German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سوال نمبر111

۔یہودیت پر تبصرہ کرنے کے لیے آپ کی زبانوں پر تالے کیوں پڑ جاتے ہیں؟ کچھ بولیں بھی تو بڑے محتاط انداز میں بولتے ہیں۔ کہِیں ایسا تو نہیں کہ پسِ پردہ مسیحیت پر بھی یہودیوں ہی کی اجارہ داری قائم ہو؟

 

جواب:۔گزارش ہے، ایک مرتبہ اور سوال نمبر83اور 102کے جوابات پر نگاہ دوڑا دیکھیے، شاید ہماری وضاحت سے آپ مطمئن ہو جائیں۔ ہونا چاہیں گے تو امید ہے ضرور مطمئن ہوں گے۔ اگر کوئی کسر رہ گئی تو آپ کی تشفی کے لیے جو سامان سٹاک میں ہے وہ تازہ بتازہ ایک مناسب و متعلقہ پیراگراف ہے جو حال ہی میں کومپینڈیم دیر سوشیل لیہرے دئیر کرشے (The Churchs Compendium of Social Teaching.)میں چھپا ہے (Freiburg i.Br.: Herder, 2006, Nr. 536)اور دوسرے مذاہب کے ساتھ تعلقات،(Nostra Aetate) کونسل کی دستاویز کو اس کی بنیاد بنایا گیا ہے:

عہد نامہء قدیم میں جو مشترک عقائد و روایات موجود ہیں اُنھیں سامنے رکھتے ہوئے کیتھولک کلیسیا کے بخوبی علم میں ہے کہ کلیسیا کی معاشرتی و سماجی تعلیمات ہمیں ہمارے یہودی بھائیوں سے مکالمہ کرنے کے لیے ممد و معاون بننے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اسی لیے کلیسیا مکالمہ کرنے کے عمل کی حوصلہ افزائی کرتی رہتی ہے تا کہ سماجی انصاف و معاشرتی عدل پر مبنی ایک مشترک مستقبل کی تخلیق کی جائے جو امنِ عامہ کا ضامن ہو جس کے تحت خُدا کے بچے،خدامِ خُدا سکون و امان پا سکیں۔یہودیوں کے ساتھ ہمارا ثقافتی ورثہ مشترکہ ہونا ایک بہت بڑی وجہ ہے کہ ان سے برادرانہ تعلقات میں مضبوطی لائی جا سکے، باہمی افہام و تفہیم اور ایک دوسرے کے احترام کے سلسلے میں پیش رفت میں تیزی لائی جا سکتی ہے کیوں کہ ایسی سوجھ بوجھ اور ادب احترام اور قدر شناسی کا رشتہ تو پہلے سے ہی دلوں میں موجود ہے۔ ایک دوسرے کے لیے نیک خیالات، احسن جذبات و احساسات کی کمی نہیں۔ انھیں کی اساس پر اس میثاق کا شاندا ر محل تعمیر کِیا جا سکتا ہے جس میں ہر طرح کے تعصبات، امتیازات و تفریق اور تنازعات کا داخلہ ممنوع ہو اور توقیرِ انسانیت کے دفاع کی خاطر وہی محل ایک مضبوط اور ناقابلِ تسخیر قلعہ بھی ثابت ہو۔ دونوں ایک ہی ٹکّر کے مذہب ہیں، ہم پلہ، ہم رُتبہ۔

نوسترا ایتاتے کے پارٹ3میں کلیسیا مسلم مسیحی تعلقات کے فروغ پر بھی زور دیتی ہے اور اس کا اصرار ہے کہ دونوں قومیں ماضی کی تلخ یادیں بس اب کہِیں دفن کر دیں، اور سارا زور باہمی مفاہمت اور اتفاقِ راے اور آپس کی سوجھ بوجھ پر صَرف کرنا شروع کر دیں تا کہ دونوں مل کر نسلِ انسانی کی فلاح و بہبود کی ترقی و تقویت کے لیے جم کر اپنا کردار ادا کرنے لگیں۔ معاشرتی انصاف، سماجی عدل، نیک کرداری، اخلاقی بہبود اور شائستگی پورے اس گلوب کا سکّہء رائج الوقت ہے۔ دونوں قوموں میں بڑا پوٹینشل ہے، کامیابی یقینی ہے اگر بنی اسرائیل کو تکون کا تیسرا ضلع، تیسرا زاویہ بننے کی دعوت دے دی جائے۔ تینوں ایک خُدا کو ماننے والے مذاہب ہیں، تینوں اہلِ کتاب ہیں، تینوں اوپر تلے کے دِین ہیں۔ تینوں ایک دوسرے کے قدیمی قرابت دار ہیں۔ تو پھر فرق تمیز کس بات کی ہے۔ چند متنازع باتیں ہیں۔ تو انھیں ضرور بیچ میں لانا ہے؟ برداشت کی ضرورت ہے۔ وسیع القلبی کی احتیاج ہے۔ ہم نے امن اور آزادی کا محافظ بننا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ دنیا میں اور مذاہب بھی ہیں، ان کی طرف بھی صلح و خیرسگالی کا ہاتھ بڑھانا ہو گا۔ کِسی مذہب کو، اس مذہب کے خیر خواہ،نیک نیت، نیک طینت بندوں کو اپنی فہرست سے خارج نہیں کرنا بل کہ سب کو گلے لگانے والے، خلوص کے ہالے میں لیے رکھنا ہے۔ مزید انصاف کے حصول اور دنیا بھر میں مضبوط امن کے لیے کلیسیا کی طرف سے دعوتِ عام ہے۔ اور اس کے لیے مکالمہ کا فورم حاضر ہے، مذاہبِ عالم اور ان کے عالم و پیروکار آگے بڑھیں، کیتھولک کلیسیا کا ہاتھ بٹائیں۔ ان کا تعاون، رواداری، بھائی چارے، ہمدردی اور محبت کے چاروں موسموں سے اس کرئہ ارض کے ہر باسی کو سرشار کردے گا۔ کلیسیا کی سماجی تعلیمات در اصل مسلسل دعوت ہیں مل بیٹھنے کی، مکالمہ کرنے کی۔ تمام مومنینِ ادیانِ عالم سب ایک پیج پر آجائیں۔ یہی وقت ہے اتفاق و محبت کا، امن و آشتی کے پرچار کا، دنیا کا چہرہ خوب صورت بنانے کا۔ آئیے ہم سب مل کر نفرتوں، کدورتوں، تعصبات اوررنگ و نسل کے امتیازات کو پرے ہٹاتے ہوئے مفید ِ کار تعاون کے ذریعے ایک نئی ہی سماج کی بنا ڈالیں کیوں کہ۔۔۔۔۔۔ مذہب ہی ہے جو امن کی عمل پذیری ممکن بنا سکتا ہے، اس میں استحکام لا سکتا ہے۔ اور اس کامیابی کا انحصار ہے تمام مذاہب کے وفاداروں کی مشترکہ کاوشوں، پُرخلوص جذبوں، انسانیت کی فلاح کے احساسات اور فکرِ انسانی میں جامع ارتقا پیدا کرنے اور اس میں سہانے خواب کاشت کرنے پر۔ (حوالہ کمپینڈیم نمبر537)۔


Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?