German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سُوال نمبر17

کتاب میں درج ہے کہ مسیحیت کے پیروکار بتوں یا مذہبِ اسلام پر ایمان لانے والے، ہیں تو سبھی اِنسان ہی نا، اور سب کو شرف حاصل ہے کہ انھیں نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہی دستِ رحمت سے تخلیق کِیا ہے، بنایا بھی اپنے تشابہ میں ہے اور اپنی طرف مراجعت ان کا مقدر کیا ہے۔ (تھِیم12، 

، سیکشن3sChristian Perspective جزو2،ChristianityThe Heart of Christianity 

صفحہ 144 ملاحظہ فرمائیے as the Way to Human Fulfilment

فقرہ ہے، سب نے اُسی کی طرف لوٹنا ہے.... یہ تو ساری صراحت و بلاغت کا تِّیا پانچا کرنے والی بات ہو جائے گی جب یہ سُوال ذِہن میں اُبھرا کہ اِس دُنیا سے اُس دُنیا میں واپسی تو ہو گی، مگر کہاں.... بہشت میں یا سیدھے دوزخ میں؟ ایک اور بھی فقرہ توجُّہ کا متقاضی ہے، اس میں مصنف کا فرمانا ہے کہ نیستی سے ہستی میں لائی گئی خلقت خُدا کے فرزندوں کے اِظہارِ عام کا بڑے اشتیاق کے ساتھ انتظار کر رہی ہے، اس لیے کہ یہ مخلُوق بطالت کی حُکم بردار بنا دی گئی، اس کی اپنی مرضی نہِیں چلتی کیوں کہ وُہ بے اثری کی غلام ہے اور اس پر اس کی مرضی، اور محُکم چلتا ہے جو اُس کا حاکم ہے، یہی وجہ ہے وُہ فرزندانِ خُدا کے ظاہر ہونے کی راہ تکتی ہے۔ اسی آس اُمِّید میں کہ ایک نہ ایک دِن وُہ آزاد ہو جائے گی اور زوال پذیری کے شکنجے سے اُسے چھٹکارا مِل جائے گا اور اسے یقین ہے کہ جلد یا بدیر خُدا کے بچوں کی عظمت و شان کی آزادی میں وُہ شمولیت کا اعزاز ضرُور پائے گی۔ (القرآن:81-82-99، اور سورة101 سے تسلّی بخش مدد لیجیے) نیز مندرجہ ذیل پر غور فرمائیے

کیوںکہ خلقت کمالِ آرزُو سے خُدا کے فرزندوں کے ظاہر ہونے کی راہ تکتی ہے۔ اِس لیے کہ خلقت بطّالت کے تابع ہے، اپنی خُوشی سے نہِیں بل کہ اُس کے سبب سے جس نے اُسے تابع کِیا۔ اِس اُمِّید پر کہ خلقت بھی فنا کی گرفت سے چھُوٹ کر خُدا کے فرزندوں کے جلال کی آزادی میں شرکت حاصل کرے گی۔ کیوںکہ ہم جانتے ہیں کہ ساری خلقت اب تک چیخیں مارتی ہے اور اُسے دردِزِہ لگا ہے اور فقط وُہی نہِیں مگر ہم بھی جنھیں رُوح کے پہلے پھل مِلے ہیں خُود اپنے باطن میں کراہتے ہیں اور تَبنِیّت یعنی اپنے بدن کی مخلصی کی راہ دیکھتے ہیں کیوںکہ اُمِّید سے ہم نے نجات حاصل کی، مگر اُمِّید کی ہُوئی چیز کا دیکھ لینا اُمِّید نہِیں ہوتی، کیوںکہ جس چیز کو کوئی دیکھ رہا ہے، اُس کی اُمِّید کیسی؟ مگر جب ہم نادیدنی چیز کی اُمِّید کرتے ہیں تو صبر کے ساتھ اُس کی راہ دیکھتے ہیں۔

رومیوں کے نام۔18:8تا25 

بنیادی مساوات یعنی تمام اِنسانوں کے لیے برابری کے حقوق کو نسل در نسل اور مُختلف معاشروں میں پھیلے اختلافات کے باوجود، طلبِ دعوتِ دِین کو استحکام اور قُبُولیت کا مسلّمہ درجہ نصیب ہوتا ہے اور سماجی و معاشری مقام حاصل کرنے کے لیے مذہب ہی ہے جو راہیں ہموار کرتا ہے۔ ان درج بالا سطور کی روشنی میں مصنف سے میرا سُوال ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام سے کیوں یہ دعویٰ منسوب ہے جس The Only Wayمیں اُنھوں نے اپنے بارے میں کہا کہ میرے واسطے وسیلہ سے ہی ہے، جو کُچھ ہے 

 کیا پیغمبرِ خُدا نے جو کہا، اس کا یہی مطلب ہے نا کہ.... ہر راستے کے دُوسرے سرے پر خُدا موجُود ہے۔

حوالہ مُقدّس یوحنا۔6:14

یسُّوع نے اُس سے کہا

"راہ اور حق اور زندگی مَیں ہوں۔ کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ کے پاس نہِیں آتا۔"

مندرجہ ذیل سے استفادہ کیجیے:

اﷲ کے پاک نام سے شُرُوع کرتا ہُوں جو رحمن و رحیم ہے

"جب سورج لپیٹ لیا جائے گا۔ اور جب تارے بے نُور ہو جائیں گے۔ اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے۔ اور جب بیاہنے والی اونٹنیاں بیکار ہو جائیں گی۔ اور جب وحشی جانور اکٹھے ہو جائیں گے۔ اور جب دریا آگ ہو جائیں گے۔ اور جب رُوحیں (بدنوں سے) ملا دی جائیں گی۔ اور جب اس لڑکی سے جوزندہ دفنا دی گئی پوچھا جائے گا، کہ وُہ کِس گُناہ پر ماری گئی؟ اور جب اعمال کے دفتر کھولے جائیںگے۔ اور جب آسمان کی کھال کھینچ لی جائے گی۔ اور جب دوزخ (کی آگ) بھڑکائی جائے گی۔ اور جب بہشت قریب لائی جائے گی۔ تب ہر شخص معلوم کر لے گا کہ وُہ کیا لے کر آیا ہے۔ ہم کو ان ستاروں کی قسم جو پیچھے ہٹ جاتے ہیں (اور) جو سیر کرتے اور غائب ہو جاتے ہیں۔ اور رات کی قسم جب ختم ہونے لگتی ہے۔ اور صبح کی قسم جب نمودار ہوتی ہے، کہ بے شک یہ (قرآن) فرشتہءعالی مقام کی زبان کا پیغام ہے،جو صاحبِ قوت مالکِ عرش کے ہاں اونچے درجے والا، سردار (اور) امانتدار ہے۔ اور (مکے والو!) تُمھارے رفیق (یعنی محمد) دیوانے نہِیں ہیں۔ بے شک انھوں نے اس (فرشتے) کو (آسمان کے کھُلے یعنی) مشرقی کنارے پر دیکھا ہے اور وُہ پوشیدہ باتوں (کے ظاہر کرنے) میں بخیل نہِیں۔ اور یہ شیطان مردود کا کلام نہِیں۔ پِھر تُم کِدھر جا رہے ہو؟ یہ تو جہان کے لوگوں کے لیے نصیحت ہے۔ (یعنی اس کے لیے) جو تُم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے۔ اور تُم کُچھ بھی نہِیں چاہ سکتے مگر وُہی جو اللہ رب العالمین چاہے۔"

(القرآن، سورئہ تکویر) 

اﷲ کے مُبارک نام سے آغاز جو رحمن و رحیم ہے

 جب آسمان پھٹ جائے گا۔ اور جب تارے جھڑ پڑیں گے۔ اور جب دریا بہہ (کر ایک دُوسرے میں مل) جائیں گے۔ اور جب قبریںاکھیڑ دی جائیں گی۔ تب ہر شخص معلوم کر لے گا کہ اس نے آگے کیا بھیجا تھا اور پیچھے کیا چھوڑا تھا۔ اے اِنسان تجھ کو اپنے پروردگار کرم گستر کے بارے میں کِس چیز نے دھوکا دیا؟ (وہی تو ہے) جس نے تجھے بنایا اور (تیرے اعضاءکو) ٹھیک کیا اور (تیرے قامت کو) معتدل رکھا۔ اور جس صُورت میں چاہا تجھے جوڑ دیا۔ مگر ہیہات تُم لوگ جزا کو جھٹلاتے ہو۔ حال آں کہ تُم پر نگہبان مقرر ہیں۔ عالی قدر (تمھاری باتوں کے) لکھنے والے۔ جو کُچھ تُم کرتے ہو وُہ اسے جانتے ہیں۔ بے شک نیکوکار نعمتوں (کی بہشت) میں ہوں گے۔ اور بدکردار دوزخ میں۔ (یعنی) جزا کے دن اس میں داخل ہوں گے۔ اور اس سے چھپ نہِیں سکیں گے۔ اورتمھیں کیا معلوم کہ جزا کا دن کیسا ہے؟ پِھر تمھیں کیا معلوم کہ جزا کا دن کیسا ہے؟ جس روز کوئی کِسی کا کُچھ بھلا نہ کر سکے گا اور حُکم اس روز صرف اللہ ہی کا ہو گا۔ 

(القرآن، سورئہ انفطار) 

اﷲ کے اسمِ لاشریک سے شُرُوع کرتا ہُوں جو رحمن و رحیم ہے

"جب زمین بھونچال سے ہلا دی جائے گی۔ اور زمین اپنے (اندر کے) بوجھ نکال ڈالے گی۔ اور اِنسان کہے گا کہ اس کو کیا ہُوا ہے؟ اس روز وُہ اپنے حالات بیان کر دے گی۔ کیوں کہ تُمھارے پروردگار نے اس کو حُکم بھیجا (ہو گا)۔ اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے تاکہ ان کو ان کے اعمال دکھائے جائیں۔ تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وُہ اس کو دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ بھی بُرائی کی ہو گی وُہ اسے دیکھ لے گا."

(القرآن، سورئہ زلزال) 

اﷲ کی مُبارک یاد سے شُرُوع کرتا ہُوں جو رحمن و رحیم ہے

"کھڑکھڑانے والی۔ کھڑکھڑانے والی کیا ہے؟ اور تُم کیا جانو کہ کھڑکھڑانے والی کیا ہے۔ (وہ قیامت ہے) جس دن لوگ ایسے ہوں گے جیسے بکھرے ہوئے پتنگے۔ اور پہاڑ ایسے ہو جائیں گے جیسے دھنکی ہُوئی رنگ برنگ کی اُون۔ تو جس کے (اعمال کے) وزن بھاری نکلیں گے، وُہ دلپسند عیش میں ہو گا۔ اور جس کے وزن ہلکے نکلیں گے۔ اس کا مرجع ہاویہ ہے۔ اور تُم کیا سمجھے کہ ہاویہ کیاہے؟ (وہ) دہکتی ہُوئی آگ ہے۔"

(القرآن، سورئہ قارعہ) 

کے لحاظ سے (Gensis)

 

جواب:۔کیتھو لک تعلیمات کے مُطابِق تمام اِنسانوں کی ایک ہی برادری ہے،پیدایش

سبھی ایک ہیں۔ سیّارئہ زمین پر بُود و باش اختیا رکرنے کے لحاظ سے سب آدمی خالق خُدا کی مخلُوق ہیں،جو کُچھ پیدا ہُوا سب اُسی کے حُکم سے پیدا ہُوا۔ اسی لیے نوعِ اِنسانی کی منزلِ مقصود بھی ایک ہی ہے اور خُدا بھی ایک ہے عظیم ترین، اعلیٰ ترین صفات کا مالک خُدا.... حاجت روائی، رزاقی اور کارسازی اسی پر بس ہے۔ اس کے لطف و کرم کا ظہور، نجات کے بارے میں اس کا رحیمانہ اقدام جو خُداوند یسُّوع مسیح کے صدقے تمام اِنسانوں کا مقدرہے، اس کی رحمت و برکت اور حُکمت ہے جو سب پر چھائی ہے۔ ذرا غور فرمائیے

"وہ ایک سرے سے دُوسرے سرے تک پوری طاقت کے ساتھ پہنچتی ہے اور ملائمت سے ہر ایک چیز کا بندوبست کرتی ہے۔" حُکمت....1:8

"اور وہاں بھی بشارت دیتے رہے۔رسولوں کے اعمال."....7:14 

"وہ ہر ایک کو اس کے کاموںکے اعمال کے موافق بدلہ دے گا۔ جو نیکوکاری پر قائم رہ کر جلال اور عزت اور بقا کے طالب ہوتے ہیں اُن کو دائمی حیات دے گا۔رومیوں کے نام."....6:2 اور 7 

"وہ چاہتا ہے کہ سب آدمی نجات پائیں اور سچّائی کی پہچان تک پہنچیں"۔1۔تیموتاﺅس کے نام4:2 

حتّٰی کہ وُہ گھڑی آن پہنچے گی جب مُقدّس شہر(نئے یروشلم) میں خُدا کے برگزیدہ بندے جمع ہوں گے۔ یہ مُقدّس شہر وُہی شہر تو ہے جو خُدا کے نور سے منور و تاباں ہے۔ اور خُدا کے جلال کی تجلی میں ادھر اقوامِ عالم گامزن ہوں گی۔ حوالہ رسُولوں کے اعمال.... تھِیم21، آیت 23 اور اس سے آگے

دیکھیے

 (Declaration on the Relations of the Church to Non-Christian Religions: Nostra Aeteate of the Second Vatican Council, # 1)

(دیگر مذاہب کے ساتھ کلیسیا کے تعلُّقات)

جہاں تک خُداے واحد پر ایمان کا تعلُّق ہے، ویٹی کن کونسل کے اعلان نمبر3 کے مُطابِق یہ ہے کہ کلیسیا مسلمانوں کو عزت و تکریم کی نِگاہ سے دیکھتی ہے۔وہ خُداے احد کی بندگی کرتے ہیں، اس خُدا کی جسے وُہ مانتے ہیں کہ زندہ ہے، قائم ہے، اسے بقا ہے فنا نہِیں۔ رحم و رحمت والا ہے، تقدیروں کا مالک ہے، خالقِ کائنات ہے، زمین و آسمان کا مالک ہے اور وُہ خُدا وُہ ہے جو اپنے بندوں سے بھی ہمکلام ہُوا۔

تاہم، اس کا مطلب یہ بھی قطعاً نہِیں کہ خُدا کے بارے میں اسلام اور مسیحیت کے خیالات و عقائد ایک جیسے ہیں۔ نہِیں نہِیں، بڑے ٹھوس، بڑے محُکم، اہم اور بڑے بڑے اختلافات موجُود ہیں۔ مسیحی ایمان کی رُو سے مسیحیوں کا پاک خُدا وُہ ہے جس کی تعلیم اور پہچان بائبل نے کروائی اور وہ، وُہ خُدا ہے جس سے پاک خُداوند یسُّوع مسیح کا ظہور ہُوا۔ یہ ہے تثلیث میں توحید یعنی تین بھی ایک ہی ہیں اور یہی کلیسیائی تعلیمات کا نچوڑ ہے۔

اس کے باوُجُود مسلم اور مسیحی رضاے ربانی کی تعمیل پر ایک خُدا ہونے پر ایک ہیں، متفق ہیں، رضامند ہیں۔دلوں کے بھید تو خُدا ہی جانتا ہے۔ ہم مسیحیوں کا کوئی دعویٰ نہِیں کہ اس بارے میں ہمیں کوئی خاص ملکہ حاصل ہے نہ ہی ہم پر فرض ڈالا گیا ہے کہ ہم تیقُّن کے ساتھ کہتے پِھریں یہ بات کہ اگر کبھی کِسی شخص نے پورے ہوش و حواس کے ساتھ واقعی خُدا کے اپنے آپ کو لوگوں پر ظاہر کرنے کے عمل کو بچشمِ خُود دیکھا ہو اور پِھر جان بوجھ کے بِلا سوچے سمجھے اور تقصیر و گُناہ و سزا سے بے نیاز ہو کر وُہ تکفیر اور مکر جانے کا مرتکب ہو گیا ہو، تو یہ خُدا کی خُدا ہی جانے!

کیتھولک کلیسیا جانکاری دیتی ہے کہ عظمت و جلال والا خُدا تو چاہتا ہے کہ کفارئہ مسیح کے بدلے ہر کِسی کی مکتی ہو، البتہ مکتی اس کے لیے نہِیں جو بقائمی ہوش و حواس اور بِلا جبر و اکراہ خُداوند یسُّوع مسیح کی مَحَبّت سے منہ پھیر لے جب کہ خُداوند یسُّوع مسیح ہی کی متبرک ہستی ہے جس سے نجات راہ پاتی ہے۔ تاہم، گُناہوں سے مکتی کا وعدہ پُورا تو ہوتا ہے مگر اختیاراتِ کلیسیا اور پاک بپتسمہ سے بالا بالا۔ وُہ لوگ جو سچے سُچّے لوگ ہیں، عادل ہیں اور رضاے ربی اور منشاے الٰہی پر راضی بہ رضا ہیں وُہی دائمی نجات پانے والے ہیں۔ بھلے انھیں اس کا پتا ہی نہ ہو۔ پاک مسیح کا قانونِ نجات تو موجُود ہے، وُہی ان لوگوں کے گُناہوں سے چھٹکارا کے لیے کافی ہے۔ گیان دھیان کے لیے مستفیض ہوں

مُقدّس متی....31:25 اور اس سے آگے

(روزِ قیامت پر آخِری عدالت)

مستندلوگ، مستحقِ نجات بندے، غریب غربا، مسکینوں اور اسیروں میں بکثرت پائے جاتے ہیں جن کا سامناپاک خُداوند سے ہوتا ہے، وُہ دیکھتے ہیں مگر پہچان نہِیں پاتے۔ یہی مخلصی پانے والے لوگ ہیں۔ ویٹی کن کونسل کے آئین کا مسودہ بھی مفیدِ مطلب ہو گا جو کلیسیا کے بارے میں ہے۔ 

ایسے لوگ کہ اس کی ذِمّہ داری ان پر تو نہِیں، بس کِسی بھی وجہ سے پاک Lumen Gentium no 16

خُداوند کی انجیلِ مُقدّس یا کلیسیا تک ان کی رسائی نہ ہو پائی ہو، وُہ بھی مخلصی پا سکتے ہیں۔ اس لیے کہ خُدا کی مَحَبّت و حمایت جس کا اِنسان حقدار تو نہِیں یعنی حق تو نہِیں جتا سکتا، مگر خُدا کی دین ہے، اس کا تحفہ ہے جس کو عطا ہو جائے ہو جائے، اسی کرم سے شہ پا کربے حد خلوص اور کوشِش سے یہ لوگ ایسے عمل کرتے ہیں کہ خُدا کی رضا و خُوشنودی حاصل ہو جائے اور اس کی آگہی کے لیے ان کا ضمیر کچوکے پر کچوکا دے رہا ہوتا ہے خُداوند کی بخشی ہُوئی مکتی، جان کے کفارے میں، ان کا بھی مقدر بن جاتی ہے۔ ایک مرتبہ اور مگر اس دفعہ بہ نظرِ غائر گیارھویں تھِیم کے سیکشن3 

صفحہ123 کے جزو4، 5 اور6 کا مطالعہ کیجیے۔ شکریہ Christian Perspective

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?