German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سُوال نمبر23

۔کلامِ مُقدّس کے عہدِ عتیق میں بار بار ذِکر آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ وحدہ‘ لا شریک ہے۔ توریت شریف میں اسے بشر نہِیں کہا گیا۔ وُہ بالکل واحد، اکیلا ہے۔ اقدس ثالوث کی اصطلاح بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بہُت بعد سال160 سے 225 عیسوی کے درمیان کہیں اُن کے قریباً دوسو سال بعد افریقن کلیسیا کے فادر ٹیرٹُولین نے متعارف کروائی۔ بائبل مُقدّس کے عہدِ قدیم کی ورق گردانی کر لیجیے، مجال ہے کہِیں کوئی ذِکر یا اشارہ کنایہ ہی مِل جائے۔ ہو تو دِکھا دیجیے! ہے کہِیں کوئی حوالہ ایک خُدا میں تین اقانیم کا؟

 

جواب:۔ پاک خُدا کا اپنے آپ کو اپنے لوگوں پر واحد فی التثلیث کے طور پر ظاہر کرنے کا عمل حقیقت کیوںکر ہُوا، وُہ بھی بطور مَحَبّت والوں کی برادری کے، کیا یہ کلامِ مُقدّس کے عہد نامہءعتیق میں کہیں ثابت ہے؟.... یہ جاننے کے لیے عرض ہے کہ ہماری تھِیم 5 کے جزو 3 کا ایک دفعہ اور مطالعہ کیجیے۔ شکریہ۔

توریت مُقدّس کے ماننے والے یہُود جنھیں پہلے سے عرفان حاصل تھا، وُہ خُدا کی آمد کے منتظر رہے۔ یہُودیوں کا جو مذہب چلا آرہا تھا، اسی دور، اسی مذہب میں خُداوند یسُّوع مسیح نے آنکھ کھولی اور یہُودیوں میں ہی اس کی پرورش ہُوئی۔ یہ خُدائی فیصلے ہیں، پاک خُداوند نے قومِ یہُود میں آنا تھا، اس لیے ہر صادق و مخلص یہُودی کو یہ آگاہی دے دی گئی جو خُدا کی طرف سے عطا تھی کِسی پیشہ یا فریضہ کو اِختیار کرنے، انجام دینے کی طلب، رُوحانی طلب۔ میثاقِ بنی اسرائیل جو خُداوند خُدا نے ان سے لیا تھا، اُسی کی بِنا پر اُس نے اِس بات کی ذِمّہ داری قُبُول کی اور اس قوم کو صفحہءتاریخ پر سے مٹنے نہ دیا اور ان کے انتظار کی شِدّت یا مُراد ٹھہری۔ ماضی بعید میں خُدا اُن کے بزُرگوں سے ہمکلام ہُوا تھا۔ کئی بار، مُختلف طریقوں سے اور نبیوں کے ذریعے۔ حوالہ.... عبرانیوں کے نام....1:1....آگ، بادل، پہاڑ، فضا کے پردوں میں تو کلام ہو چُکا، اب خُداخُود ان کے درمیان موجُود ہوگیا، آمنے سامنے، حقیقت میں اور زندہ۔ اس نے لوگوں کو دعوتِ مُکالمہ دی۔ مگر اس مکالمے کی اِنتہا کیا ہو گی؟ .... کتنی شدّو مد کا اِظہار خُدا کی طرف سے ہو گا؟ اور لوگ! کیا کُچھ ہو گاجو جواب میں کہہ سکیں گے، وُہ سب پتھّر کی مُقدّس تختیاں آمادی سے کنارہ کر گئیں کہ فی الوقت اُن کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ چُناں چہ خُدا اور اِنتہائی دِین دار مومن خادمینِ خُدا کے درمیان فاصلے موجُود رہے۔ خُدا تو الٰہی رحمت سے سرفراز کرنے والا رحم دِل رب ہے۔ وُہ تو بے استحقاق بھی اپنے فضل سے نوازنے والا خُدا ہے۔ (حوالہ....خروج....6:34) دُولھوں والی کمٹمنٹ اور شفقتِ پدری اِس جلال والے خُدا کی شان ہے.... حوالہ....مُقدّس یوشیع....11 اور .... مُقدّس ارمیا1:29 تا9

بہ ہرحال اِن صفاتِ مُبارکہ کے پیچھے کیا کیا بھید پنہاں ہیں جو خُداوند خُدا نے افشا نہِیں کیے جب کہ ان سے اس کے پکے ماننے والے دیندار بندوں، اس کے وفاداروں اور عہد پر قائم مومنوں کی آشائیں پایہءتکمیل کو پہنچتی رہیں، تمنّائیں پوری ہُوئیں، مُرادیں برآئیں، خُدا سے ملاقات ہی ان کی زندگی کا آسرا اور جیون کا سہارا تھی.... پِھر بھی، جی ہاں پِھر بھی حقیقت ابھی بھی سات پردوں کے پیچھے ہی تھی۔

رب اک گنجھلدار بجھارت، رب اک گورکھ دھندا

یہ بھید کھُلا، تو خُداوند یسُّوع مسیح میں آشکار ہُوا۔ تاریخِ عالم پر جب وُہ ظاہر ہُوا تو رُوے زمیں پر عدل قائم ہُوا۔ اِنسانوں کی ماہیتِ قلب بدلی۔ خُداوند پر جن کا یقین وایمان ڈانواںاڈول رہا، پاک یسُّوع مسیح کے منکر رہے، وُہ اس کے خُدا باپ پر بھی ایمان سے خالی رہے۔ وُہ ہمارا، سب کا خُدا ہے۔ اُنھیں اس کی آگہی نہِیں اِسی لیے وُہ کُفر پر قائم ہیں، اِس حساب سے وُہ اس بات پر پکے ہیں کہ.... سب جھُوٹ ہے، محض جھُوٹ: حوالہ....مُقدّس یوحنّا....54:8 اور اس سے آگے۔ مزید19:8 اور وُہ لوگ جو خُداوند یسُّوع مسیح پر ایمان لائے اور اس پر قائم ہیں اُنھیں خُدائی بھید، اس کے اَسرارو رموزسے، اندھیرے میں نہِیں رکھا گیا، آسان الفاظ میں یہ کہ اُنھیں تو خُداوند نے رازداں بنانے کی کھُلی آفر دے رکھی ہے۔ وُہ بھید جو کِسی کے لیے بھی نفوذ پذیر نہِیں، اُن تک اپنے مسیحیوں کو خُداوند نے پہنچ عطا کر دی ہے۔ اب وُہ بھی خُدا کی پردہ داریوں میں شریک ہیں، اس کے بھیدوں سے پوری طرف واقف، باخبر ہیں۔ یہ اُسی اُمّتِ مسیح کا امتیاز ہے۔ اور یہ خُدا بیٹے کی برکتوں اور اس کے مُبارک دم قدم سے ممکن ہُوا۔ جو کُچھ اس نے خُدا باپ سے سُنا اس کے بارے میں سب کُچھ سے بِلا کم و کاست سب ماننے والوں کو باخبر کر دیا۔ حوالہ....مُقدّس یوحنّا....15:15 اب تو مزید پُوچھنے کو بچا ہی نہِیں، پِھر اس سے کیا دریافت کریں؟ محاکات میں سے جو کُچھ تھا، وُہ مسیحیوں پر سب عیاں ہُوا۔ خُداوند یسُّوع پاک اپنے مُقدّس باپ کے بارے میں صاف صاف بتاتا ہے:

حوالہ....مُقدّس یوحنّا....25:16

وہ آفاقی پراسراریتیں، وُہ اَسرارِ خُداوندی چھپے بھید نہِیں رہے خُدا نے ہماری مَحَبّت میں پاک خُداوند یسُّوع مسیح کی برکت سے ہم پر آشکار کر دیے۔

مُقدّس یوحنّا....23:16

اب عدم ایقان کی کوئی بات ہی نہِیں، وُہ کہاں باقی رہا۔

پاک یوحنّا:1:14

خُداوند یسُّوع مسیح کے شاگردوں نے خُدا بیٹے میں خُدا باپ کو بھی دیکھ لیا

مُقدّس یوحنّا:7:14

عشق کے رسیا تو کہتے ہیں مَحَبّت خُدا ہے اور خُدا کے دیوانوں کا قول ہے کہ خُدا مَحَبّت ہے۔

مجھے تُو پسند اور مجنوں کو لیلیٰ

نظر اپنی اپنی ، پسند اپنی اپنی

یہی بھید ہے۔

(1.مُقدّس یوحنّا8:4اور16)

اور اِس کا اِدراک ہمیں کیوں کر ہُوا؟ ظاہر ہے بوسیلہ پاک خُداوند یسُّوع ناصری اور یہ معرفت ہمیں یُوں حاصل ہُوئی کہ ہمیں تسلیم یسُّوع پاک خُدا کا بیٹا ہے۔ اور ہم قائل ہیں اور اپنے تئیں اس کا اعتراف کرتے ہیںاور ہمارا عقیدہ اس میں پُختہ ہے کہ خُداوند خُدا کی مَحَبّت ہم مسیحیوں کے لیے، بل کہ رُوے عالم کے تمام اِنسانوں کے لیے اندازوں سے بہُت بلند، بے حد و حساب اور کبھی نہ ختم ہونے والی ہے:

1۔مُقدّس یوحنّا....16:4ویں آیت

کلامِ مُقدّس کے عہدِ جدید کا یکسوئی کے ساتھ مُطالَعہ (تلاوت) کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پاک یسُّوع مسیح کا خُدا یعنی جس سے خُداوند کا سامنا رہا عہدِ عتیق کی آیات کے مُطابِق بھی وُہی اس کا باپ خُدا ہے۔ جب پاک خُداوند پاک خُدا باپ کی طرف رجوع کرتا ہے تو جس بے تکلّفی اور قربت کا اِظہار ہوتا ہے وُہ واقعی ایک بیٹے کو سزاوار ہے۔ لیکن وُہ اس کا خُدا بھی ہے، کیوں کہ اُلُوہیت خُدا باپ کا ملکہ ہے، وُہی سب کا خالق، مالک ہے۔ وُہ کِسی کا دستِ نگر نہِیں، زمین و آسمان، عرش فرش میں جو کُچھ ہے وُہ اُس کا ہے اور یہ سب کا سب اپنے بیٹے.... مُقدّس بیٹے یسُّوع مسیح کے حوالے کر رکھا ہے جسے اس نے ازلی ابدیت میں پیدا کِیا، بالکل رُوح القُدس کی طرح جس میں دونوں مرکب ہیں۔ یُوں مُقدّس یسُّوع مسیح خُداوند نے عنییتِ خُداوند خُدا اور مُقدّس باپ کی شناخت ظاہر کی۔ رازِ اُلُوہیت اور تین میں ایک، ایک میں تین ہونے کا بھید بھی ساتھ کے ساتھ خُداوند نے منکشف کر دیا۔ مُقدّس رسُول پولوس نے تین بار تکرار کے ساتھ اِس پہلو کا اِظہار کِیا جو اِس انکشاف کی خبر دیتا ہے جو بابرکت ظہورِ خُداوندی اور ہمارے خُداوند یسُّوع مسیح کے مُقدّس باپ خُداکے بارے میں....حوالہ....رومیوں کے نام....6:15 اور

2۔قرنتیوں کے نام....31:11 ....نیز.... افسیوں کے نام....3:1

اگر ہم اِس کا ادراک کرنے کی نیّت صاف رکھیں تو پاک خُداوند یسُّوع نے تثلیثِ خُداوندی صریحاً ہم پر آشکار کر رکھی ہے اِس طریقہ سے جو ہے ہی وُہی اٹل طریقہ یعنی خلوصِ نِیّت کہ جلا ل و تمجید کے لائق خُدا پاک نے ہمارے لیے پہلے سے ہی طے کر رکھا ہے کہ ہم اِنسانوں کو اپنی مُبارک مشابہت میں پیدا کِیا۔ یہ اس کی مَحَبّتِ خاص ہے، اس نے ہمارے ساتھ اِس رِشتے، سُلُوک اور پیار کو قائم کِیا جو باپ اپنے بچوں سے روا رکھتا ہے۔ یعنی مَحَبّت و شفقت، بے حد و حساب! ہم کیوں نہ پاک خُدا، مُقدّس خُداوند اور رُوح القُدس کی تمجید کریں!

اب دیکھیے، بات یُوں آگے بڑھی، چوں کہ مُقدّس بیٹا خُود ایک مثالی عکس ہے خُدا کی مخلُوق کا اپنے خالق کی نِگاہوں میں، اس لیے خُداوند یسُّوع پاک باپ خُدا میں آشکار کرتا ہے خُدا باپ کا مثالی عکس، اس پاک خُدا کا مثالی عکس جسے مکمل پہچان ہے، اس سے بڑھ کر ہو بھی کِسے سکتی ہے پہچان اصل فہم و فراست کی، چُناں چہ اسی خُداے موسیٰ نے اپنا آپ اسرائیل پر ظاہر کر دیا۔ عہد نامہءقدیم میں کثرت کے ساتھ اور مقامی لوگوں میں ان میں ولادتِ مسیح وقوع پذیر ہُوئی خُداوند یسُّوع مسیح نے اور خُدا باپ نے اپنے تمام امتیازی اوصاف ظاہر کر دیے اور اس احساسِ خُداوندی کے بارے میں جملہ اِنسانِیّت کبھی تصوُّر بھی نہ کر سکتی تھی کہ وُہ اس اعزازِ مُقدّس کی حقدار کبھی ٹھہرائی جا سکے گی۔ یہ تو ابدی صداقت ہے کہ جو کُچھ خُداے پُرجلال خُداوند یسُّوع مسیح کے لیے ہے اس کی مثال کِسی بھی اور ذِی رُوح پر صادق آ ہی نہِیں سکتی۔ خُدا سے ہی پاک یسُّوع مسیح کا کائنات میں ظہور ہُوا اور اسی کی طرف اس کی واپسی ٹھہری۔ وُہی شریعتِ خُداوندی کی تشریح ہے، اسی سے ہر شَے کی ابتدا ہُوئی، ہر طرح سے، ہر وقت اسی کی رضا جوئی مُقدَّم قرار پائی اور سب کے لیے، سب کُچھ کی خاطر وُہی کافی ہے۔ وُہ مُقدّسوں کا مُقدّس ہے۔ ہر اچھّّائی بس اسی پر ختم ہے۔ وُہی ہے مالک، آقا، خُدا۔ یہ فقط اسی کی شان ہے کہ اس کے سامنے کوئی نہ کِسی قطار میں ہے نہ شُمار میں۔ کوئی اس کا ہمسر نہِیں۔ یہ اسی کا مرتبہ ہے کہ ہمارے خُداوندنے اپنی قربانی دے دی، یہ بتانے کے لیے کہ اس کا مُقدّس باپ کتنا عظیم الشان، عظیم القُدرت اور ارفع و برترہے۔ تا کہ کُل عالَم جان لے کہ مُقدّس بیٹا بھی اپنے خُدا باپ کو کِس قدر والہانہ پیار کرتا ہے۔ اُس کے ہر فرمان پر راضی.... راضی بہ رضاے الٰہی۔

حوالہ....مُقدّس یوحنّا....31:14 ویں آیت

تخلیقی تابندگی کی ہر کِرن شیطان کی منفی صلاحیتوں کی نفی کرتے ہوئے ان کا توڑ ثابت ہوتی ہے۔ یہ کِرنیں اپنی آفاقی ضوفشانیوں کے ساتھ مزاحم رہی ہیں مُصیبت، دُکھ، درد اور موت کی خوفناکیوں کے سامنے۔ جی جناب! بنی نوعِ اِنسان پر کِیا جانے والا ہر شیطانی وار خطا ہُوا۔ اور اس کی موت جسے ناانصافی کے ساتھ موردِ سزا قرار دیتے ہوئے موت کی تاریکیوں میں صلیب پر چڑھ جانے والے کا نام ازل سے تھا، ابد میں بھی جاری رہے گا۔ وُہ مردوں میں جی اُٹھا اور اپنے برّوں کی رکھوالی کو پِھر آئے گا۔ وُہ گیا ہی کب؟ وُہ تو آج بھی ہمارے دِلوں میں ہے، ہماری نس نس میں ہے۔ اس کا خُدا باپ، زندہ قائم خُدا ہے، مسلسل اپنی خلقت کی نگہبانی کر رہا ہے۔ ہم سب اس کے بالک ہیں، وُہ مہربان مالک ہمارا خُدا، سب کا باپ سبھی سے پیار کرتا ہے، نہ ختم ہونے والا، نہ کم ہونے والا۔ یہ ولولہ انگیزی بھی اسی کی عطا تھی جس سے خُداوند یسُّوع مسیح نے استفادہ کِیا اور خُداوند تب تک اسے جاری رکھنے پر قادر ہے جب تک اس کی ساری اُمت کی مُکتی نہِیں ہو جاتی تبھی وُہ اپنی بادشاہت خُدا باپ کے حوالے کر دے گا۔

حوالہ....مُقدّس لُوقا....باب12: آیت50

مُقدّس باپ اور مُقدّس بیٹے میں رُوبرُوئی کی تکمیل رُوح القُدس میں ہوتی ہے اور اسی میں خُداوند یسُّوع خُدا باپ کو یہ کہتے سنتا ہے کہ تُم میرے بیٹے ہو اور یُوں وُہ اپنے ابّا کی خُوشنودی حاصل کرتا ہے۔

حوالہ....مُقدّس مرقس....باب10:1ویں آیت

وہ مسرّت و افتخار جو پاک خُداوند یسُّوع کو خُداوند خُدا کا بیٹا ہونے میں حاصل ہے اسے وہ چاہتا ہے کہ رُوح القُدس میں خُدا باپ تک پہنچے۔

حوالہ....مُقدّس لُوقا....10 اور آگے

جیسا کہ ثابت ہے پاک یسُّوع مسیح متحد بالاقنُوم ہو سکتا ہے صرف مُقدّس باپ کے ساتھ، رُوح القُدس میں، اور وُہ خُدا باپ کو منکشف نہِیں کرے گا سواے اس صُورت میں کہ ساتھ کے ساتھ رُوح القُدس کا بھی ظاہر ظہور سامنے لے آئے۔ جب مُقدّس باپ اور بیٹا پاک رُوح میں ایک ہی ہیں تب لازم ہے کہ اِقرار کِیا جائے وُہ دیالُو ہے دَیا میں اور اپنے عطا کردہ ہر ہر عطیہ میں بھی۔ اسی لیے، اس سے یہی مُراد لی جاتی ہے کہ یُوں ان کی یکتائی ایک نعمتِ غیر مترقّبہ ہے اور ہمیں دان ہوتی ہیں رُوح القُدس کی سات بخششیں(حُکمت و دانائی، فہم و خرد، مصلحت و مشاوت، ہمت و قدرت، علم و معرفت، دین داری و تقویٰ اور خُداوندِ خدا کا خوف)۔ تاہم پاک رُوح جو کہ کائنات پر انعامِ ربّی ہے وُہ مُقدّس خُدا باپ اور بیٹے کے ایک ہونے پر آخِری مہر ہے۔ پِھر تو ظاہر ہے کہ اپنی اپنی ذات میں تینوں قابلِ قدر بہُت بڑا تحفہ ہیں اور ان کا مشترکہ لازمی جوہر یعنی اصل ماہیت اسی لیے قائم دائم ہے کہ اس نعمت و رحمت و برکت سے سرشار رہیں اور ایک دُوسرے کے ساتھ شیئر کرتے رہیں، ہر ایک کی موجُودگی دُوسرے میں اظہر من الشمس ہو اور مَحَبّت میں تینوں اقانیم ایک اور اقنُوم میں تین سمائے رہیں۔ زندگی کی توانائی، ابلاغ اور حُریّت و آزادی سے ہی رُوح القدس مُتّصف ہے۔

پاک تثلیث کی تمجید ہو، آمین

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?