German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سُوال نمبر39

اناجیل مُقدّسہ کے زیادہ تر حصوں کی آپ لوگ تلاوت نہِیں کرتے، بل کہ عام تاریخ کی کِسی کتاب کی طرح اس کا مطالعہ کرتے ہیں، اس کا کیا سبب؟

(میرا خیال ہے کہ سُوال کنندہ بائبل مُقدّس کے بارے میں پوچھ رہے ہیں)

 

جواب:۔ہم اپنے جواب کا آغاز کہ جس کی اساس بالغوں کے لیے کیتھولک مسیحی تعلیم کی کتاب پر قائم ہے....صفحہ38 اور اس سے آگے، اس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں کہ خُدا کااپنے آپ کو لوگوں پر ظاہر کرنے کے عمل سے مسیحی کیا مُراد لیتے ہیں۔

زمین پر جب اِنسان نے قدم رکھا تب سے ہی اب تک تخلیقِ کائنات اور خاص کر اِنسان کے شُعُور و ضمیر اور اسے تاریخ کے نہِیں بل کہ تاریخ کو اس کے تابع رکھنے کے عمل سے ہی بڑی شان والے مہربان خُدا نے بنی نوعِ بشر پر، دیکھا جائے، تو اپنے آپ کو ظاہر کر دیا تھا.... خُدا کا اپنی ذات پاک اور ارادے کو اِنسان پر ظاہر کرنے کے باب میں ایک حکایت ہماری اس دُنیا کے آباد ہوتے ہی عام ہو گئی تھی۔ دُوسری ویٹی کن کونسل کی تعلیمات و ہدایات کہتی ہیں کہ زمانہءقدیم سے دورِ جدید تک کرئہ ارض پر ایسے بھی بہتیرے لوگ اپنے اپنے زمان و مکان میں موجُود رہے ہیں جنھیں ایسی غیبی طاقت کے متعلُّق کِسی حد تک شُعُور حاصل تھا اور یہ اِدراک بھی کہ وُہ طاقت موجُودات پر منڈلاتی رہتی ہے اور اِنسانی تاریخ میں پیش آنے والے تمام حالات و واقعات پر وُہ قدرت پوری طرح اپنی قہرسامانیوں یا مہربانیوں سے اثرانداز ہے۔ ایسے بھی وقت آئے کہ بعض اِنسانوں نے مان لیا کہ کوئی ہے، ضرُور ہے، عظیم ترین، بلند و برتر ہستی۔ اسے انھوں نے سب کے باپ کے نام سے پُکارا۔

ابا....اے باپ!....نوسترا آئیتات....2

خُدا نے جب چاہا کہ اپنے ظہورِ خُداوندی سے دُنیا کو متمتع کرے تو یہ فضل محض کِسی ایک فرد تک ہی محدود نہِیں تھا بل کہ تمام اِنسانوں کی معاشرتی اور تاریخی رُوح کے مُطابِق یہ فیضان عام ہُوا۔ وُہ مُختلف آدمیوںکو مجتمع کر کے اِنسانوں کی ایک قوم بنا دینا چاہتا ہے۔ اور اسی مثالی اِنسان کو کائنات کے سامنے ایک نمونہ کے طور پر پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تا کہ وُہ اِنسان دُوسروں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہو، تا کہ تاریکی میں وُہ کہیں بھٹک ہی نہ جائیں۔ حق سچ کے راستے پر دائم چلتے رہیں۔ اس مضمون پر اشعیا نبی کی روایت سے بھی مستفید ہونے کے لیے دیکھیے:

حوالہ....اشعیا....6:42

خُدا اور اِنسان کی اس حکایت سے جُڑی ہُوئی ایک خاص کہانی ہے خُدا کا اِنسان میں سامنے آجانا، ایک ایسا نزولی انکشاف ہے کہ پہلے سے جس کا احساس تھا نہ تصوُّر اور نہ ہی امکان۔ اس کہانی کا حقیقی پلاٹ کُچھ یُوں ہے کہ خُدا کی شناخت کا مرحلہ ضرُور طے ہوتا ہے کبھی نہ کبھی، کہیں نہ کہیں، کِسی نہ کِسی فرد یا قوم پر، اس طریقے سے یا اُس طریقے سے خُدا اپنا جلوہ ضرُور دکھاتا ہے۔ کِسی کو جھلک دکھا کر ، کِسی کو اپنی تجلی، اپنے نور کا عکس دکھا کر اور کِسی اِبنِ آدم کو اِبنِ خُدا کی صُورت اسی میں ہی جلوہ نما ہو کر، اس کے اِنسانوں میں اِنسان کی مثال .... یہ مخصوص کشفِ ذات سرفرازی کے اس بلاوے سے شُرُوع ہوتا ہے جو نبی موسیٰ سے پہلے کے نبیوں کی بعثت اور ابرہام، اسحق، یعقوب اور اس کے بارہ بیٹوں پر مشتمل تھا۔ چنیدہ قوم اسرائیل کو اکٹھّا کرنا، مصر سے ان کی مخلصی اور آزادی کی نعمت کا میسر آنا جیسے ہی ممکن ہُوا، کہانی نے ایک نیا ہی رُخ اختیار کر لیا۔ قوم اسرائیل نے نبیوں، پیغمبروں کے ذریعے خُداوند قُدُّوس کے بارے میں بہُت کُچھ جانا، سیکھا۔ انھیں در اصل تیار کِیا جارہا تھا اس عظیم واقعہ کے بارے میں کہ خُدا کا ظہور ہونے والا تھا اِبنِ آدم میں۔

مدتِ مدید عرصہءشدید بیتے کی بات ہے، خُدا مالکِ دو جہاں نے ایک مخصوص پسندیدگی پر اور کئی طریقوں سے ہمارے بزُرگوں سے پیغمبروں کے ذریعے کلام کیا، پِھر وُہ وقت بھی آیا جب وُہ ہم سے ہمکلام ہُوا اور ہماری خُوش نصیبی کہ ہمارے ساتھ بیٹے کے ذریعے کلام کیا۔ یہ وُہی بیٹا ہے جو اس کے سب کچھ، کُل کائنات، اس کی خُدائی کا وارث و مالک ہے، اسی کے لیے ہی تو اس نے ہر دُنیا سجائی تھی اور کائنات کا مالک بھی اسے بنایا، کیوں کہ اس میں وُہی تو ہے خُود۔

حوالہ....عبرانیوں....1:1اور2

کتابِ مُقدّس کو یونانی زبان میں ببلوس یعنی کتاب کہا گیا ہے۔ اسی سے کلامِ مُقدّس کا نام بائبل مشہور ہُوا۔ اور یہی مُقدّس عہد نامہءقدیم و جدید، توریت و انجیل، یعنی مسیحیوں کی بائبل ہے۔ اس مُقدّس کتاب میں محفوظ کر لیے گئے ہیں وُہ تمام تجربات، آپ بیتیاں، جگ بیتیاں اور دیگر واقعات و حالات جن سے حضرتِ اِنسان کا ٹاکرا رہا جب وُہ اپنی تاریخ کے طویل ترین دور سے گُذرتے ہوئے اس شرف تک پہنچا تو خُدا نے اپنے کلام اور تجسم کے ذریعے اپنی اعلیٰ ترین ہستی کا وُجُود اس پر منکشف کر دیا۔ خُدا پاک یسُّوع مسیح میں اِنسان بنا۔

بائبل اقدس پرانے عہد نامہ اور نئے عہد نامہ پر مشتمل ہے۔ خُدا نے اپنی خلقت سے جو منشورِ عہد طے کیا تھا بائبل میں بھی ایک طرح سے اسی طرح کی باتیں، وعدے وعید ہیں۔ چوں کہ عبرانی زبان کے لفظ بیرِت جس کا مطلب ہے میثاق اسے جب لاطینی میں ڈھالا گیا تو وُہ ہو گیا ٹیسٹا مینٹم۔ یعنی یہُودیوں کے مُقدّس صحیفے۔ سب کو اکٹھّا کر لیا جائے تو اسے عربی زبان میں التوراة۔ مختصر یہ کہ ان سب کو ملا کر اولڈ ٹیسٹامینٹ یعنی پرانا عہد نامہ ظہور میں آیا۔مُقدّس رسُولوں کے خطوط اور مُقدّس اناجیل، ان کے لیے قرآنی نام ہے انجیل اور یہ سب مل کر کہلایا نیا عہد نامہ۔ دونوں عہد نامے مل کر کہلائے بائبل مُقدّس۔

کلامِ مُقدّس کے عہدِ عتیق میں خُدا اور قومِ اسرائیل کے مابین جوگُذری اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ یاد رہے کہ یہاں اختصار والے ترجمہ پر انحصار کِیا گیا ہے۔ جیسے اسرائیل ”تنبیہ“، کی جاتی ہے اس سے ہرگز ہرگز ہمارے اس دورِ جدید کی ریاست اسرائیل مُراد نہ لی جائے۔ اس میں طرح طرح کی تحریریں ، قسم قسم کا دینی مواد مع تواریخی متن اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ وُہ قومِ یہُود فرض شناسی پر محمول زندگی بسر کر رہی تھی، خُدا کا ان کے ساتھ جو وعدہ تھا اس پر ان کا بھروساپکا تھا۔ صدیوں کے بعد صدیاں آئیں اور گئیں، قومِ اسرائیل ایک بار نہِیں، بار بار الٰہی نجاتِ بخشش کے دریاے فضل سے سیراب ہوتے رہے۔

نئے عہد نامہ مُقدّس سے ثابت ہے وُہ تجربہ جس سے خُداوند یسُّوع مسیح کے شاگردانِ رشید اور بنیادی کلیسیا اس کی دستگیری سے عہدہ برآ ہو ئے اور اپنا وعدہ نباہ دکھایا۔اقدس نئے عہد نامہ مُقدّس بائبل کے عہدِ جدید کا حرف حرف خُداوند یسُّوع مسیح پاک پر پُختہ ایمان کا ثقہ گواہ ہے۔ مسیحا کے طور پر یہ منشورِ خُداوندی ہے یعنی وُہ خُداوندِ خُدا جو مسیحا ہے اس کی پرانے عہد نامہ میں بھی پیشین گوئی کی گئی تھی۔ نئے عہد نامہ کے مصنّفین اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ جس خُدا کے بارے میں پاک یسُّوع مسیح منادی کرتا رہا، اسی خُدا کے امورِ خُداوندی کی عینی شہادت پرانے عہد نامہ سے ملتی رہی تھی۔ ایسا سمجھنے میں وُہ مصنّفین حق پر ہیں۔ یسُّوع پاک یہُودی النسل تھا۔ زمانہءقدیم کی یہُودیت اس کا مذہب تھی۔ یہی مذہب نسل در نسل چلا آرہا تھا۔ پرانے عہد نامہ میں ایسے مواد کو جمع کِیا گیا ہے جس کی رُو سے موسیٰ کے خُدا کی خاص تعلُّق داری ثابت ہوتی ہے اُس کی اپنی اس چنیدہ قوم کے ساتھ اور کھُل کر سامنے آتی ہے اس کی رواداری، نازبرداری اور مَحَبّت ۔ قومِ اسرائیل تو واقعی خُداوند قُدُّوس کی لاڈلی قوم تھی۔ اسی ذیل میں وعدے وعید کی کتاب آتی ہے، ان وعدوں کی جو پاک خُداوند یسُّوع مسیح میں پورے ہوئے۔ یہی مسیحی عقیدہ ہے، اسی کے پیشِ نظر تمام مسیحیوں کا ایمان ہے کہ دونوں اقدس عہد نامے ایک دُوسرے کی تشریح و تصریح کرتے ہیں، دونوں ایک دُوسرے کے ساتھ مربوط ہیں۔

بائبل مُقدّس میں مُختلف فہم و ادراک کی قوت کی حامل تحریروں کو یکجا کیا گیا ہے جو خُدا کی پسندیدہ خلقت کی مذہبی زندگی اور ان کے عقائد کی عکاسی کرتی ہیں اور بعض لوگوں نے اپنی اپنی انفرادی حیثیت میں اور بعض نے مشترکہ صُورت اپنے اپنے حصہ کا کردار اس مُقدّس کام کے لیے ادا کر دکھایا ہے۔ ان پوتر اکھروں کے بائبل مُقدّس میں ڈھلنے کا عرصہ کوئی ایک ہزار سال پر محیط ہے۔ عہدِ عتیق پہلی ہزاری قبل مسیح میں تکمیل کو پہنچا تھا اور عہدِ جدید کو مکمل ہونے میں لگ گئی ایک صدی بعد مسیح۔ اس کے وُجُود میں آنے کے لیے یہ طویل المدتی ہی جلال والے خُدا کے پاک کلام کی قدرت اور اس کے اثرپر ممتاز اور معتبر شہادت ہے۔ اس کی شانِ اُلُوہیت کو بہ شکلِ عبُودیت جب اس کی منتخب قوم نے دوبدو دیکھ لیا تو الگ الگ اصل و نسل اور تعلیم و تہذیب کے لوگوں کو جب بھی، جہاں بھی موقع ملا اُنھوں نے اپنی اِنسانی برادری کے سامنے واشگاف الفاظ میں یہ حقیقت آشکارا کر دی کہ کلامِ خُدا یعنی بائبل مُقدّس سے ہی جینے مرنے کے لیے دائمی توانائیاں اور مستقل ہمت افزائی اور ولولے اِنسان کو ودیعت ہو سکتے ہیں، یہ دعوتِ مسیحیت سب کے لیے ہے، سب زمانوں میں، زندگی بسر کرنے کے چاہے جس کے جو بھی انداز ہوں یا وُہ بھی جو لوگ اپنی اپنی ماڈرن سماج کے معاشرتی و سیاسی حالات کے مُطابِق وقت کی قدروں اور نئی فضاﺅں میں سکھ کے لمبے لمبے سانس لے رہے ہوں، الغرض اِنسانی بھلائی، بہتری، امن اور مَحَبّت کی یہ دعوت سب کے لیے عام ہے۔

 

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?