:سُوال نمبر73:
۔پُرانے عہد نامہ میں دو آیات ہیں جو ایک دُوسرے کی ضد ہیں:
ہزارویں پیڑھی تک بھی اس کی کرم نوازی جاری رہے گی۔ فِسق و فُجُور، جُرم اور گُناہ سب معاف کر دیے جائیں گے، گو کہ مُجرم کو بے گُناہ قرار دینے کا اعلان بھی نہ کِیا گیا ہوگا۔
لیکن اولاد اور آگے اولاد کی اولاد تیسری چوتھی پُشت تک اپنے والدین، دادا، پرداداؤں کی بد اعمالی کی سزا بھُگتتی رہے گی:
''ہزاروں پر مہربانی رکھنے والا۔ بدی اور خطا اور گُناہ کا بخشنے والا۔ کوئی خطاکار اُس کے سامنے بری نہ ہو گا۔ وُہ باپ دادا کے گُناہ کا بدلہ لڑکوں کااور لڑکوں کے لڑکوں کو تیسری اور چوتھی پُشت تک دیتا ہے''۔
خُرُوج۔۔۔۔۔۔7:34۔
اور بچّوں کے بدلے میں باپ موت کے مُنہ میں نہ دھکیل دیے جائیں، نہ ہی اولاد اپنے والدین کے بدلے۔ البتّہ آدمی کو جِس بدکاری پر موت کا سامنا کرنا ہو گا وُہ بدکاری،
بداعمالی، جُرم خُود اُسی سے سرزد ہُوا ہو گا:
''۔۔۔۔۔۔لیکن اُن کے بیٹوں کو اُس نے قتل نہ کِیا۔ اس کے مُطابِق جو موسیٰ کی شریعت میں لِکھّا ہے جہاں خُداوند نے حُکم دے کر فرمایا کہ بیٹوں کے بدلے باپ مارے نہ جائیں گے اور نہ والدوں کے بدلے بیٹے مارے جائیں گے، پر ہر ایک آدمی اپنے ہی گُناہ کے لیے مارا جائے گا''۔
2۔ اَحْبار۔۔۔۔۔۔4:25۔
اِس اختلافِ آیات پر آپ کیا کہیں گے، جناب؟
جواب:۔خُدا پاک کے اپنے طے کردہ اُصُول جِن کا تعلُّق عفو و درگُذر اور سزا و عذاب سے ہے، ان کا اہم ترین حوالہ عہد نامہ قدیم میں مِلتا ہے۔ برکت حاصل کیجیے:
''میرے حُضُور میں تیرے لیے کوئی دُوسرے معبُود نہ ہوں۔ تو اپنے لیے تراشی ہُوئی مُورت یا کِسی ایسی چیز کی صُورت نہ بنانا جو اُوپر آسمان میں یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے کے پانی میں ہے۔ تُو اُس کو سجدہ نہ کرنا اور نہ اُس کی خدمت کرنا۔ کیوں کہ مَیں خُداوند تیرا خُدا، خُداے غیُّور ہُوں اور جو مُجھ سے عداوت رکھتے ہیں مَیں اُن کے باپ دادا کی بدکاریوں کی سزا اُن کی اولاد کو تیسری چوتھی پُشت تک دیتا ہُوں۔ مگر جو مُجھ سے محبّت رکھتے اور میرے احکام کو مانتے ہیں مَیں اُن پر اُن کی ہزاروں پُشتوں تک رحم کرتا ہُوں''۔
تثنیہ شرع۔۔۔۔۔۔7:5تا 10۔
یہ توریت پاک کا بہُت ہی اہم مضمُون ہے جو خُدا شان والے کے 10مُبارک احکام اپنے بندوں نبیوں اور رسولوں تک پہنچاتا ہے۔ یہ باتیں خُداوند نے پہاڑ پر آگ اور بادل اور تاریکی کے درمیان بڑی آواز سے فرمائیں۔
آگے چل کے اسی کتابِ مُقدّس میں مرقُوم ہے:
''پس جان رکھ کہ خُداوند تیرا خُدا وُہی خُدا ہے۔ وُہ وفادار خُدا ہے جو عہد کو اور رحمت کو اُن کے لیے ہزاروں پُشتوں تک یاد رکھتا ہے جو اُس کو پیار کرتے ہیں اور اُس کے حُکموں کو مانتے ہیں۔ اور وُہ اُن کو ہلاکت سے بدل دیتا ہے جو اس سے کِینہ رکھتے ہیں۔ وُہ ایسوں کے ساتھ دیر نہیں کرتا لیکن انہی سے اِنتقام لیتا ہے۔ پس تُو وُہ احکام اور قوانین اور قضائیں مان جِن پر عمل کرنے کے لیے مَیں آج کے دِن سے تُجھے حُکم دیتا ہُوں''۔
تثنیہ شرع۔۔۔۔۔۔9:7تا 11۔
سُوال میں جِس متن کا حوالہ دیا گیا ہے، ادُھورا ہے، مُکمَّل یُوں ہے:
''اور خُداوند اُس کے آگے سے گُذرا، اور خُداوند نے پُکارا۔ خُداوندِ خُداے رحم و مہربان بڑے تحمّل والا بڑی رحمتوں اور وفاداری والا، ہزاروں پر مہربانی رکھنے والا، بَدی اور خطا اور گُناہ کا بخشنے والا، کوئی خطاکار اُس کے سامنے بَری نہ ہوگا۔ وُہ باپ دادا کے گُناہ کا بدلہ لڑکوں کو اور لڑکوں کے لڑکوں کو تیسری اور چوتھی پُشت تک دیتا ہے۔ تب موسیٰ نے جلدی کی اور زمین پر گِر کر سجدہ کِیا، اور کہا۔ اے خُداوندا! اگر مَیں تیری نظر میں مقبُول ہُوں تو خُداوند ہمارے بیچ میں چلے۔ کیوں کہ یہ لوگ سخت گردن ہیں۔ اور ہمارے گُناہ اور خطائیں مُعاف کر اور ہم کو اپنی میراث بنا''۔
خُرُوج۔۔۔۔۔۔6:34تا 9۔
تثنیہ شرع ساتویں باب کی دسویں آیت مُبارک ایک بار پِھر آپ کو متوجِّہ کرتی ہے:
''اور وُہ اُن کو ہلاکت سے بدلہ دیتا ہے جو اُس سے کِینہ رکھتے ہیں۔ وُہ ایسوں کے ساتھ دیر نہیں کرتا لیکن اُنھیں سے انتقام لیتا ہے''۔
تنثیہ شرع، ساتویں ہی باب کی نویں آیت کی بھی آپ کی آنکھوں نے ابھی تلاوت کی اور خُرُوج کے چونتیسویں باب کی ساتویں آیت کا متن بھی آپ کو یاد ہو گا، اس پر دھیان دیجیے۔ باپ کے گُناہوں، بداعمالیوں، بدکاریوں کی سزا بیٹوں کو تیسری یا چوتھی نسل تک ملے، اگر غور کریں تو دونوں آیات ایک دُوسری کی ضد قطعاً نہیں۔ اگلے وقتوں کے سُوچ کے مُطابِق، اور بِنا کِسی تبدیلی کے اسلاف والی مُعاشرت آج بھی جہاں پائی جاتی ہے وہاں کہا جاتا ہے کہ ایک بڑا اور مُکمَّل قبیلہ پُورا ہونے میں چار پودیں لگتی ہیں، یعنی ایک گروہ کے پھلنے پھُولنے، خاندان بننے میں عرصہ چوتھی پُشت تک پہنچتا ہے۔ قبائلی سسٹم چوتھی پیڑھی پر گوت گوت سے قبیلہ میں یکتا ہوتا ہے۔ یعنی ایک مُکمَّل خاندان اپنے سردار کے زیرِ کمان۔ اور سب کے سب، مِن حیثُ القوم قبیلہ، خُداوند کریم کے حُضُور جوابدہ ہوتے ہیں۔ اچھّے اعمال کے اچھّے نتائج، بُرے کاموں کے بُرے نتیجے۔
2۔ احبار4:25کا جو حوالہ سُوال میں دیا گیا ہے اسے اگر دیکھنا ہو تو ضرُورت ہے کہ تاریخی ترتیب کے تناظُر میں دیکھا جائے کیوں کہ تثنیہ شرع کے چوبیسویں باب کی آیت سولہ میں منظر صاف ہو جائے گا۔
''لڑکوں کے بدلے باپ نہ مارے جائیں اور نہ باپ کے بدلے بیٹے مارے جائیں۔ پر ہر ایک آدمی اپنے ہی گُناہ کے بدلے مارا جائے''۔
بظاہر ایک دُوسری کے تضاد میں نظر آنے والی آیات، دونوں کا ہی حوالہ تثنیہ شرع کی کتاب ہے جو کلامِ مُقدّس کی پہلی پانچ کتابوں میں پانچویں کتاب ہے، یہ پانچ کتابیں تورۃ یا توریت کے نام سے مشہُور ہیں۔ جِس کے معانی ہیں، شریعت۔ ان میں موسوی شریعت درج ہے۔ تثنیہ شرع کی کتاب قوانین کا اختصار اور ان کی تجدید ہے۔ اِس لیے یہ بات قبُول نہیں کی جا سکتی کہ ان میں اختلاف ہے۔ تاریخ وارانہ طور پر دیکھیں تو اعتراض ختم ہو جاتا ہے۔
نبی حزقیال کی کتاب کاباب18فرد کی اپنی ذِمّہ داری کے موضوع کے لیے وقف نظر آتا ہے جو ان تمام روایات سے مُختلف سا ہے کہ جِن کا ذِکر ہو چُکا ہے۔ اس سارے باب کا خاموش مُطالَعہ ضرُور کیجیے گا، مندرجہ ذیل پر آپ کی خُصُوصی توجُّہ مطلُوب ہے:
''دیکھ سب جانیں میری ہیں۔ جیسی باپ کی ویسی ہی بیٹے کی جان بھی میری ہے۔ جو جان گناہ کرتی ہے وہی مرے گی''۔
حزقیال۔۔۔۔۔۔4:18۔
اور
''تم سُوال کرتے ہو: اپنے باپ کے گُناہوں کی پاداش میں بیٹا کیوں نہ دھر لیا جائے؟ جواب یہ ہے کہ بیٹے نے تو وُہی کِیا جو معقُول تھا، دُرُست تھا۔ اس نے میری شریعت کی پابندی کی اور میرے قوانین کی پاسداری کرتا رہا، پس جینا اس کا حق ہے۔ موت اس کے لیے فیصلہ ہے جو قصُوروار ہے (مُجرم ہے، گنہگار ہے)۔ اپنے باپ کی بد اعمالیوں کی سزا بیٹا کیوں بھُگتے، (بالکل ایسے) جیسے باپ کیوں وُہ سختیاں جھیلے جو بیٹے کی خطاؤں پر بیٹے کو بطور سزا لاگُو کی گئیں۔ بھلے آدمی کو اس کے اچھّے اعمال کا ثواب ملے گا (یعنی جزا) اور بُرے آدمی کو اس کے بُرے اعمال پر عذاب ملے گا (یعنی سزا)۔
اگر بدکاری سے توبہ کر لے، میرے احکامات کی تعمیل کرنے لگے، نیکی اور اچھّائی اپنا وتیرہ بنا لے تو وُہ موت کے گھاٹ نہیں اُتارا جائے گا۔ زِندگی اس کا انعام ہو گی، یقینا۔ اُس کے تمام گُناہ مُعاف کر دیے جائیں گے، حیات اس کا مقدّر بنے گی کیوں کہ اب تو اچھّے چال چلن والا ہے وُہ۔
تُم کیا سمجھتے ہو، کِسی بدکار کو موت کے مُنہ میں جاتا دیکھ کر مَیں حَظ اُٹھاتا ہُوں؟ قادرِ مُطلق پُوچھتا ہے۔ نہیں نہیں، مَیں تو چاہوں گا کہ اُسے منفعل دیکھوں اور وُہ زِندگی پائے''۔
حزقیال۔۔۔۔۔۔19:18تا 23۔
تثنیہ شرع9:5اور خُرُوج7:34۔
''تو اُس کو سجدہ نہ کرنا اور نہ اس کی خدمت کرنا۔ کیوں کہ مَیں خُداوند تیرا خُدا خُداے غیُّور ہُوں اور جو مُجھ سے عداوت رکھتے ہیں اُن کے باپ دادا کی بدکاریوں کی سزا اُن کی اولاد کو تیسری چوتھی پُشت تک دیتا ہُوں''۔
اور
''ہزاروں پر مہربانی رکھنے والا، بدی اور خطا اور گُناہ کا بخشنے والا، کوئی خطاکار اُس کے سامنے بَری نہ ہوگا۔ وُہ باپ دادا کے گُناہ کا بدلہ لڑکوں کو اور لڑکوں کے لڑکوں کو تیسری اور چوتھی پُشت تک دیتا ہے''۔
جومُمکنات جھلکنے لگے تھے کہ تثنیہ شرع اور خُرُوج کی ان آیات کا غلط مطلب بھی لیا جا سکتا ہے، اس کے ردّ کے لیے نبی عزاکیل نے اپنی کتاب کے اٹھارھویںباب میں اپنے بیان سے وضاحت کر دی تا کہ کج فہمیاں دُور ہو جائیں۔