German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سوال نمبر103

۔ یہ کیا بات ہوئی، مسیحیت کو عروج یورپ میں مِلا، حال آں کہ اس کا آغاز مشرقِ قریب میں ہوا تھا، یہِیں پھیلتی۔ مَیں نے دُرُست کہا ناں؟

 

جواب:۔ مقدس متی کے مطابق یہ ہے کہ خُداوند یسوع مسیح اقدس کہ جو مُردوں میں سے جی اُٹھا، اس نے اپنے گیارہ شاگرداور رسولوں تک اپنے عالمگیر مشن کی ایک ایک اکائی پہنچا کے ان کے سینے ایمان کی روشنی سے منور کر دیے تو گویا انجیلِ مقدس کی تکمیل ہو گئی، وہ خوشخبری مُکمَّل ہوئی جسے عام کرنے کے لیے مسیحِ اقدس میں خود خُدا انسانوں میں اُتر آیا تھا۔ خُداوند یسوع مسیح نے اپنے حواریوں سے کوہِ جلیل پر خطاب کیا:

اور یسوع نے پاس آ کر اُن سے باتیں کیں اور کہا کہ آسمان میں اور زمین پر سارا اختیار مجھے دیا گیا ہے، پس تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور باپ اور بیٹے اور روح القدس کے نام سے اُن کو بپتسمہ دو اور ان کو یہ تعلیم دو کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جن کا مَیں نے تم کو حکم دیا ہے اور دیکھو! مَیں دنیا کے آخر تک ہر روز تمھارے ساتھ ہُوں۔

مقدس متی۔۔۔۔۔۔18:28تا 20

مسیح کے رسول اپنے قائم مقاموں میں ہمیشہ زندہ ہیں۔ یہ کبھی نہیں ہو گا کہ کلیسیا مسیح سے جُدا ہو جائے یا یہ کہ مسیح کلیسیا کو چھوڑ دے۔ اس کی بادشاہت ہے مسیح پاک کی کلیسیا اور وہ ایمان کی راہ سے بھٹک نہیں سکتی۔ اس نے فرمایا، مَیں تمھارے ساتھ ہُوں، ہر روز، ہمیشہ۔

خداوند یسوع مسیح اقدس کے مقدس فرمان کے سامنے سرِ تسلیم بے چون و چرا خم کرتے ہوئے، تمام رسول اور خوش نصیب مسیحیوں کی نسلِ نو مسیحیت کا آفاقی پیغام دنیا کے ہر کونے میں پہنچانے کے لیے چاروں طرف پھیل گئی۔ آغازِ پرچار کے زمانہ میں مسیحی جماعتیں اور کلیسیائیں ابتدائی طور پر ایشیا، افریقا اور یورپ کی سرزمینوں پر قدم جما سکنے میں کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔ جب مذہبِ اسلام کی تیز تر اور بلند ترین لہروں نے بحر و بر پر یلغار کر دی اور

صحرا ست کہ دریا ست، تہِ بال و پرِ ما ست

والی صورتِ حالات اُبھر کر سامنے آنے لگی، تب سے پہلے مسیحی مذہب کے پرچارکوں کی تمام تر توجُّہ بحیرئہ روم کے آس پاس کے علاقوں پر مرکوز تھی۔ اس لیے ایشیا،ا فریقا اور یورپ میں ایک دنیا نے مسیحیت کو خوش آمدید کہا۔ شمالی افریقا میں مسیحی خادموں نے لوگوں کے دِل موہ لیے۔ نییر ایسٹ اور مڈل ایسٹ میں بھی مسیحیت کو بہت پذیرائی ملی۔ مسیحی آبادیوں، ریاستوں اور گرجا گھروں پر مسلمانوں کی حکمرانی کبھی بھی غلبہ نہ پا سکی کہ ان کو اپنے زیرِ اثر لے آئیں، ان پر بھی اپنا حکم چلائیں یا اپنی شریعت ان پر بھی عائد کر دیں۔ مسیحیت بطور ایک علیحدہ مذہب سروائیو کر گئی۔ مسلم خلفا، مسلمان حکمرانوں کے خاندان، سلسلہء سلاطین، بادشاہتیں اور نوابیاں جب پھیلنے لگیں تو اپنی راجدھانیوں کے مسیحیوں کو انھوں نے ذمیوں کا درجہ دے کر ان کی حفاظت اپنے ذمہ لے لی اور ان پر اسلامی ذمی ٹیکس عائد کر دیا۔ ان کی اس حکمتِ عملی نے رنگ جمایا اور مسیحی اکثریت سمٹ کر مسیحی اقلیت میں ڈھلنے لگی۔ مسلمانوں کی اکثریت والے ملکوں میں مسیحیوں کی نفری آئے روز کم ہونے لگی درجہ بہ درجہ، ایک تواتر کے ساتھ اور بعض ریاستوں میں بڑے ہی ڈرامائی انداز میں، صورتِ حالات قابو سے باہر ہونے لگی۔ راجا کا دھرم ہی پرجا کا دھرم ہوتا ہے۔ ایک بحران نے مسیحیت کو آ لیا۔ صدیوں کا سفر طے کرنے کے بعد تاریخ ایسے موڑ پر آپہنچی جہاں بڑے پیمانے پر مسیحیوں نے مشرقی اور مغربی یورپ کے دیسوں کا رُخ کرلیا۔ اور پندرھویں صدی کے آتے آتے مسیحیت نے کرئہ ارض کے بیشتر خطوں پر اپنا سکّہ جما لیا۔ آج ایک دنیا کو اپنے مسیحی ہونے پر فخر ہے!

دنیا چھے برِّاعظموں پر منقسم ہے اور ان میں سے کوئی ایک بھی مسیحیوں سے خالی نہیں۔ مسیحیت عالمگیر مذہب ہے۔ اب تو یہ کائناتی مذہب بھی ہے، خلاؤں میں مسیحی موجود ہیں، چاندپر قدم رکھ چکے ہیں، ستاروں اور سیّاروں پر زندگی اور زندہ رہنے کے آثار و وسائل تلاش کرنے کی تگ و دو میں ہیں، خلائی سٹیشنوں پر قیام ہے ان کا۔ کائنات میں بائبل مقدس کی تلاوت کی گونج کہِیں بھی جہاں زندگی کا شائبہ ہو سُنی جا سکتی ہے۔ خُداوندِ خُدا کو جلال دینے، اس کی تمجید کرنے والے وہاں وہاں پہنچے ہیں جہاں جہاں سانس لیا جا سکتا ہے۔ اب تو انتہائی دُور کے اجرامِ فلکی بھی مسیحیوں کے ہدف پر ہیں۔

کرئہ ارض پر جنوبی آدھی دنیا تو مسیحیوں سے بھری پڑی ہے۔ لاطینی امریکا، افریقا اور اوشینیا نزدیک کی مثالیں ہیں۔ تازہ ترین تحقیق کے مطابق یورپ کے مغربی ممالک میں بود و باش رکھنے والے مسیحیوں کی تعداد باقاعدہ طور پر گرتی چلی جا رہی ہے جب کہ جنوبی نصف کرئہ ارض میں ان کی تعداد میں ہر روز افزودگی نظر آ رہی ہے۔ نتیجہ یہ کہ مسیحیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے سبب مادرِ گیتی کا چہرہ سنورتا نکھرتا حسین ہوتا چلا جا رہا ہے، گناہوں، ظلم، زیادتیوں اور بدصورتیوں کے داغ دُھلتے جا رہے ہیں اور قطعی طور پر یہ فرض نمایاں تر ہے۔ 

دنیا بڑی تیزی سے بدل رہی ہے۔۔۔۔۔۔مسیحی دنیا!


Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?