سُوال نمبر15:
اگر اپنی صلیبی موت میں آپ کے خُدا کی اپنی منشا اور مصلحت پنہاں تھی پِھر تو اسے یہُودیوں اور گورنر (صوبیدار پنطُس پلاطُوس) کا سپاس گزار ہونا چاہیے تھا نا؟ ذرا وضاحت فرمائیں گے ان اصطلاحات کے بارے میں جو مسیحی تاریخ کے ورق ورق پر بکھری پڑی ہیں۔ مثلاً معبُود کُش لوگ (وہ کہ جنھوں نے خُدا کو موت کے گھاٹ اُتارا) یعنی قوم۔ راندے گئے (وہ جو ذلیل و خوار کر کے نکالے گئے)۔
کو جدید عربی زبانوں میں بہُت رواج ملا ہے؟ (deicide)اس کا کیا جواز کہ معبُود کُش کی اصطلاح
جواب:۔ بہتر ہو گاکہ تھِیم3 کے مندرجہ ذیل پیراگراف ایک مرتبہ آپ کی نظر سے ضرُور گُذر جائیں
کے جزو2.1،2.2 اور2.3، اس کے علاوہ اسی تھِیم کا Cross, Sin, Redemption 3
کے الفاظ سے۔ اس کا بھی مطالعہ فرمائیے گا۔The Crucification of Jesusسیکشن4جو شُرُوع ہوتا ہے
مزید برآں، یہ بھی ذہن میں رکھنے کی بات ہے کہ لوگوں نے ہولی کرائسٹ کو مجُرم قرار دے دیا اور پاداش موت ٹھہرائی گئی۔ رومن قانون کے تحت جو رائج طریقہ تھا وُہ مصلُوب کِیا جانا تھا اُن اعمال کے لیے جن کے لیے خُداوند کو ملزم بل کہ مجُرم ٹھہرا دیا گیا۔ پایانِ کار اسے صلیبی موت سے گُذرنا پڑا جس کا جواز خُداوند یسُّوع کے وُہ رویّے تھے جو عُمر بھر خُدا کے بارے میں اور صیہونی قوانین بل کہ ان کی مُقدّس کتاب توریت کے خلاف سمجھے گئے۔ دُنیا، اس کا کیا ہے، اور پِھر وُہ کیسے گوارا کر لیتی کہ خُداوند یسُّوع مسیح اس کے گُناہ آلود اور بے ہنگم نظام کی ہیئتِ ترکیبی پر شدید اساسی تنقید سرِ عام کرتا پِھرے۔ بدی کی طاقتوں نے خُداوند کو نشانے پر رکھ لیا۔اُسے بھی ان تمام طاغوتی طاقتوں کے خلاف چومکھی لڑائی لڑنا پڑی۔ نفرت و عناد، بغض و کینہ، حق تلفی و نا انصافی، حسد و رقابت، خُود غرضی و مطلب پرستی، حقوقِ الٰہی اور اپنے فرائضِ بندگی سے پہلو تہی کرنے کے لیے ابلیسی بہکاووں میں آجانا، ان سب برائیوں نے یسُّوع پاک پر یلغار کر دی، انھی آلایشوں کا دُنیا پر راج تھا، اور اب بھی ہے۔
پس، خُداوند یسُّوع مسیح کے قتل کا الزام یہُودیوں اور محض یہُودیوںپر دھر دینا بھی پاپ کی حد تک غلط فہمی کے ارتکاب کے زمرے میںآتا ہے۔ جس جس نے بھی خُداوند یسُّوع مسیح کو جھٹلایا اور اس کے خلاف ظلم و جبر پر مبنی فیصلے کی تائید کی (جب کہ چُپ رہنابھی ظالم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے)، نتیجہ یہ کہ جو خُداوند پر رومیوں نے دفعات قائم کیں اور سولی پر بھی چڑھا دیا اس ستم میں سب حصہ دار نکلے۔ گویا اس بے انصافی کے ہم سب مرتکب ہوئے، اکیلے یہُودیوں پر کیا دوش۔ دُوسری ویٹی کن کونسل نے
(Declaration on the Relation of the Church to Non-Christian Religions)
( ڈیکلیریشن آن دی ریلیشن آف دی چرچ ٹو نان کرسچین ریلجنز)
نمبر4ملاحظہ ہو Nostra Aetateمیں طے کر دیاہے، حوالہ کے لیے
بے شک، صیہونی اربابِ اختیار نے خُداوند یسُّوع مسیح کو مصلُوب کر دیے جانے پر اصرار کِیا اور اور لوگ بھی تھے جنھوں نے یہُود کی ہاں میں ہاں ملائی (حوالہ نمبر13)۔ اس کے باوُجُود مصائبِ مسیح جس جس طرح اور جو جو اُس پر بیتے اُن کی ذِمّہ داری تمام کی تمام، تمام کے تمام یہُودیوں پر نہِیں ڈالی جا سکتی۔ جو اس وقت حیات تھے اور لمحہء موجُود میں زندہ ہیں، ایسے بھی تھے اور ہیں جو بلا امتیازبے قصور تھے اور بے قصور ہیں۔ کلیسیا خُدا کی نئی امت ہے، بجا۔ یہُودیوں کو بھی مطعون ومردود امت کہا جائے نہ جلال والے خُدا کی طرف سے اُنھیں راندئہ درگاہ سمجھا جائے۔ مُقدّس صحائف میں اس کی تصدیق بھی موجُود ہے۔ خبردار! مقامِ احتیاط ہے۔ امور متعلُّق مسیحی تعلیم ہوں یا بائبل مُقدّس کے تبلیغی فرائض کی ادائی کی خدمات، یہُودیت مسیحیت کے کہیں آڑے نہِیں آتی۔ وُہ ایسا کوئی کلمہ ادا نہِیں کرتے جو انجیلی صداقتوں کے برعکس ہو۔ اور نہ ہی وُہ اپنی تعلیمات میں پاک اقومانی رُوح کے پیغام کی نفی کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں چرچ کی طرف سے کِسی بھی آدمی کے لیے کِسی بھی نوع کی ایذا رسانی کے عمل کو ہمیشہ ناپسندیدگی کی نِگاہ سے دیکھاگیا ہے۔ چہ جاے کہ یہُودیوں کے ساتھ تو رُوحانی وراثت میں پروئے ہونے کے سبب، (نہ کہ سیاسی وجوہ سے تحریک پا کر)، انجیل مُقدّس سے عقیدت و احترام کا رویّہ رکھنے کی بنا پر چرچ نے یہُودیوں کے خلاف نفرت کا اِظہار کرنے والوں کے فعلِ قبیح کی مذمت ہی کی ہے اور ان پر جور و ستم ڈھانے کی روش کی حوصلہ شکنی کو ہمیشہ مقدم جانا ہے۔ صیہونِیّت مخالف جذبات کی بیخ کنی کلیسیا کا خاصہ رہا ہے، چُناں چہ ایسی ریلیاں جن کی زد میں یہُودی آتے ہوں اور وُہ کہیں بھی، کبھی بھی نکالی گئی ہوں مسیحیت ایسے مظاہروں اور احتجاجوں سے دُور دُور ہی رہی ہے۔
اور یہ بات بھی اپنی جگہ دُرُست ہے کلیسیا کا ہمیشہ سے یہ موقّف رہا، اور اب بھی ہے کہ موت کی سولی پر لٹک جانے تک پُوراعرصہء دُنیاوی حیات میں جو پاک خُداوند یسُّوع مسیح نے دُکھ، تکالیف اور اذیتیں اُٹھائیں، ظلم و ستم اپنی جان پر سہے، وُہ گنہگار اِنسانوں کے گُناہوں کا کفارہ تھا، خُداوند کا غیر فانی اُنس اور اپنے اُمتیوں کے لیے بل کہ پوری نسلِ اِنسانی کے لیے لا محدود مَحَبّت ہی تھی جس نے سب کی مکتی کی خاطر، سبھی کو اپنی آغوشِ شفقت و رحمت میں سمیٹ لیا۔ نجات سب کا مقدر بن گئی۔ چرچ اپنی ذِمّہ داری پوری طرح نِبھا رہا ہے۔ اِس دعوے کے ساتھ کہ صلیبِ مسیحا خُداے قُدُّوس کی اُس بھرپور مَحَبّت کی نشانی ہے جس نے کائنات کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے اور توفیقِ بے استحقاق کا فوارہ ہے جو پورے کا پُورا تمام اِنسانوں کے لیے خُداوند کی رحمت و برکت اور مَحَبّت سے معمور اُبلا، اُچھلا پڑ رہا ہے اور ہمیشہ جاری و ساری رہے گا۔
اب تو اُمِّید ہے واضح ہو گیا ہو گا کہ جن نعروں اور اسلوبِ بیان کا اِظہار اِس تفصیلی جواب کے سُوال میں کِیا گیا تھا وُہ تو کیتھولک مسیحی تعلیمات سے لگّا ہی نہِیں کھاتے۔ وُہ تو مسیحی کیتھولک عقائد سے متعلُّق ہی نہِیں ہیں۔ بل کہ وُہ تو ان کے سراسر برعکس ہیں اور ان کی تو سرے سے حوصلہ شکنی ہونا ضرُوری ہے۔