German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سوال نمبر183

مسیحی جنت اور دوزخ کی تفصیل سے متعارف کروانا پسند فرمائیں گے؟ کیسی ہوں گی؟


جواب:

۔اس سوال کے سیر حاصل جواب کی خاطر واقعی قدرے تفصیل میں جانے کی ضرورت محسوس ہونا قدرتی امر ہے۔ بتقاضاے وضاحت کیتھولک علمِ الٰہیات کے سلسلے میں دورِ جدید کے ایک ماہرِ علومِ دینی کے ان الفاظ پر دھیان دینا ازبس ضروری ہے جو مرنے والوں، دائمی حیاتِ انسانی اور جنت و جہنم (فردوس و دوزخ) پر ان کے تحقیقی مطالعہ کا نچوڑ ہیں۔

ہمارے معاصرین کی معقول نفری، بشمول پاک بپتسمہ سے سرفراز مسیحیوں کے بھی، خدا کی امت کے ایمان اور پاک رسولوں کے عقیدہ کے آخری فقرہ کے اُلجھاو کے سلجھاو میں غلطان و پیچاں رہی ہے اور انہی کٹھنائیوں کا شکار مقدس رسول پولوس کے دور میں یونان کے لوگ بھی رہے تھے مگر گتھی سلجھا نہ سکے۔

جب اُنھوں نے مُردوں کی قیامت کی بات سُنی تو بعض ٹھٹھا مارنے لگے اور بعض نے کہا یہ بات ہم تجھ سے پھر بھی سنیں گے‘‘۔ 

اعمال…32:17

امکاناً، یہی ہے کہ اس کی جڑیں فرضی قصے کہانیوں میں پیوست ہیں جنھیں انسانی زندگی میں نفوذ کرجانے کا موقع میسر ہوتا گیا۔ اور نئے عہد نامہء اقدس میں یہودیوں کی مکاشفاتی روایات سے انھیں مستعار لے لیا گیا اور پھر وہی باتیں، داستانیں، صدیوں پر پھیل کے کلیسیائی تبلیغ و اشاعت اور کرسچین آرٹ کے ذریعے عوام الناس میں مقبول ہو گئیں۔ اور پھر زمانے کا اخیر آنے تک کہ مقدس خداوند یسوع مسیح کی دوسری آمد بھی جب صادق آ چُکی ہوگی، قبریں کھول دی جائیں گی اور تمام مُردوں کے اجسام میں زندگی عُود کر آئے گی، مُردے دوبارہ زندہ کر دیے جائیں گے، تب ساری خلقتِ خداوند یسوع پاک کے سامنے اکٹھی کر کے پیش کر دی جائے گی، اس روز محشر کی عدالت کا قاضی القضاۃ خود خداوند ہو گا اور حتمی انصاف کا اس کے دم سے بول بالا ہو گا۔

اپنے عقائد کو مضبوط رکھنے والے عوامل سے محترز ہوئے بغیر بھی ہمارے آج کے بہت سے   مومن مسیحی اور علمِ الٰہیات کے علما کرام یہ بات قبول کر چکے ہیں کہ مرنے کے بعد دوبارہ جی اُٹھنا یا اُٹھائے جانے کی صورتِ حالات کو یقینی جاننے کے اور بھی بہت سے نکات ہیں، جو ظاہر ہیں ان سے علاوہ ہیں، جو ان ہیولاتی شکلوں والے قیاسات کو ٹھوس جسمانی ہیئت میں قبول کروانے کی اوقات رکھتے ہیں۔ ویسے بھی فی زمانہ روح اور جسم کے ملاپ و وحدت کی باتیں بڑا زور پکڑ چُکی ہیں، خاص طور پر اس نظریے کے تحت کہ یوں خدا کے ساتھ تکمیلِ حیات کا مرحلہ انجام پاتا ہے۔ اس کا مطلب ہوا کہ ہمارا عقیدہ درست ہے کہ موت کے بعد تمام انسان خدا کی محبت میں جو مُردوں میں جی اُٹھنے والے خداوند یسوع مسیح کی زندہ مثال ہے اس کے پیشِ نظر جی ہاں، تمام انسان اس کی محبت میں اس کے روبرو زندہ کر کے حاضری کی سعادت سے نوازے جائیں گے۔ اپنے جسم اور اپنی روح کے ساتھ خداوند کریم کے درشن کریں گے، کامل انسان، اپنی تمام انسانی صفات کے ساتھ، اپنی زندگیوں کی رنگین و ناقابلِ فراموش داستانیں لیے کہ کن کن تجرباتِ زیست سے گذرے، اس کی آسانیاں اور جینے کی دُشواریاں، الغرض جو جو اُن کے ساتھ دنیا میں بِیتا، کیا کچھ سہا اور کیا کچھ کے مزے لیے، کیا کیا مرادیں پوری ہوئیں اور کیا کیا حسرتیں وہیں پیچھے چھوڑ کے ناکامیوں کی یہاں گٹھڑیاں باندھ لائے، سب کچا چٹھا اس کے سامنے جڑ دیں گے۔ کچھ چِھپا نہ رہے گا، اس علیم و خبیر کے سامنے سب شیشہ ہو جائے گا۔ ہمارے کردہ و ناکردہ سب اعمال کا اُسے علم ہے۔ پاک یوخرست میں ہمیں زندہ خداوند مسیح کا بدن ملتا ہے۔ (زندہ مسیح!) علمِ حیاتِ انسانی کی اصطلاح میں جسم کی ساخت یعنی ہیئتِ اجتماعی (چمڑی، گوشت پوست، ہڈیوں، وغیرہ کے حوالے سے نہیں) بل کہ اس حوالے سے جسے مقدس پولوس رسول دوبارہ جی اُٹھنے والے کا روحانی جسم کہتا ہے:

نفسانی جسم بویا جاتا ہے۔

روحانی جسم جی اُٹھتا ہے۔

اگر نفسانی جسم ہے، تو روحانی بھی ہے۔

1۔ قرنتیوں…:15 44

مُراد یہ ہوئی کہ…پُورا جسم…کہ جسے مقدس روح الحق جو حیات بخش ہے، اپنے دخول و نفوذ سے اور قلبِ ماہیت کے ذریعے یہ نئی شکل دے دیتا ہے۔ اس جسم میں سرایت کر چُکی ہوتی ہے ہماری دنیاوی حیات، ہماری سریع الزوال وقتیہ طبعی، جسمانی تبدیلیاں اور حسیات اور ہمیں ملنے والی مسرتیں، محبت و نشاط جو باری تعالیٰ میں انسانی نجات کے لیے ضروری عوامل ہیں۔ چناں چہ جسم کی دوبارہ نمو روح کے غیر فانی ہونے کے متضاد نہیں۔ لفظ روح کے جو بائبلی معانی ہیں وہ تو خدا کے سامنے انسان کی ذات کے کشف پر مبنی ہیں اور مراد ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے ساتھ محبت کے ذاتی رشتہ اور قربت و عزیز داری میں شامل ہونے کی نوید پاتا ہے، زمین سے جوا س کا جسمانی رشتہ ہوتا ہے اس سے ماورا اور مخلوق کے ناتوں رشتوں سے ماسوا۔ ایک نیا ہی ربط و التفات کا سلسلہ خدا کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے۔ مشیتِ خداوندی کے حساب سے یہ محبت، یہ تعلق ایسا ہوتا ہے جس نے کبھی بھی ٹوٹنا نہیں، یہ محبت یہ قرابت سراسر غیر فانی ہے۔ روزِ عدالت انسانوں کا دوبارہ زندگی پانا، ابدی زندگی، دلیل ناقابلِ ردہے اس عنایت کی کہ انسان کی، تمام کے تمام انسانوں کی، اللہ کے پیاروں کی، مکتی دُور پرے کی بات نہیں، اٹل فیصلہ ہے کیوں کہ خدا باپ اپنے بیٹے میں تمام ہی انسانوں سے پیار کرتا ہے۔ وہ سب کا باپ ہے اور ہم اس کے محبوب فرزند!

عام انسانوں کے نزدیک موت کیا ہے؟ موت کو سمجھا جاتا ہے کہ وہ زندگی کے پکے پکے خاتمہ کی نمایندگی کرتی ہے۔ حال آں کہ موت میں ہی تو زندگی ہے۔ فنا ہی دائمی بقاکا پیش خیمہ ہے۔مگر انسان خیال کرتا ہے کہ کون و مکان و زمان کی قید میں رہ کر جو زندگی ہم نے بسر کی موت اس کی تباہی و بربادی اور خاتمے کی ترجمان ہے۔ جب کہ مرنے کے بعد کی ہمیشہ والی زندگی کا ہمارے دنیاوی دائمی نظامِ اوقات سے دُور دُور کا واسطہ نہیں، وہ تو اعلیٰ ترین، نظر نہ آنے والے یعنی مخفی قسم کے آفاقی نظمِ اوقات کی پابند ہو گی۔یوںجانیے موت تو پیغام ہے، اپنی عارضی زندگی جو ہم نے زمین پر گزاری خدا رحم و رحمت والے کے کرم سے اپنی تکمیل کو پہنچنے کا اور نئی آفاقی و دائمی زندگی کی ابتدا کا۔ لیکن اس سے کوئی غلط قیاس نہ قائم کر لیا جائے جیسے یہ بات کہ غالباً خدا نے اس قانون کی ترتیب اور تدوین پہلے سے فائنل کر رکھی ہے کہ ہماری زندگیوں سے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ اگر ایسا ہونا ہوتا تو پھر روزِ عدالت چہ معنی دارد، خدا نے جو طے کر رکھا تھا وہی ہم نے کِیا۔ اچھا یا برا، ہمارا کیا قصور؟ نہیں نہیں، یہ خوش فہمیاں نکال دیں۔ خدا کی حتمی مشیت تو ہمیشہ یوں رہی ہے کہ یہ ہم ہیں جو جب اس کے روبرو حاضر ہوں گے اپنا خود سے کِیا کرایا، اچھا بُرا، سب نامہء اعمال اُس کے سامنے لے کر حاضر ہوں گے اور اس کے ذمہ دار بھی ہم ہوں گے۔ گذشتہ زندگی کے ثمرات ہم نے اس کی بارگاہ میں پیش کرنا ہیں، اس التجا کے ساتھ کہ

روزِ حساب جب مرا پیش ہو دفترِ عمل

نہ آپ شرمسار ہو نہ مجھ کو شرمسار کر

ہم اپنے افعال و کردار و اعمال کا جو تحفہ پیشِ خداوندِ عظیم و رحیم کریں وہ اسے قبول کر لے، محفوظ کر لے، اسے مصفّٰی کر دے، صحیح کر دے، غلطیوں تقصیروں سے پاک کر دے۔ کرے گا یا نہیں؟ اس کا انحصار طویل ترین مہر و محبت کی اس گفتگو پر ہو گا جو مقدس باپ، اقدس بیٹے اور روح القدس کے درمیان ہو گی۔اسی محبت و مہر کے صدقے ہماری زندگی کے ثمرات پک پک کر تیار ہو چکے ہوں گے اور مشیتِ ایزدی کے عین مطابق اپنی شکل، رنگ اور وہ خواص سامنے لے آئیں گے جو ہماری زندگیوں کے آغاز سے ہی ان کے لیے مقرر کیے جا چکے تھے۔ ایک وقتِ مقرر آتا ہے جب انسان موت کی آغوش میں جا سوتے ہیں، مکرر زندہ کِیا جائے تو اپنی اپنی زندگی کے ماحصل وہ خدا کے حضور پیش کر دیتے ہیں، تب جی ہاں تب اس نئی زندگی میں بھی حشر کے سمے مقدس خداوند یسوع مسیح پھربندے بندے کے پاس آئے گا۔ تاریخ کا یہ آخری آخری دِن ہو گا جو برپا ہو چکا ہو گا۔ہمارے اپنے اندازہ و شمارِ وقت کے مطابق کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یومِ آخر کب طلوع ہو گا، ختم بھی ہوگا یا نہیں، آئے گا تو کِس گھڑی، کِس دن، کِس ماہ، کِس سال یا کِس صدی میں، پیشگی کوئی اطلاع بہم نہیں پہنچائی جا سکتی۔ انگلی کے نشان والے سب شوئر شارٹ گیس یہاں پہنچ کے فیل ہو جاتے ہیں۔ مگر یہ دن آنا ہے اور ضرور آنا ہے مگر آئے گا یسوع کی دوسری آمد کے بعد۔

پایانِ کار، یہ جو خدا مہربان کی محبتوں اور رحمتوں سے اس کی دید وا دید کے موقع و مناسبت سے ہمیں فیضیابی حاصل ہوتی ہے اس سے ہمیں اپنی زندگی کی تمام تر صداقتوں کو سمجھنے کا چارہ نصیب ہوتا ہے، اور سب کچھ واضح طور پر بِلا کم و کاست ہم پر آشکارہ ہو جاتا ہے، ساری حقیقتیں ہمارے سامنے کھل جاتی ہیں۔ ہماری زندگیوں میں اور خدا کی بے پایاں محبت جس سے وہ ہمیں سرفراز کرتا ہے اس میں جو فرق ہے وہ اس وقت مزید عیاں ہو جاتا ہے جب ہم اس حقیقت کا سامنا کرتے ہیں کہ ہم جیسے بھی ہیں، اُس کی درگذر، معافی اور احسان ہمیشہ ہمارے شاملِ حال رہا ، رہتا ہے اور رہے گا۔ وہ اپنی محبت میں ہماری چھوٹی سے چھوٹی نیکی کی تحسین کرتا ہے اور بڑی سے بڑی تقصیر کو رحمدل باپ کی طرح اپنے بچوں یعنی ہمیں ہماری ہر خطا سے پاک کر کے بخش دیتا ہے۔ یہی اس کی کریمی ہے جس کا کوئی بدل نہیں۔ یہ محبت ہی اس کی فیصلہ کُن محبت ہے، قضا و عدل پر مبنی، جس کی بنیاد پر اس کی ہمارے ضمن میں توقعات بڑھتی ہیں کہ ہم سچائی، کامل سچائی کا ادراک حاصل کرنے کے لیے اپنی آمادگی بروے عمل لائیں، حق کو پہچانیں کہ وہی اصل اور یقینی آخری سچ ہے۔ اس کے سامنے اپنے گناہوں کا، اپنی لغزشوں کا صدق دلی سے اعتراف کریں، ندامت بھرا اعتراف، اپنے کیے پر پچھتاوا، اپنی خطائوں پر معافی کی التجا ۔ خداوندِ قدوس کی سہو و خطا سے مبرا، سچی اور کھری، ہمیشہ کی طرح اور ہمیشہ کے لیے جاری و ساری غریب پروری و احسان نوازی پر محمول رحم و رحمت بھری ژرف نگاہی جس سے محبت ہی محبت چھلکتی ہو، اس کا اقرار، دل و جاں سے اقرار کر لیں تو پھر پَوبارہ، معراجِ آدمیت سمجھیے پالی۔ یہی الٰہی محبت ہمارے باطن کو صیقل کر کے اس پر چڑھے سارے زنگوں کو صاف کر دے گی۔ تب معاف کر دینے کی الٰہی صفت پر ہم توکّل پیدا کرنے کی جِلا پا سکنے میں حق بجانب ہوں گے، وہ ہماری کایاپلٹ کا سبب و جواز بن جائے گی اور ہم دنیاے آخرت کا سب سے بڑا انعام پا لیں گے۔ دنیا میں تو جو مزے تھے، ہم جیسے تیسے بھی، لُوٹ چکے سو لُوٹ چکے، آخرت بھی سنور جائے تو یہ کہنا کیا بجا نہیں ہو گا۔

گر یہ دُنیا ہے تو اے میرے خدا

کتنی دِلکش تیری جنت ہو گی !!

روایات میں اندرونِ اندر یا باطن کی جو صفائی اور پاکیزگی ہے اس کے لیے اعراف کی منزل (Purgatory)سے گذرنا پڑتا ہے یعنی تطہیرِ باطن سے۔ اور انسان کے مطہر ہوتے ہی اس پر بہشت کی ساری نعمتوں کے اور الٰہی فضل و کرم کے دَر وا ہو جاتے ہیں۔

بہشت کیا ہے؟ اس کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ عالمِ انسانیت کے فرحت بخش وجود کی روحانی مسرت کا خداواحد فی التثلیث میں اتحادِ بالاقنوم کا شرف ہے جو اسے ہستیِ خداوند یسوع مسیح کے وجود میں حاصل ہے جس کے تحت تمام مومنین کو یکجا کِیا جائے گا یعنی زمین پر محبوب اور پُرامید امتِ مسیحی کو جب کہ خداوند کی دوسری آمد پر ساری دنیا کے لوگ مسیحیت پر ایمان لا چکے ہوں گے۔ حتّٰی کہ دوسری مخلوقاتِ ارضی بھی موجود ہو گی جو ابدی محبتِ خداوندی سے سرشار ہے اور…

…کہ خلقت بھی فنا کی گرفت سے چھُوٹ کر خُدا کے فرزندوں کے جلال کی آزادی میں شرکت حاصل کرے گی۔ کیوںکہ ہم جانتے ہیں کہ ساری خلقت اب تک چیخیں مارتی ہے اور اُسے دردِزِہ لگا ہے اور فقط وُہی نہِیں مگر ہم بھی جنھیں رُوح کے پہلے پھل مِلے ہیں خُود اپنے باطن میں کراہتے ہیں اور تَبنِیّت یعنی اپنے بدن کی مخلصی کی راہ دیکھتے ہیں کیوںکہ اُمِّید سے ہم نے نجات حاصل کی، مگر اُمِّید کی ہُوئی چیز کا دیکھ لینا اُمِّید نہِیں ہوتی، کیوںکہ جس چیز کو کوئی دیکھ رہا ہے، اُس کی اُمِّید کیسی؟ مگر جب ہم نادیدنی چیز کی اُمِّید کرتے ہیں تو صبر کے ساتھ اُس کی راہ دیکھتے ہیں۔

رومیوں کے نام۔21:8تا25  

(خدا کے فرزند کون ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جو کمال کوشش سے اُس کی مرضی پر چلتے ہیں اور اپنے دِل میں وہ سلامتی جو دنیا دے نہیں سکتی یعنی خدا کی محبت اور باطنی ملاپ کا مزہ چکھتے ہیں۔ اس سبب سے خدا نے انھیں ایمان میں بلایا اور اپنے فضل سے راستباز کِیا اور اس لیے کہ وہ خدا کے فضل میں مر گئے، اس نے انھیں ہمیشہ کی زندگی کا جلال بھی بخشا۔ اور جو باطل ایمان میں قائم ہو کر دنیا اور جسم کی راہ پر چلتے ہیں اور چوں کہ وہ ہمیشہ کی زندگی کے لیے پھل نہیں لاتے وہ اپنے قصور سے ابدی ہلاکت کو پہنچیں گے۔ یہی جنت ہے اور جہنم بھی)

دوزخ؟… بہشت کا تو اور معاملہ ہے مگر خدا کے ہاں لوگوں کے لیے دوزخ کی (بطور سزا) کوئی تجویز نہیں۔ اپنے بارے میں خدا اپنا ابلاغ خود بخشتا ہے۔ مگر صرف اپنی محبت کے ناتے سے، جس کا مقصود فقط سب کے لیے نجات ہی نجات ہے۔ تاہم خدا کی اس بخشش سے مفر کی بھی انسان کو توفیق ودیعت کی جا چکی ہے۔ یہ مانے یا وہ مانے اس کی اِچھّا پر چھوڑ دیا گیا ہے، بھلے یہ انتخاب کتنا ہی مخمصہ اس کے لیے ثابت ہو۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جب انسان اپنی کامرانیوں پر اس حد تک فریفتہ و نازاں ہو کہ وہ نجات کی اس بخششِ خداوندی کو اس کا فضلِ عظیم تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ دِکھانے پر آمادہ ہو جائے اور تقاضا کرنے لگے کہ اس فضل و کرم کا حصول تو اس کا حق ہے جو اسے ملے ہی ملے۔ اس سرکشی اور احسان ناشناسی پر بھی وہ مہربان خدا، خداوند کے وسیلے سے اسے اپنی مہربانیوں کے حصار سے باہر نہیں نکالتا۔

ایسی منفی قسم کی علت العلل یعنی قطعیت کو یہی سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ ایک طرح سے اندرونی خیالات کی لبوں پر آئے الفاظ کی یخ بستگی ہے جو زندگی کی نفی تو کرتی ہی ہے، انسانی رِشتوں ناتوں اور سماجی تعلقات سے گریز پائی بھی اختیار کر چکی ہے اور خود فریبی، تمرد و تکبر کی بھی آئینہ دار ہے جس کی بنا پر انسان اپنی انائیت میں خود کو مطلقِ محض گرداننے لگتا ہے۔ ہم امید کر سکتے ہیں، ضروری طور، دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں جس کے اپنے بارے میں قیاس کردہ الفاظ کو آخری فیصلے کا درجہ حاصل ہو، نہ ہی کِسی کو اپنی زندگی پر اس قدر اختیار حاصل ہے۔ تدبیر کند بندہ، تقدیر زند خندہ۔ بہ ہرحال مکمل یقین کے ساتھ حتمی راے دینے سے بھی ہمیں کوئی جلدی نہیں پڑی۔ کیوں کہ خدا کے بے پایاں رحم، اس کی رحمت اور اس کا کرم جس کو ہم خدا ترسی بھی کہہ سکتے ہیں وہ اٹل ہے، اور قطعی طور پر ہم اس کے بارے میں یہی کہہ سکتے ہیں کہ اس کی رحمت اور آدم زادوں کی آزادی کہ جس کو زوال نہیں دونوں اپنی اپنی جگہ سربستہ راز ہیں۔ خدا کی خدا ہی جانے! رحمت و رحمِ خداوندی اور انسان کی اپنی ہی انا کی اسیری کے متعلق ہم کھوج میں ہیں، مگر اس بھید کو کیسے منشاے خداوندی کے بغیر ہم پا سکتے ہیں کہ دونوں ہی ایک لحاظ سے اہم حصہ ہیں ہماری آس، امید اور ہمارے ایمان و دھم کا۔

ماخوذ از… (Medard Kehl SJ in: W. Fürst & J. Werbick (Hg.), Katholische Glaubensfibel. Freiburg: Herder, 2004, p. 87 ff.)

:سوال نمبر183

مسیحی جنت اور دوزخ کی تفصیل سے متعارف کروانا پسند فرمائیں گے؟ کیسی ہوں گی؟


جواب:

۔اس سوال کے سیر حاصل جواب کی خاطر واقعی قدرے تفصیل میں جانے کی ضرورت محسوس ہونا قدرتی امر ہے۔ بتقاضاے وضاحت کیتھولک علمِ الٰہیات کے سلسلے میں دورِ جدید کے ایک ماہرِ علومِ دینی کے ان الفاظ پر دھیان دینا ازبس ضروری ہے جو مرنے والوں، دائمی حیاتِ انسانی اور جنت و جہنم (فردوس و دوزخ) پر ان کے تحقیقی مطالعہ کا نچوڑ ہیں۔

ہمارے معاصرین کی معقول نفری، بشمول پاک بپتسمہ سے سرفراز مسیحیوں کے بھی، خدا کی امت کے ایمان اور پاک رسولوں کے عقیدہ کے آخری فقرہ کے اُلجھاو کے سلجھاو میں غلطان و پیچاں رہی ہے اور انہی کٹھنائیوں کا شکار مقدس رسول پولوس کے دور میں یونان کے لوگ بھی رہے تھے مگر گتھی سلجھا نہ سکے۔

جب اُنھوں نے مُردوں کی قیامت کی بات سُنی تو بعض ٹھٹھا مارنے لگے اور بعض نے کہا یہ بات ہم تجھ سے پھر بھی سنیں گے‘‘۔ 

اعمال…32:17

امکاناً، یہی ہے کہ اس کی جڑیں فرضی قصے کہانیوں میں پیوست ہیں جنھیں انسانی زندگی میں نفوذ کرجانے کا موقع میسر ہوتا گیا۔ اور نئے عہد نامہء اقدس میں یہودیوں کی مکاشفاتی روایات سے انھیں مستعار لے لیا گیا اور پھر وہی باتیں، داستانیں، صدیوں پر پھیل کے کلیسیائی تبلیغ و اشاعت اور کرسچین آرٹ کے ذریعے عوام الناس میں مقبول ہو گئیں۔ اور پھر زمانے کا اخیر آنے تک کہ مقدس خداوند یسوع مسیح کی دوسری آمد بھی جب صادق آ چُکی ہوگی، قبریں کھول دی جائیں گی اور تمام مُردوں کے اجسام میں زندگی عُود کر آئے گی، مُردے دوبارہ زندہ کر دیے جائیں گے، تب ساری خلقتِ خداوند یسوع پاک کے سامنے اکٹھی کر کے پیش کر دی جائے گی، اس روز محشر کی عدالت کا قاضی القضاۃ خود خداوند ہو گا اور حتمی انصاف کا اس کے دم سے بول بالا ہو گا۔

اپنے عقائد کو مضبوط رکھنے والے عوامل سے محترز ہوئے بغیر بھی ہمارے آج کے بہت سے   مومن مسیحی اور علمِ الٰہیات کے علما کرام یہ بات قبول کر چکے ہیں کہ مرنے کے بعد دوبارہ جی اُٹھنا یا اُٹھائے جانے کی صورتِ حالات کو یقینی جاننے کے اور بھی بہت سے نکات ہیں، جو ظاہر ہیں ان سے علاوہ ہیں، جو ان ہیولاتی شکلوں والے قیاسات کو ٹھوس جسمانی ہیئت میں قبول کروانے کی اوقات رکھتے ہیں۔ ویسے بھی فی زمانہ روح اور جسم کے ملاپ و وحدت کی باتیں بڑا زور پکڑ چُکی ہیں، خاص طور پر اس نظریے کے تحت کہ یوں خدا کے ساتھ تکمیلِ حیات کا مرحلہ انجام پاتا ہے۔ اس کا مطلب ہوا کہ ہمارا عقیدہ درست ہے کہ موت کے بعد تمام انسان خدا کی محبت میں جو مُردوں میں جی اُٹھنے والے خداوند یسوع مسیح کی زندہ مثال ہے اس کے پیشِ نظر جی ہاں، تمام انسان اس کی محبت میں اس کے روبرو زندہ کر کے حاضری کی سعادت سے نوازے جائیں گے۔ اپنے جسم اور اپنی روح کے ساتھ خداوند کریم کے درشن کریں گے، کامل انسان، اپنی تمام انسانی صفات کے ساتھ، اپنی زندگیوں کی رنگین و ناقابلِ فراموش داستانیں لیے کہ کن کن تجرباتِ زیست سے گذرے، اس کی آسانیاں اور جینے کی دُشواریاں، الغرض جو جو اُن کے ساتھ دنیا میں بِیتا، کیا کچھ سہا اور کیا کچھ کے مزے لیے، کیا کیا مرادیں پوری ہوئیں اور کیا کیا حسرتیں وہیں پیچھے چھوڑ کے ناکامیوں کی یہاں گٹھڑیاں باندھ لائے، سب کچا چٹھا اس کے سامنے جڑ دیں گے۔ کچھ چِھپا نہ رہے گا، اس علیم و خبیر کے سامنے سب شیشہ ہو جائے گا۔ ہمارے کردہ و ناکردہ سب اعمال کا اُسے علم ہے۔ پاک یوخرست میں ہمیں زندہ خداوند مسیح کا بدن ملتا ہے۔ (زندہ مسیح!) علمِ حیاتِ انسانی کی اصطلاح میں جسم کی ساخت یعنی ہیئتِ اجتماعی (چمڑی، گوشت پوست، ہڈیوں، وغیرہ کے حوالے سے نہیں) بل کہ اس حوالے سے جسے مقدس پولوس رسول دوبارہ جی اُٹھنے والے کا روحانی جسم کہتا ہے:

نفسانی جسم بویا جاتا ہے۔

روحانی جسم جی اُٹھتا ہے۔

اگر نفسانی جسم ہے، تو روحانی بھی ہے۔

1۔ قرنتیوں…:15 44

مُراد یہ ہوئی کہ…پُورا جسم…کہ جسے مقدس روح الحق جو حیات بخش ہے، اپنے دخول و نفوذ سے اور قلبِ ماہیت کے ذریعے یہ نئی شکل دے دیتا ہے۔ اس جسم میں سرایت کر چُکی ہوتی ہے ہماری دنیاوی حیات، ہماری سریع الزوال وقتیہ طبعی، جسمانی تبدیلیاں اور حسیات اور ہمیں ملنے والی مسرتیں، محبت و نشاط جو باری تعالیٰ میں انسانی نجات کے لیے ضروری عوامل ہیں۔ چناں چہ جسم کی دوبارہ نمو روح کے غیر فانی ہونے کے متضاد نہیں۔ لفظ روح کے جو بائبلی معانی ہیں وہ تو خدا کے سامنے انسان کی ذات کے کشف پر مبنی ہیں اور مراد ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے ساتھ محبت کے ذاتی رشتہ اور قربت و عزیز داری میں شامل ہونے کی نوید پاتا ہے، زمین سے جوا س کا جسمانی رشتہ ہوتا ہے اس سے ماورا اور مخلوق کے ناتوں رشتوں سے ماسوا۔ ایک نیا ہی ربط و التفات کا سلسلہ خدا کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے۔ مشیتِ خداوندی کے حساب سے یہ محبت، یہ تعلق ایسا ہوتا ہے جس نے کبھی بھی ٹوٹنا نہیں، یہ محبت یہ قرابت سراسر غیر فانی ہے۔ روزِ عدالت انسانوں کا دوبارہ زندگی پانا، ابدی زندگی، دلیل ناقابلِ ردہے اس عنایت کی کہ انسان کی، تمام کے تمام انسانوں کی، اللہ کے پیاروں کی، مکتی دُور پرے کی بات نہیں، اٹل فیصلہ ہے کیوں کہ خدا باپ اپنے بیٹے میں تمام ہی انسانوں سے پیار کرتا ہے۔ وہ سب کا باپ ہے اور ہم اس کے محبوب فرزند!

عام انسانوں کے نزدیک موت کیا ہے؟ موت کو سمجھا جاتا ہے کہ وہ زندگی کے پکے پکے خاتمہ کی نمایندگی کرتی ہے۔ حال آں کہ موت میں ہی تو زندگی ہے۔ فنا ہی دائمی بقاکا پیش خیمہ ہے۔مگر انسان خیال کرتا ہے کہ کون و مکان و زمان کی قید میں رہ کر جو زندگی ہم نے بسر کی موت اس کی تباہی و بربادی اور خاتمے کی ترجمان ہے۔ جب کہ مرنے کے بعد کی ہمیشہ والی زندگی کا ہمارے دنیاوی دائمی نظامِ اوقات سے دُور دُور کا واسطہ نہیں، وہ تو اعلیٰ ترین، نظر نہ آنے والے یعنی مخفی قسم کے آفاقی نظمِ اوقات کی پابند ہو گی۔یوںجانیے موت تو پیغام ہے، اپنی عارضی زندگی جو ہم نے زمین پر گزاری خدا رحم و رحمت والے کے کرم سے اپنی تکمیل کو پہنچنے کا اور نئی آفاقی و دائمی زندگی کی ابتدا کا۔ لیکن اس سے کوئی غلط قیاس نہ قائم کر لیا جائے جیسے یہ بات کہ غالباً خدا نے اس قانون کی ترتیب اور تدوین پہلے سے فائنل کر رکھی ہے کہ ہماری زندگیوں سے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ اگر ایسا ہونا ہوتا تو پھر روزِ عدالت چہ معنی دارد، خدا نے جو طے کر رکھا تھا وہی ہم نے کِیا۔ اچھا یا برا، ہمارا کیا قصور؟ نہیں نہیں، یہ خوش فہمیاں نکال دیں۔ خدا کی حتمی مشیت تو ہمیشہ یوں رہی ہے کہ یہ ہم ہیں جو جب اس کے روبرو حاضر ہوں گے اپنا خود سے کِیا کرایا، اچھا بُرا، سب نامہء اعمال اُس کے سامنے لے کر حاضر ہوں گے اور اس کے ذمہ دار بھی ہم ہوں گے۔ گذشتہ زندگی کے ثمرات ہم نے اس کی بارگاہ میں پیش کرنا ہیں، اس التجا کے ساتھ کہ

روزِ حساب جب مرا پیش ہو دفترِ عمل

نہ آپ شرمسار ہو نہ مجھ کو شرمسار کر

ہم اپنے افعال و کردار و اعمال کا جو تحفہ پیشِ خداوندِ عظیم و رحیم کریں وہ اسے قبول کر لے، محفوظ کر لے، اسے مصفّٰی کر دے، صحیح کر دے، غلطیوں تقصیروں سے پاک کر دے۔ کرے گا یا نہیں؟ اس کا انحصار طویل ترین مہر و محبت کی اس گفتگو پر ہو گا جو مقدس باپ، اقدس بیٹے اور روح القدس کے درمیان ہو گی۔اسی محبت و مہر کے صدقے ہماری زندگی کے ثمرات پک پک کر تیار ہو چکے ہوں گے اور مشیتِ ایزدی کے عین مطابق اپنی شکل، رنگ اور وہ خواص سامنے لے آئیں گے جو ہماری زندگیوں کے آغاز سے ہی ان کے لیے مقرر کیے جا چکے تھے۔ ایک وقتِ مقرر آتا ہے جب انسان موت کی آغوش میں جا سوتے ہیں، مکرر زندہ کِیا جائے تو اپنی اپنی زندگی کے ماحصل وہ خدا کے حضور پیش کر دیتے ہیں، تب جی ہاں تب اس نئی زندگی میں بھی حشر کے سمے مقدس خداوند یسوع مسیح پھربندے بندے کے پاس آئے گا۔ تاریخ کا یہ آخری آخری دِن ہو گا جو برپا ہو چکا ہو گا۔ہمارے اپنے اندازہ و شمارِ وقت کے مطابق کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یومِ آخر کب طلوع ہو گا، ختم بھی ہوگا یا نہیں، آئے گا تو کِس گھڑی، کِس دن، کِس ماہ، کِس سال یا کِس صدی میں، پیشگی کوئی اطلاع بہم نہیں پہنچائی جا سکتی۔ انگلی کے نشان والے سب شوئر شارٹ گیس یہاں پہنچ کے فیل ہو جاتے ہیں۔ مگر یہ دن آنا ہے اور ضرور آنا ہے مگر آئے گا یسوع کی دوسری آمد کے بعد۔

پایانِ کار، یہ جو خدا مہربان کی محبتوں اور رحمتوں سے اس کی دید وا دید کے موقع و مناسبت سے ہمیں فیضیابی حاصل ہوتی ہے اس سے ہمیں اپنی زندگی کی تمام تر صداقتوں کو سمجھنے کا چارہ نصیب ہوتا ہے، اور سب کچھ واضح طور پر بِلا کم و کاست ہم پر آشکارہ ہو جاتا ہے، ساری حقیقتیں ہمارے سامنے کھل جاتی ہیں۔ ہماری زندگیوں میں اور خدا کی بے پایاں محبت جس سے وہ ہمیں سرفراز کرتا ہے اس میں جو فرق ہے وہ اس وقت مزید عیاں ہو جاتا ہے جب ہم اس حقیقت کا سامنا کرتے ہیں کہ ہم جیسے بھی ہیں، اُس کی درگذر، معافی اور احسان ہمیشہ ہمارے شاملِ حال رہا ، رہتا ہے اور رہے گا۔ وہ اپنی محبت میں ہماری چھوٹی سے چھوٹی نیکی کی تحسین کرتا ہے اور بڑی سے بڑی تقصیر کو رحمدل باپ کی طرح اپنے بچوں یعنی ہمیں ہماری ہر خطا سے پاک کر کے بخش دیتا ہے۔ یہی اس کی کریمی ہے جس کا کوئی بدل نہیں۔ یہ محبت ہی اس کی فیصلہ کُن محبت ہے، قضا و عدل پر مبنی، جس کی بنیاد پر اس کی ہمارے ضمن میں توقعات بڑھتی ہیں کہ ہم سچائی، کامل سچائی کا ادراک حاصل کرنے کے لیے اپنی آمادگی بروے عمل لائیں، حق کو پہچانیں کہ وہی اصل اور یقینی آخری سچ ہے۔ اس کے سامنے اپنے گناہوں کا، اپنی لغزشوں کا صدق دلی سے اعتراف کریں، ندامت بھرا اعتراف، اپنے کیے پر پچھتاوا، اپنی خطائوں پر معافی کی التجا ۔ خداوندِ قدوس کی سہو و خطا سے مبرا، سچی اور کھری، ہمیشہ کی طرح اور ہمیشہ کے لیے جاری و ساری غریب پروری و احسان نوازی پر محمول رحم و رحمت بھری ژرف نگاہی جس سے محبت ہی محبت چھلکتی ہو، اس کا اقرار، دل و جاں سے اقرار کر لیں تو پھر پَوبارہ، معراجِ آدمیت سمجھیے پالی۔ یہی الٰہی محبت ہمارے باطن کو صیقل کر کے اس پر چڑھے سارے زنگوں کو صاف کر دے گی۔ تب معاف کر دینے کی الٰہی صفت پر ہم توکّل پیدا کرنے کی جِلا پا سکنے میں حق بجانب ہوں گے، وہ ہماری کایاپلٹ کا سبب و جواز بن جائے گی اور ہم دنیاے آخرت کا سب سے بڑا انعام پا لیں گے۔ دنیا میں تو جو مزے تھے، ہم جیسے تیسے بھی، لُوٹ چکے سو لُوٹ چکے، آخرت بھی سنور جائے تو یہ کہنا کیا بجا نہیں ہو گا۔

گر یہ دُنیا ہے تو اے میرے خدا

کتنی دِلکش تیری جنت ہو گی !!

روایات میں اندرونِ اندر یا باطن کی جو صفائی اور پاکیزگی ہے اس کے لیے اعراف کی منزل (Purgatory)سے گذرنا پڑتا ہے یعنی تطہیرِ باطن سے۔ اور انسان کے مطہر ہوتے ہی اس پر بہشت کی ساری نعمتوں کے اور الٰہی فضل و کرم کے دَر وا ہو جاتے ہیں۔

بہشت کیا ہے؟ اس کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ عالمِ انسانیت کے فرحت بخش وجود کی روحانی مسرت کا خداواحد فی التثلیث میں اتحادِ بالاقنوم کا شرف ہے جو اسے ہستیِ خداوند یسوع مسیح کے وجود میں حاصل ہے جس کے تحت تمام مومنین کو یکجا کِیا جائے گا یعنی زمین پر محبوب اور پُرامید امتِ مسیحی کو جب کہ خداوند کی دوسری آمد پر ساری دنیا کے لوگ مسیحیت پر ایمان لا چکے ہوں گے۔ حتّٰی کہ دوسری مخلوقاتِ ارضی بھی موجود ہو گی جو ابدی محبتِ خداوندی سے سرشار ہے اور…

…کہ خلقت بھی فنا کی گرفت سے چھُوٹ کر خُدا کے فرزندوں کے جلال کی آزادی میں شرکت حاصل کرے گی۔ کیوںکہ ہم جانتے ہیں کہ ساری خلقت اب تک چیخیں مارتی ہے اور اُسے دردِزِہ لگا ہے اور فقط وُہی نہِیں مگر ہم بھی جنھیں رُوح کے پہلے پھل مِلے ہیں خُود اپنے باطن میں کراہتے ہیں اور تَبنِیّت یعنی اپنے بدن کی مخلصی کی راہ دیکھتے ہیں کیوںکہ اُمِّید سے ہم نے نجات حاصل کی، مگر اُمِّید کی ہُوئی چیز کا دیکھ لینا اُمِّید نہِیں ہوتی، کیوںکہ جس چیز کو کوئی دیکھ رہا ہے، اُس کی اُمِّید کیسی؟ مگر جب ہم نادیدنی چیز کی اُمِّید کرتے ہیں تو صبر کے ساتھ اُس کی راہ دیکھتے ہیں۔

رومیوں کے نام۔21:8تا25  

(خدا کے فرزند کون ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جو کمال کوشش سے اُس کی مرضی پر چلتے ہیں اور اپنے دِل میں وہ سلامتی جو دنیا دے نہیں سکتی یعنی خدا کی محبت اور باطنی ملاپ کا مزہ چکھتے ہیں۔ اس سبب سے خدا نے انھیں ایمان میں بلایا اور اپنے فضل سے راستباز کِیا اور اس لیے کہ وہ خدا کے فضل میں مر گئے، اس نے انھیں ہمیشہ کی زندگی کا جلال بھی بخشا۔ اور جو باطل ایمان میں قائم ہو کر دنیا اور جسم کی راہ پر چلتے ہیں اور چوں کہ وہ ہمیشہ کی زندگی کے لیے پھل نہیں لاتے وہ اپنے قصور سے ابدی ہلاکت کو پہنچیں گے۔ یہی جنت ہے اور جہنم بھی)

دوزخ؟… بہشت کا تو اور معاملہ ہے مگر خدا کے ہاں لوگوں کے لیے دوزخ کی (بطور سزا) کوئی تجویز نہیں۔ اپنے بارے میں خدا اپنا ابلاغ خود بخشتا ہے۔ مگر صرف اپنی محبت کے ناتے سے، جس کا مقصود فقط سب کے لیے نجات ہی نجات ہے۔ تاہم خدا کی اس بخشش سے مفر کی بھی انسان کو توفیق ودیعت کی جا چکی ہے۔ یہ مانے یا وہ مانے اس کی اِچھّا پر چھوڑ دیا گیا ہے، بھلے یہ انتخاب کتنا ہی مخمصہ اس کے لیے ثابت ہو۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جب انسان اپنی کامرانیوں پر اس حد تک فریفتہ و نازاں ہو کہ وہ نجات کی اس بخششِ خداوندی کو اس کا فضلِ عظیم تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ دِکھانے پر آمادہ ہو جائے اور تقاضا کرنے لگے کہ اس فضل و کرم کا حصول تو اس کا حق ہے جو اسے ملے ہی ملے۔ اس سرکشی اور احسان ناشناسی پر بھی وہ مہربان خدا، خداوند کے وسیلے سے اسے اپنی مہربانیوں کے حصار سے باہر نہیں نکالتا۔

ایسی منفی قسم کی علت العلل یعنی قطعیت کو یہی سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ ایک طرح سے اندرونی خیالات کی لبوں پر آئے الفاظ کی یخ بستگی ہے جو زندگی کی نفی تو کرتی ہی ہے، انسانی رِشتوں ناتوں اور سماجی تعلقات سے گریز پائی بھی اختیار کر چکی ہے اور خود فریبی، تمرد و تکبر کی بھی آئینہ دار ہے جس کی بنا پر انسان اپنی انائیت میں خود کو مطلقِ محض گرداننے لگتا ہے۔ ہم امید کر سکتے ہیں، ضروری طور، دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں جس کے اپنے بارے میں قیاس کردہ الفاظ کو آخری فیصلے کا درجہ حاصل ہو، نہ ہی کِسی کو اپنی زندگی پر اس قدر اختیار حاصل ہے۔ تدبیر کند بندہ، تقدیر زند خندہ۔ بہ ہرحال مکمل یقین کے ساتھ حتمی راے دینے سے بھی ہمیں کوئی جلدی نہیں پڑی۔ کیوں کہ خدا کے بے پایاں رحم، اس کی رحمت اور اس کا کرم جس کو ہم خدا ترسی بھی کہہ سکتے ہیں وہ اٹل ہے، اور قطعی طور پر ہم اس کے بارے میں یہی کہہ سکتے ہیں کہ اس کی رحمت اور آدم زادوں کی آزادی کہ جس کو زوال نہیں دونوں اپنی اپنی جگہ سربستہ راز ہیں۔ خدا کی خدا ہی جانے! رحمت و رحمِ خداوندی اور انسان کی اپنی ہی انا کی اسیری کے متعلق ہم کھوج میں ہیں، مگر اس بھید کو کیسے منشاے خداوندی کے بغیر ہم پا سکتے ہیں کہ دونوں ہی ایک لحاظ سے اہم حصہ ہیں ہماری آس، امید اور ہمارے ایمان و دھم کا۔

ماخوذ از… (Medard Kehl SJ in: W. Fürst & J. Werbick (Hg.), Katholische Glaubensfibel. Freiburg: Herder, 2004, p. 87 ff.)

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?