:سوال نمبر129
۔ہم بھلا اسے کِس نظر سے دیکھیں، کس لحاظ سے کلیسیا نے ایک ہی طرح کی جنس میں آپس کی نام نہاد شادیوں کے لیے ہامی بھر لی بل کہ توثیق کر دی، ایسی شادیوں کی وکالت بل کہ ایسی مبینہ شادیوں کو بعض پروٹیسٹنٹ مسیحیوں نے عمل میں بھی لانا شروع کر دیا ہے۔کیا یہ سب مناسب ہے کہ مرد مرد سے اور عورت عورت سے شادی رچا کر بیٹھ جائے؟
جواب:۔ایک ہی طرح کی جنسِ انسان میں شادی کا رشتہ یا یگانگت آسا میلانی تعلقات قائم ہونے پر جو کلیسیا کی پوزیشن ہے اُسے مَیں صاف طور پر واضح کر دوں کہ اس سلسلے میں کلیسیا کی طرف سے بیان آ چکا ہے اسے باضابطہ کلیسیائی تو نہیں مگر عام اردو ترجمہ کروا کر آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں یہ پیرا The Catholic Adult Catechism (Volume II: Leben aus dem Glauben [Freiburg: Herder, 1995], pp. 385-87سے اخذ کِیا گیا ہے:
اپنی ہی جنس کے فرد کے ساتھ تعلقات رکھنے کو باقاعدہ قانونی تحفظ حاصل ہے۔ یہاں ہم ایک عمومی اُلجھن دُور کردیں کہ ہم ایک ہی سیکس کے درمیان ازدواجی تعلقات قائم ہونے کی بات کر رہے ہیں۔ اپنی ہی جنس کے فرد کی طرف جنسی میلان رکھنے والوں کی نہیں۔ ہم جنسوں میں رشتہ قائم ہونے کو جنسی عمل سے گذرنے والے ہم جنس علتیوں کو آپس میں خلط ملط نہ کریں۔ دونوں مختلف قبیل کے خواتین و حضرات ہیں۔ ہم جنسیت ایسا فعل نہیں جیسا سمجھا، دیکھا جاتا ہے۔ یہ تو کثیر پہلوؤں کا حامل ایک مظہر ہے۔ ہم جنس پرستوں کے اس نادرالظہور مظہر کو مختلف صورتوں میں عملِ تشریح سے گزارا گیا ہے،تجزیاتی مطالعہ کرنے کی اپنی سی بے شمار کوششیں کی گئیں اور تنقید کے لیے اس کی تفصیلی اخلاقی پرکھ پرچول کے ذریعے اس کی ابتدا اور روزافزوں مقبولیت کے جوازات پر پڑے پردے سرکانے کے جتن کیے گئے اور اس حد تک بھی پہنچنے کی محنت کی گئی کہ پتا چل سکے گرد و پیش، حالات یا حقائق سے تعلق سے مائل بہ ہم جنس ہونے کے شعور کو کِس درجہ تک تطبیق حاصل ہے۔ پتا چلا کہ ہم جنسیت پر کی جانے والی تحقیق تو اختلافی قسم کی بحث و تمحیص کی طرف بہ سُرعت چل پڑی ہے۔ ہم جنس پرستی اور اس کے خواص کی تصویر کشی کو تو جدید نفسیات اور صحت و طب میں بھی کوئی خاص وقیع حیثیت دینے سے پرہیز کِیا گیا ہے۔ا س کی شکل، نمُو اور پھیلاو کے بارے میں ہر طبقہء فکر کی طرف سے جو اختلافی آرا سامنے آئیں ان سے پتا چلتا ہے کہ بہت ضروری ہے پہلے اس فرق کو واضح کِیا جائے تا کہ لوگ جان جائیں کہ ہم جنسوں کا آپس میں تعلق، نسبت، رشتہ، پارٹنرشپ، لائف پارٹنرشپ ہونا ایک بات ہے اور ہم جنسوں کا ہم جنسوں کے ساتھ جنسی فعل میں ملوث ہونا بالکل ہی دوسری بات ہے۔ پہلی بات لائف سٹائل کی ہے، جسے وارا کھائے اپنا لے، دوسری بیماری ہے، جس کا علاج نفرت میں نہیں ہمدردی میں ہے، اخلاقی قدغنوں میں ہے، ریاستی قوانین میں ہے، طب میں ہے، نفسیات میں ہے اور تیر بہ ہدف علاج مذہب میں ہے۔ معاشرے میں برائی کو ہاتھ سے روکنے کی جرأت ہو، یامنہ سے روکنے کی وہ ہمت کر لے، ورنہ برائی کو اپنے دل میں ہی برا جانے تو مرد کا مرد سے اور عورت کا عورت سے جنسی عمل جو علّت بن چکا ہو وہ دیر سویر ختم بھی ہو سکتا ہے ورنہ ایک سے دوسرے کو تحفہ ملنے والی مہلک بیماریاں اور جنسیاتی امراض تو جان لیوا ثابت ہونے میں ذرا بھی دیر نہیںلگاتے۔
بہ ہرحال ہیں دونوں ہی غیر فطری عمل۔ ویسے بھی ہم جنس پرست اب تک جان بھی چکے ہیں یا چکی ہیں اور اُنھیں اپنی جنسی کیفیت کا بخوبی ادراک ہے اور اس کے رجحانات کا بھی تعین وہ کر چکے یاکر چکی ہیں کہ آسانیوں اور سہولتوں کے دائرے میں ڈویلپمینٹ یعنی ترقی اور مسلسل ترقی کی ان کے لیے جو مختلف صورتیں موجود ہیں ان میں ان کے جنسی جذبات و رجحانات کی مستقل طور پر تسکین اُنھیں ملتی رہ سکتی ہے۔ اس حقیقت کا خیال رہے کہ سماجی دستور جس کے ذریعے مرد اور عورت قانونی طو رپر یکجا ہو کے ایک نئی خاندانی اکائی کی ابتدا کرتے ہیں، اس سے یہ مرد سے مرد اور عورت سے عورت شادی کر کے محروم رہتے ہیں اور یہ ان کی چوائس بھی نہیں، اس عادت میں ڈھل جانا ایسے افراد کا اپنا انتخاب یوں ہرگز نہ تھا۔ (حوالہ کے لیے دیکھیے کیتھولک کلیسیا کی مسیحی تعلیمی کتاب۔2358)۔ ہم جنسی عوا مل نہیں، ہم جنسوں کا آپس میں یگانگت کا جو تعلق ہے اس پر جو میڈیکل ریسرچ اب تک ہو چکی ہے اس کی رُو سے ابھی اسی قیاس کو توانا سمجھا جا رہا ہے کہ ایک مرتبہ جسے یہ لت لگ گئی، پھر اس کا رجحان بدل ہی نہیں سکتا۔ جنسِ مخالف کی دوستی میں بھی اسے مزہ نہیں آئے گا، اس کی دلچسپی ہی قائم نہیں ہو گی۔ اور یہ بھی ہے کہ بعض منے پرمنے میڈیکل رائٹرز بتاتے ہیں کہ موافق ماحول اور مناسب حالات میں، ماڈرن دور میں ایسی بھی تھیریپیز آگئی ہیں اور روز بہ روز ان میں بہتری لائی جا رہی ہے، ان کی مدد سے ہم جنس پارٹنرز کی یہ چُول مٹائی جا سکتی ہے اور اُمید کی جاتی ہے کہ اُنھیں نارمل لائف میں واپس لایا جا سکتا ہے۔ میڈیکل پوائنٹ آف ویو سے کچھ بھی کہا جائے، ہم جنسیت کا عادی ہونا یا اس طرف رجحان کا تقویت اختیار کرتے چلے جانا، چال چلن کے اعتبار سے، یہ بات صاف ہے کہ ہم جنس پرست اپنے مجموعی اطوار، برتاو اور رویوں کے ذمہ دار کلیتہً خود نہیں ہوتے۔ ہاں جنسِ مخالف کی طرف رجحان کے حامل متعلقہ خواتین و حضرات کے مقابلے میں تو یہ ذمہ داری ان پر ذرا بھی نہیں پڑتی۔ دِگر جنسیے اپنے ایسے طور طریقوں اور اطوار بل کہ جو لچھن ہوتے ہیں ان کے بارے میں زیادہ جواب دہ ہوتے ہیں۔ اہمیت کے باوصف یہ معاملہ انتہائی نازک بھی ہے، بنیادی اخلاقی غور و فکر کے تناظر میں ہی نہیں بل کہ اس لحاظ سے بھی کہ اس سے صحت و تن دُرُستی کو بھی خطرات لاحق ہوتے ہیں۔پیش پیش خطرہ ایچ آئی وائرس Human Immune Deficiency Virusجسے تخصیص کے ساتھHIVکہا جاتا ہے، اس کا رہتا ہے۔ جو آسانی سے دوسری طرف ٹرانسفر ہو جاتا ہے۔ ہم جنسوں کے جنسی عمل کے دوران بھی یہ ٹرانسفر بآسانی ہو جاتی ہے اور مخالف جنس کے ملاپ و اختلاط بھی یہ روگ لگنے کا سبب بن جاتے ہیں۔
ہم جنسوں کے لیے جنسی کشش رکھنے والوں میں جنسی نقائص، سماجی عیوب اور تن درستی اور صحت میں خرابیاں جلد اور زیادہ عود کر آتی ہیں بہ نسبت جنسِ مخالف کی کشش رکھنے والوں کے۔ حتّٰی کہ اعضاے مخصوص بمتعلق جنس کے بارے میں علمِ تشریح الاعضا سے دہری جنسی خصوصیات کا پتا چلا ہے جسے ثنویتِ جنس کہا جاتا ہے۔ ہم جنسوں میں مباشرت کا عمل شروع ہو جائے تو جنسِ مخالف اور بچوں کی پیدایش کے بارے میں منفی رجحانات پختہ تر ہو کر دوریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ سیم سیکس اختلاف بے ثمری، بانجھ پن (اولاد نہ ہونا) پر منتج ہوتا ہے۔ خود لذتی کی طرح یوں بھی بندہ آہستہ آہستہ رہ ہی جاتا ہے۔ جسم کے اعضاے خاص کی بین الارتباطی فعالیت پر انتہائی خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ا س لحاظ سے دیکھا جائے تو ہم جنس پرست خواتین خواتین اور حضرات حضرات کو علم ہوتا ہے، پورے طور پر اُنھیں اپنی ظاہری نسبت سے آگاہی حاصل ہو چکی ہوتی ہے کہ ان کی جنس اپنے یا اپنی ہم جنسوں سے فرق ہے، وہ اپنی اس ہیئتِ ترکیبی، تبدیلیِ ہارمونز، رجحانات و کشش سے کتنی بھی مصالحت کر لیں وہ اس سے پہلے مقرر شدہ سیٹ اپ افزایشِ نسل کے یا تو قابل ہی نہیں یا اُنھیں بچے پیدا کرنے کرانے سے نہ کوئی سروکار رہتا ہے، نہ ہی رغبت کہِیں بچ رہتی ہے۔
ربی نظامِ تخلیق کی جو صورت ہے اس میں اور الٰہی ہدایات جو بچے جننے، اولاد پیدا کرنے کے سلسلے میں دی جا چکی ہیں، کی رُو سے خاص نقطہء نظر سے جانچے گئے حالات کے مطابق ہم جنس پرست کبھی بھی غیر جنس کے فرد کی طرف جنسی میلان رکھنے والوں کے برابر ہو ہی نہیں سکتے۔ دونوں جنسیات کے سمندر میں بہنے والی متضاد رخ رویں ہیں۔
بائبل مقدس کے مطابق جنسی ارتباط و اختلاط و انبساط کا طے شدہ دینی، اخلاقی، سماجی راستہ شادی ہے۔۔۔۔۔۔ مرد اور عورت کے مابین شادی۔ شادی قابلِ جنسی تولید خلیہ ہے، بیج ہے معاشرت کے استحکام اور انسانی خاندان کے پھلنے پھولنے کا۔
ہم جنسوں میں جنسیاتی عمل کی تو بائبلی قرونِ اولیٰ میں بھی سخت تکذیب و نفرین آئی تھی۔ کلامِ مقدس کے عہدِ عتیق و جدید میں کہِیں کوئی اختلاف نہیں اس نظریہ پر کہ انسانوں میں جنسیاتی عمل یعنی نر و مادہ میں جنسی عمل، مجامعت سے، جو اصل و فطری مقصد کا بیج پڑتا ہے وہ ہم جنسیت کے کھیل تماشوں سے حاصل ہونا محال ہی نہیں، سراسر ناممکن ہے۔ ہم جنسی مباشرت تو عیاشی بھی کیا، نری بیماری ہی بیماری ہے اور تو اور
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
خلوتوں کی ہولناک رنگینیوں میں گوڈے گوڈے ڈوبے ہوئے ہم جنس پرست اسرائیلیوں کو بوجوہ قانونی طور پر شہر بدر کر کے لوگ ان سے قطع تعلق کر لیا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔
اور تُو مرد کے ساتھ عورت کی مجامعت کی طرح صحبت نہ کر کیوں کہ یہ مکروہ کام ہے۔
احبار۔۔۔۔۔۔22:18
اگر کوئی مرد سے صحبت کرے جیسے عورت سے کی جاتی ہے تو اُنھوں نے مکروہ کام کیا۔ وہ دونوں مار ڈالے جائیں۔ اُن کا خون انہی پر ہو گا۔
احبار۔۔۔۔۔۔13:20
نئے عہد نامہء اقدس میں مقدس پولوس رسول نے ہم جنسی صحبت کو غیر فطری مباشرت سے تعبیر کیا ہے۔۔۔۔۔۔
پس مَیں تم کو بھی جو روما میں ہو حتی المقدور انجیل کی خبر دینے کے لیے تیار ہوں۔ کیوں کہ مَیں انجیل سے شرماتا نہیں ا س لیے کہ وہ ہر ایک ایمان لانے والے کے واسطے پہلے یہودی پھر یونانی کے لیے خُدا کی نجات دہ قدرت ہے۔ کیوں کہ اس میں خُدا کی صداقت ایمان سے ایمان تک ظاہر ہوتی ہے، جیسا لکھا ہے کہ ایمان سے صادق زندہ رہے گا۔
(شرک میں صداقت نہیں)
کیوں کہ خُدا کا غضب اُن آدمیوں کی تمام بے دینی اور ناراستی پر آسمان سے ظاہر ہوتا ہے جو سچائی کو ناراستی سے روکے رکھتے ہیں، کیوںکہ جو کچھ خُدا کی نسبت معلوم ہو سکتا ہے وہ اُن کے باطن میں ظاہر ہے، اس لیے خُدا نے اُسے اُن پر ظاہر کر دیا ہے۔ کیوں کہ اس کے نادیدنی اوصاف دُنیا کی تکوین ہی سے مخلوقات پر غور و خوض کرنے سے صاف نظر آتے ہیں، ایسا ہی اس کی ازلی قدرت اور الوہیت بھی۔ یہاں تک کہ وہ کچھ عذر نہیں کر سکتے۔ کیوں کہ اُنھوں نے اگرچہ خُدا کو پہچانا تو بھی خُدا کے لائق اس کی تمجید اور شکرگزاری نہ کی، بل کہ اپنے باطل خیالات میں پڑ گئے اور ان کے بے فہمید قلوب پر تاریکی چھا گئی۔ وہ اپنے آپ کو دانا ٹھہرا کر نادان ہو گئے اور غیر فانی خُدا کے جلال کو فانی انسان اور پرندوں اور چوپایوں اور کیڑے مکوڑوں کی صورت کی شبیہ میں بدل ڈالا۔ اس لیے خُدا نے اُن کے دلوں کی خواہشوں کے ذریعہ سے اُنھیں ناپاکی کے حوالے کر دیا کہ ان کے بدن آپس میں بے حرمت کیے جائیں۔ انھوں نے خُدا کی سچائی کو جھوٹ سے بدل ڈالا اور خالق کے بجاے (جو دائماً محمودہو۔ آمین) مخلوق کی پرستش اور عبادت کی۔
اسی سبب سے خُدا نے اُن کو شرمناک شہوت کے حوالے کر دیا ہے، یہاں تک کہ اُن کی عورتوں نے اپنی طبعی عادت کو خلافِ طبع عادت سے بدل ڈالا۔
اسی طرح مرد بھی عورت سے اپنے طبعی کام چھوڑ کر اپنی شہوت سے آپس میں مست ہو گئے ہیں۔ مرد سے مرد نے بے حیائی کی ہے اور اپنے آپ میں اپنی گمراہی کے لائق پھل پائے۔
رومیوں۔۔۔۔۔۔15:1تا27
شریعت صادق کے واسطے نہیں دی گئی بل کہ بے شرعوں اور سرکشوں، بے دینوں اور گنہگاروں، شریروں اور رِندوں، پدرکُشوں اور مادرکُشوں، خونیوں اور۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔حرامکاروں، اغلامیوں، بردہ فروشوں، جھوٹوں، جھوٹی قسم کھانے والوں کے واسطے، اور ان کے علاوہ جو کچھ اُس صحیح تعلیم کے خلاف ہو۔۔۔۔۔۔
1۔ تیموتاؤس۔۔۔۔۔۔10:1
اور پولوس رسول نے اس کے خلاف اس طرح متنبہ کِیا جس طرح وہ دوسری جنسی غلط کاریوں پر خبردار کرتا تھا۔
ہم جنسی شہوانیت کی طرف مائل ہونے کی وجوہ اور عوامل سے متعلق گذرے وقتوں میں لا علمی کے باعث معاشرہ تلملا اُٹھتا تھا اور قانون حرکت میں آجاتا تھا۔ ہم جنس پرستوں کی مذمت و ملامت ہی بس نہیں، ان پر ستمگری و ایذارسانی کے پہاڑ توڑدیے جاتے تھے ایسے لوگ سماج کے دشمن اور قانون کی نگاہوں میں مجرم قرار پاتے تھے۔ یہ کوئی نہیں سوچتا تھاکہ ایسا کیوں ہے۔ ایک اچھا بھلا انسان آخر اس طرف کیوں مائل ہو جاتا ہے۔ مگر آج کی تیز پرکھ والی گہری نظر کو بہت کچھ نظر آیا ہے اور اس نے اپنی ہی جنس کی فرد کی طرف جنسی کشش سے بیتاب ہو جانے والوں یا والیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظر کِسی بھی انداز میں ان کی ہتک و رسوائی کی سختی سے ممانعت کر دی تا کہ انھیں معمول کی زندگی میں واپس لایا جا سکے۔ کردار یا اصولِ اخلاق کے نقطہء نظر سے ہومو سیکشوئلز کے لیے بھی ضروری ہے وہ بھی جیسے تیسے کوششیں جاری رکھیں کہ ان کے جذبات والی ڈرائیونگ سیٹ پر جنسی ہیجان خیزی نہ بیٹھ پائے۔ وہ اپنے کنٹرولز اپنے ہی ہاتھ میں رکھیں اور اپنے معالج کنڈکٹر کی سیٹی پر کان لگائے رکھیں۔ شعور کی بیداری سے کام لیں اپنی نفسیاتی خواہشات کو درست سمت دیں یعنی انسانی معاشرے کی اخلاقیات اور اخلاقی مقاصد و نتائج کی طرف اور خواہشات کو رواں دواں رکھنے کی پوری پوری کوشش کریں اور مزید بہتر یہ بھی ہے کہ ذاتی احترام و وقار کے خود محافظ بنیں۔ اپنے میل یا فی میل والے طور اطوار، لائف سٹائل، ہم جنسیت کے میلان والے خواتین و حضرات پر جو رویے غالب آتے چلے جا رہے تھے وہ ان پر غلبہ پائیں اور ہم جنسی کے لیے جنسیاتی کشش والا رجحان ختم کریں تا کہ ان کے اندر کی جنسی احتیاجات و مطالبات ان پر حاوی نہ ہو سکیں۔ فطرت کے تقاضوں کے خلاف جنگ بندی میں ہی ان کا اور ان کی آیندہ نسلوں کا بھلا ہے۔
دوسروں کو یعنی اپنی جنس کے دوسروں کوترغیب دینے، بہکانے، ٹیمپٹ کرنے، ورغلانے کے حربے ہم جنس پرستوں کو چھوڑنے پڑیں گے۔ اپنے دھیان راہ جاتے لوگوں کو۔۔۔۔۔۔ تُسی تے مینوں چھیڑو گے!۔۔۔۔۔۔ کہہ کر یا اشاروں، کنایوں، اداؤں یا چالوں سے اپنا مطلب واضح کرنے سے رضاکارانہ طور پر پرہیز اختیار کریں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ جنھیں ہم مردانی کُڑی اور ماہی منڈا کہتے ہیں او رمردوں کو زنانے مرد کہتے ہیں (خواجہ سراؤں کی بات نہیں ہو رہی) 'چکنے' بھی انہی کو کہا جاتا ہے، دوسرے شوق والوں کولوطی اور کیا کیا کہا جاتا ہے، ان میں بہت سے لوگ ہیں جن میں نامی گرامی ہونے کے جرثومے موجود ہوتے ہیں۔ کئی ''گے'' لوگ بہت سیانے، تعلیم اور روزگار میں کامیاب انسان، اور بعض کا شمار نابغہء روزگار شخصیات میں ہوتا ہے۔ انھیں اپنی حرکات و سکنات پر قابو رکھنے کی سعی کرتے رہنا چاہیے۔
فاعل اپنا فعل ترک کریں اور مفعول بھی ایسے ''شوقوں'' سے باز آجائیں۔ جدید تجربات میں یہ نتائج سامنے آ رہے ہیں کہ خواتین اصلاح پر جلد رضامند ہو جاتی ہیں اور اپنے علاج کے لیے تعاون کرتی ہیں۔ مرد ڈھیٹ ہڈی ہیں، آہستہ آہستہ غلط کاریوں سے باز آتے ہیں، مگر باز آ ہی جاتے ہیں۔ ان سب خواتین و حضرات کے لیے الٰہی پیغام یہی ہے کہ اپنی زندگی میں ہی خوشنودیِ الٰہی حاصل کر لیں۔ اس کے بتائے ہوئے سیدھے اور فطرتی رستے پر نیکوکاروں کی طرح چلنا شروع کر دیں۔ توبہ کے دروازے ابھی توکھلے ہیں، دونوں جنسوں کے لوگ فائدہ اُٹھائیں، اپنی اور اپنے خاندان کی عزت بچائیں، اپنی آخرت سنواریں کہ اصل زندگی تو وہی ہے۔ معاشرے کے نادانوں کی اوئے توئے سے بچنے کی سبیل کریں، خُدا آپ کو ہر بلا سے محفوظ رکھے۔ اگر آپ مسیحی ہیں تو اپنی حالت و ہیئت سدھارنے میں کوئی مشکل پیش آتی محسوس کریں تو خُداوندِ خُدا کی مقدس صلیب پر قربانی سے تقویت حاصل کریں۔ اپنی سائیکی کو اس کی پناہ میں دے دیں۔ خُداوند یسوع المسیح پاک نے مر کے آپ کو، ہم سب کو زندگی دی، ہمیں اس زندگی سے پیار کرنا چاہیے، اس کی مقدس خُداوند کی مرضی کے مطابق حفاظت کرنی چاہیے۔ وہی ہمارا، آپ کا، سب کا آخری سہارا ہے۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔
(کیتھولک کلیسیا مسیحی تعلیم کی کتاب نمبر2358سے استفادہ کیجیے)
ذی ہوش معاشرے کا بھی فرض ہے کہ ہم جنس پرستوں کے ساتھ ہمدردی کا سلوک روا رکھیں۔ انھیں انانیت کی جبیں پر کلنک کا ٹیکا نہ سمجھا جائے، ان کی بدنامی اور رسوائیوں کو ان کے گلے کا ہار نہ بنایا جائے، انھیں حقارت کی نظر سے دیکھنا، ان کو احترام اور توقیر کے قابل نہ سمجھنا انھیں پاگل کر دینے والی باتیں ہیں، غصہ اور افسوس کے ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں یہ لوگ، اور پھر وہ کِسی کی کوئی بات نہیں سُنتے۔
مسیحیوںکو چاہیے کہ وہ مائل بہ ہم جنس انسانوں کو رسولی محافظت و خبرگیری میں دے دیں۔ ایک جیسی جنس رکھنے والے پارٹنرز کے لیے قواعد و ضوابط سے ہٹ کے کِسی اقدام کی سہولت دینے کے ضمن میں کلیسیا کے چند تحفظات ہیں۔ نہ مسیحیت سے خارج سمجھا جاسکتا ہے نہ انھیں انسانیت سے مبرا کوئی برادری۔