہاڑ توڑے گئے اور پایانِ کار وہ یروشلم سے ہجرت کر گئے۔ ایذارساں اور جور و ستم کرنے والے کون تھے؟۔۔۔۔۔۔ ان میں شاؤل یعنی پولوس کا نام بھی آتا ہے۔ در اصل وہ ان دنوں تھا تو فریسی ہی نا۔ یہودی قوانین و موسوی شریعت کا سرگرم و پُرجوش معتقد جس نے ہیلینسٹک یہودی النسل مسیحیوں پر مصیبت و آلام کے در وا کر دیے تھے۔
تم نے تو سُنا کہ یہودیت میں میرا چال چلن کیسا تھا کہ مَیں خُدا کی کلیسیا کو ازحد ایذا دیتا اور اُسے ویران کرتا تھا۔۔۔۔۔۔۔
غلاطیوں۔۔۔۔۔۔13:1(اور آیت24تک تلاوت کیجیے)
میرا ختنہ آٹھویں دِن ہوا اور مَیں اسرائیل کی نسل بنیامین کے قبیلے سے عبرانیوں کا عبرانی شریعت کی نسبت فریسی ہوں۔۔۔۔۔۔۔
فلپیوں۔۔۔۔۔۔5:3(اور آگے بھی پڑھیے)
چناں چہ صورتِ حالات نمایاں ہو کر سامنے آجاتی ہے کہ شرعی قوانین کے خلاف ہیلینسٹ لوگوں کا رویّہ کِس قدر تنقید بھرا تھا۔ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ کیوں ان مسیحیوں نے بُت پرست کفار کو مشروط طور ایک خُدا کو ماننے والوں کی برادری میں شمولیت پر آمادہ کر لیا تھا۔ ان پر ختنہ کی شرط بھی معاف کر دی اور موسیٰ کی شریعت پر عمل بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن جب انطاکیہ میں آئے تو اُن میں سے چند قپرسی اور قیروانی غیر قوموں سے باتیں کر کے اُن کو بھی خُداوند یسوع کی بشارت دینے لگے۔
اعمال۔۔۔۔۔۔20:11
رسولوں کے اعمال باب15کا مطالعہ بھی مفیدِ مطلب ہو گا۔ اور توجہ فرمائیے:
اور یہودیہ کی جو کلیسیائیں مسیح میں ہیں وہ میری صورت سے واقف نہ تھیں مگر صرف یہ سُنا کرتی تھیں کہ جو ہم کو پہلے ایذا دیتا تھا، اب وہ اُسی دِین کی خوشخبری دیتا ہے جسے پہلے تباہ کرتا تھا۔ اور وہ میرے سبب سے خُدا کی تمجید کرتی تھیں۔
غلاطیوں۔۔۔۔۔۔22:1تا24
مقدس پولوس نے جب مسیحیت قبول کر لی تو وہ اس کے آغازِ زمانہ کے مقدسین سے بھی کہیں بڑھ کر مبتلاے شریعتِ موسوی رہ کر اس کی مشکلات میں جکڑا رہا اور اس نے اس بات کا اظہار پوری دیانتداری اور سچائی کے ساتھ اکثر اپنے خطوط اور دوسری مقدس تحریروں میں کھُل کھُلا کے کِیا۔ اقرارِ ایمان کہ خُدانے پاک خُداوند یسوع مسیح کو جسے قانون نے مجرم قرار دے کر صلیب پر کھینچ دیا تھا، مُردوں میں سے دوبارہ اُٹھا بٹھایا اور اسے خُداوند ہونے، رب ہونے کا مقام عطا کر دیا۔ جو ایمانِ کُلی کی انتہا ہے اور جو شریعت کا پابند ہونے کی بنا پر نہیں بل کہ تمام انسان خُدا میں اپنی زندگیاں وقف کر دیں بل کہ بریں بِنا کہ الٰہی رحمت کے طفیل اس ایمان و یقینِ کامل کے ذریعے جو مقدس خُداوند یسوع مسیح میں ایمان کے عقیدہ پر منتج ہے۔
مگر یہ جان کر کہ انسان شریعت کے اعمال سے نہیں بل کہ یسوع مسیحپر ایمان لانے سے صادق ٹھہرتا ہے۔ ہم بھی یسوع مسیحپر ایمان لائے تا کہ مسیح پر ایمان لانے سے صادق ٹھہریں، نہ کہ شریعت کے اعمال سے۔ کیوں کہ شریعت کے اعمال سے کوئی بشر صادق نہیں ٹھہرے گا۔
غلاطیوں۔۔۔۔۔۔16:2
کیوں کہ جتنے شریعت کے اعمال پر بھروسا رکھتے ہیں وہ سب لعنت کے ماتحت ہیں۔ چناں چہ لکھا ہے کہ: ''ملعون ہے ہر وہ جو اُن سب باتوں کے کرنے پر قائم نہیں رہتا جو شریعت کی کتاب میں لکھی ہیں''۔ اور یہ ظاہر ہے کہ شریعت کے وسیلے سے کوئی شخص خُدا کے نزدیک صادق نہیں ٹھہرتا کیوںکہ: ''ایمان سے صادق زندہ رہے گا''۔ اور شریعت ایمان سے نہیں، بل کہ: ''جو اِن پر عمل کرے وہ اِن سے زندہ رہے گا''۔
مسیح نے ہمارے بدلے میں ملعون ہو کر ہمیں شریعت کی لعنت سے چھڑایا کیوں کہ لکھا ہے: ''جو دار پر لٹکایا گیا وہ ملعون ہے''۔ تا کہ یسوع مسیح میں ابراہیم کی برکت غیر قوموں تک پہنچے۔ اور ہم ایمان کے سبب سے رُوح کا وعدہ پائیں۔
غلاطیوں۔۔۔۔۔۔10:3تا14
کیوں کہ اُس میں خُدا کی صداقت ایمان سے ایمان تک ظاہر ہوتی ہے جیسا لکھا ہے کہ: ''ایمان سے صادق زندہ رہے گا''۔
رومیوں۔۔۔۔۔۔17:1
کیوں کہ شریعت کے کاموں سے کوئی بشر اُس کے حضورصادق نہیں ٹھہرے گا۔ اس لیے کہ شریعت کے وسیلے سے تو گناہ کی پہچان ہی ہوتی ہے۔
رومیوں۔۔۔۔۔۔20:3
پس، وہ اُس کے فضل سے اُس مخلصی کے سبب سے جو یسوع مسیحمیں ہے مُفت صادق ٹھہرائے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔
رومیوں۔۔۔۔۔۔24:3اور آگے بھی
پس شریعت کو الٰہی کرم نوازی ہونے میں کوئی رکاوٹ درپیش نہیں لیکن وہ نجات کی ایک راہ ضرور ہے جو جا کر مقدس خُداوند یسوع مسیح پر ختم ہوتی ہے۔
کیوںکہ ہر ایک ایمان لانے کے واسطے صداقت کے لیے مسیح شریعت کا انجام ہے۔
رومیوں۔۔۔۔۔۔4:10
اخلاقی ہدایات تبھی جائز قرار پاتی ہیں جب زندگی خُداوند یسوع پاک میں ایمان لانے کو حقیقت کے آئینے میں دیکھنے کے انداز سے سپھل ہو اور فرمان کہ ''اپنے ہمساےے سے محبت کرو''، اس کی عملی عکاس ہو۔
اس لیے کہ ساری شریعت اسی ایک بات میں پوری ہوتی ہے کہ تُو اپنے ہمساےے کو اپنے مانند پیار کر۔
غلاطیوں۔۔۔۔۔۔14:5
تم ایک دوسرے کا بوجھ اُٹھا لو اور اس طرح سے مسیح کی شریعت کو پورا کرو گے۔
غلاطیوں۔۔۔۔۔۔2:6
آپس کی محبت کے سوا کِسی کے قرض دار نہ رہو کیوں کہ جو ہمساےے سے محبت رکھتا ہے، اُس نے شریعت کو پورا کِیا ہے۔
رومیوں۔۔۔۔۔۔8:13
تاہم یہ اصول تبھی صحیح و مؤثر ہیں جبھی مکتی کا تحفہ و برکت و فضلِ ربی جو خود خُدا مہربان کی مقدس خُداوند یسوع مسیح کے توسط سے مقدس روح الحق میں عطا ہے ہمیشہ ہماری نگاہ میں رہے اور ہم اس کے حصول کا اپنے آپ کو مستحق بنائے رکھیں۔ اسی میں ہماری بل کہ پوری انسانیت کی فلاح و کامیابی ہے۔
المختصر یہ کہ موسوی شریعت کی مقدس خُداوند یسوع مسیح نے نفی نہیں کی، تاہم یہ ضرور ہوا کہ اس کی طرف سے خُدا کی بادشاہی کی منادی نے بنیادی طور پر اہم رول ادا کِیا جس کی بِنا پر اس کی مراد، اس کے مفہوم اور اس کی ترجیح اور شریعت کی یہودیوں کی جانب سے جو شروع شروع کی تشریح تھی اس میں بھی تبدیلی کا وفور ہو گیا۔ اس پر خُداوند یسوع مسیح کا جوردِّ عمل سامنے آیا، اس کے رویوں، سزاے موت اور دوبارہ جی اُٹھنے کی صداقتوں کے پیشِ نظر مسیحیت نے بہت سے نتیجے اخذ کر لیے۔ ان سب میں اہم او راشد ضرورت نتیجہ منحصر تھا مقدس پولوس رسول کی بصیرت پر کہ نجات کی منزل تک جا پہنچنے کے لیے سیدھا، فیصلہ کن راستہ شریعت سے ہو کر نہیں جاتا، بل کہ وہ راستہ سُجھانے والا، اس راستے پرچلنے کی ہمت و توفیق عطا کرنے والا اور اس راستے پر جو چل پڑتے ہیں ان کے عزم کو استقلال بخشنے والا اور حد یہ کہ بامراد و کامیاب کرنے والا خود خُداوند یسوع مسیح ہی ہے۔ وہی راستہ، وہی منزل، وہی انسانیت کی نجات ہے۔ اسی کی مقدس روح ایک خاص انداز میں زندہ و پایندہ ہے اس کی کلیسیا میں روح القدس جس کا پاسبان ہے۔
امید ہے کہ ہماری بات آپ کے دِل میں گھر کر چکی ہو گی۔ آپ کے سوال کا جواب بآسانی آپ پر واضح ہو چکا ہو گا۔ ایسا ہے تو۔۔۔۔۔۔ زہے نصیب! چشمِ ماروشن، دِلِ ماشاد۔
انفرادی قوانینِ شریعت کی نسبیت و اضافیت سے متعلق مقدس خُداوند یسوع المسیح نے حق سچ کا پالن کرتے ہوئے زمان و مکان اور اندرونی تجربات سے بھی استفادہ کِیا اور پوری شریعت کو خُداوند عز و جل سے محبت اور پڑوسی سے پیار میں مجتمع کر دیا، اِس حد تک کے بندے کا اپنے آپ سے بل کہ مخالف اور دشمن سے بھی اُلفت اور احسن برتاو کو اس مجموعے میں سمو دیا۔
کلیسیا کا اندازِ نظر اور رویّہ بھی یہی رہا کہ اس نے بھی موسوی شریعت کے مفصل احکامات کے ضمن میں یہ اصول اسی سے کشید کِیا جس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے۔ شریعتِ موسوی سے احتراز مشیتِ ایزدی سے انکار کا پیش خیمہ ہرگز نہیں۔ پیغمبروں اور نبیوں کے خُدا کی مرضی و منشا کے خلاف نہ جاتے ہوئے بہ صد احتیاط یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ ان قوانینِ شریعت کی قدر و منزلت اپنی جگہ محکم، تاہم نئی شریعتِ مسیحی کی پابندی سے اس کی تکمیل مقصودِ نظر ہے جو مطلوبِ خُداوندی بھی ہے۔ چناں چہ موسوی شریعت کی قبولیت و عقیدت سے بجا آوری پر بھی حرف نہ آنے کا اہتمام کر دیا گیا۔