:سوال نمبر119
۔اگر، حضورِ والا، کیتھولک مسیحیوں کو دانستہ تدابیر کے ذریعے حمل روکنے کی خاطر مانع حمل آلہ یا دافع حمل تراکیب کے استعمال سے منع کر دیا گیا ہے تو کیتھولک ممالک کی شرحِ آبادی کیوں گرتی چلی جا رہی ہے؟
جواب:۔جہاں تک ضبطِ تولید کا سوال ہے، اس پر کلیسیا کا واضح مؤقف ہے۔ مسیحی عقیدہ میں رہتے ہوئے کلیسیا کے سماجی اصول و تعلیم کا خلاصہ (روم،2006عیسوی) جس کا عنوان ہے ''زندگی کا تقدس خاندان میں ہے اور وہی اس کا محافظ ہے'' اس دستاویز کے آرٹیکلز230تا237 کا مطالعہ کیجیے تو آپ کو پتا چلے گا۔ مثلاً۔۔۔۔۔۔
232۔ بڑے ممتاز انداز میں فیملی سماجی بہبود میں اپنا حصہ باقاعدگی سے بٹاتی رہتی ہے، ذمہ دارانہ مامتا اور پدری شفقت و فرض شناسی کے ذریعے۔ خُدا کے تخلیقی کام میں تو میاں بیوی کی شمولیت و عمل ایک خاص مقام کا درجہ رکھتے ہیں۔ میاں بیوی کی اس ذمہ داری کو ایک خاص تعلُّق، وظیفہء زوجیت کے پردے میں خود غرضانہ طور عارضی راحت و سکون کے لیے حق بجانب ہونے کی دلیل بناکر اسے جبلّی لطف و نشاط کا عمل نہ بنا لینا چاہیے۔ بل کہ اسے ایک مذہبی فریضہ، معاشرتی ذمہ داری اور ازدواجی زندگی کا ایک لاحقہ سمجھتے ہوئے ادا کرنا چاہیے۔ طبعی صورتِ حالات، اقتصادی، نفسیاتی اور معاشرتی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے فرض شناس والدین اپنی ذمہ د اریوں کا احساس کرتے ہیں اور ہر پہلو پر غور کے بعد معقولیت والا فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اُنھوں نے ایک بڑا کنبہ پالنا بساناہے، اور اگر کوئی ایسی خاص وجوہ ہوں تو اخلاقی قدغنوں اور اصولوں کا احترام کرتے ہوئے، عارضی وقفہ بھی لے سکتے ہیں، پھر یہ بھی کہ بطور آخری حل اس دنیا میں ایک نئے بچے کو لانے کے سامان کا پلان بھی عمل میں لا سکتے ہیں۔ ذمہ دارانہ مادریّت اور پدرانہ پن کے باوصف دونوں علّت و معلول کو سامنے رکھتے ہوئے بل کہ اُنھیں جواز بنا کر، ان جوازات کی تحریک سے خُدا کے حضور اپنے فرائض کو پہچانیں اور اس کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اقدار کی کلیسیائی رہنمائی میں، اپنے بارے میں، فیملی کے لیے اور معاشرے، سوسائٹی میں جو فرائض ان کے ذمہ ہیں انھیں نبھانے کی سعی کریں۔
233۔ ذمہ دارانہ عملِ تولید کے لیے جو طریقے ہیں ان پر عمل کرنے کے ضمن میں پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ انتہائی غیر اخلاقی و ناجائز حرکت ہے کہ قدرت کی طرف سے عطا کردہ صلاحیت کے تحت ایک فطرتی عمل کو پورا ہونے دینے کے بجاے اپنے آپ کو بانجھ کروا لینا، بارآوری کی صلاحیت ختم کروانا اور تو اور یہ کہ ارادی اسقاطِ حمل کا خطرناک عمل قبول کر لیا جائے۔ یہ حمل گروانے ولا عمل تو خوفناک جرم ہے، اخلاقی انتشار و پراگندگی اور فطری وظائف میں خلل پیدا کرتا ہے۔ ایسے عمل کو حق شمار کرنا حماقت ہے۔ یہ تو افسوسناک صورتِ حالات ہے۔ اس سے ایسی ذہنیت کو فروغ ملتا ہے جو زندگی کی نفی کرتی ہے۔ صحیح جمہوری معاشرتی وجودِ باہمی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، محتاط ہو جانا چاہیے۔
ہم خبردار کررہے ہیں کہ ایسے تمام مانع حمل طریقوں اور تکنیکوں سے باز رہنا چاہیے جن کی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ڈھکے چِھپے اور بعض اوقات کھُلے ڈُلے انداز میں تشہیر کر کے ترغیب دی جا رہی ہوتی ہے۔ حمل روکنے پہ مائل کرنے یا حمل کی رکاوٹ میں مددگار ادویات و آلات کو رد کرنے کے ہمارے مشورہ کی اساس اس راسخ اور اٹوٹ قسم کی معاملہ فہمی پر ہے جو انسان اور اس کے جنسی تقاضوں کا خاصا ہیں اور انسانیت کی نشوونما، پھلنے پھولنے، افزایشِ نسل اور خاندان کی طاقت و سماجی اثر و رسوخ کی نمایندگی کرتے ہیں۔ اسی طرح علم البشر کے ماہرین بتاتے ہیں کہ اینتھروپولوجیکل ترتیب و نظم میں جو اسباب نظر آتے ہیں وہ تائید کرتے ہیں جسمانی لطف یا لذت تک آسان رسائی کے باوجود رضاکارانہ طور پر اجتناب کے عمل کی اور یہ سودمند تبھی ہوتی ہے جب خاتون کے اولاد پید اکرنے کی صلاحیت والا سائیکل عروج پر ہوتا ہے۔ یعنی گردشی خاص ایّام کے فوری بعد۔ امتناعِ حمل کے لیے سب طور طریقے غلط ہیں،ناجائز ہیں، فطرت کے اصولوں کے منافی ہیں، کلیسیا کے احکامات کے برخلاف ہیں، بعض صورتوں میں تو اصلاً فعلِ قبیح اور بعض میں اخلاقی دیوالیہ پن ہی انھیں کہا جا سکتا ہے۔ چناں چہ اسقاطِ حمل یا روک سے باز آجانا چاہیے، عورت کے لیے جو قدرتی ایک سسٹم بنا دیا گیا ہے اسی پر بھروسا کرنے اور پروردگارِ عالم پر توکّل کرنے سے میاں بیوی کے رشتے میں خلوص، محبت، ہمدردی اور وفاداری کے جذبات کم ہیں تو اولاد کی برکت اور سبب سے بڑھتے ہیں، لائف سٹائل میں نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ معاشی حالات سدھرتے ہیں، باہمی احترام اور ایک دوسرے کو اون کرنے، ایک دوسرے کا خیال رکھنے کے جذبات کو تقویت ملتی ہے۔ بہتر تعلقات کے لیے اولاد ایک نعمت کا کردار ادا کرتی ہے۔ یاد رکھیں ہم متنبہ کیے دیتے ہیں کہ دافعِ حمل یا اسقاط وغیرہ کی ترکیبیں خواتین کی صحت، فزیک اور ہارمونز پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ بالکل وہی بات ہے کہ بچے ڈبوں کا، اوپر کا دودھ پی پی کے پل تو جاتے ہیں، خواتین اپنا دودھ بچے کو نہ پلا کر جو فائدے اُٹھانا چاہتی ہیں وہ بھی عارضی طور پر پورے ہوتے نظر آتے ہیں، مگر میڈیکل سائینس اسی پر زور دیتی ہے کہ ماں کا دودھ ہی بچے اور والدہ کے لیے بہتر بل کہ ضروری ہوتا ہے، اس کے فائدے مسلسل اور مستقل بنیادوں پر حاصل ہوتے ہیں۔ ورنہ وہی اکبر الٰہ آبادی والی تشخیص
طِفل سے بُو آئے کیا ماں باپ کے اطوار کی
دُودھ تو ڈِبّے کا ہے ، تعلیم ہے سرکار کی
مجھے آخری بات یہی کہنا ہے کہ ہاں، سوال میں آپ کے مشاہدے کو ہم چیلنج نہیں کرتے، شاید ملکی اور بین الاقوامی حالاتِ حاضرہ میں آپ کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے۔ اس کے باوجود آپ کی بات کا اتنا حصہ ہم ممکنات میں شامل کرتے ہیں کہ یہ بالکل ممکن ہے کہ دنیا کے چند ممالک ایسے ہیں کہ وہاں کے کیتھولکس کلیسیا کی تعلیم پر من و عن عمل پیرا نہیں ہوتے، بس جتنا جیسے تیسے سیکھ لیا اس پر قناعت کر کے بیٹھ رہے کہ بہت ہو گیا، اتنا بھی بہت ہے۔ جس طرف آپ نے سوال میں توجُّہ دلائی ہے وہ اس لحاظ سے درست ہے کہ، گڑبڑ تو ہے۔ بہ ہرحال مبلغین، دِینی خُدام، خواتین و مرد، بہ نفسِ نفیس اور بہ صورتِ میڈیا لوگوں کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرنے پہنچتے رہتے ہیں۔ اور یہ بھی ہے کہ کلیسیا کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ وہ اپنی تعلیمات، عقائد، اصولِ دین کے بارے میں اس بات کی محتاج نہیں کہ اکثریت اُنھیں قبول کرتی ہے تو سب ٹھیک ہے ورنہ پریشانی۔ چند لوگ مانتے ہیں یا سب مومنین، کلیسیا کا کام ہے تعلیم سب تک پہنچا دینا، محنت بھی جاری رہتی ہے کہ اس کے بتائے عقائد اور امر و نواہی پر عمل ہو، جبر و اکراہ نہیں، جس نے ماننا ہے اپنے بھلے کے لیے ماننا ہے۔ اپنا فرض پورا کرنے میں کلیسیا کوئی کوتاہی نہیں کرتی۔ چاہتی ہے بھلا ہو، سب کا بھلا۔ مسیحی کا بھی اور غیر مسیحی کا بھی۔
جہاں تک تعلُّق ہے کیتھولکس اکثریت والے ممالک کی شرحِ آبادی میں کمی بیشی کا، جیسے لاطینی امریکا، فلپائن اور افریقی ممالک، تو ہماری گزارش ہے کہ خاص، محدود حوالوں کو عام پر منطبق نہیں کرنا چاہیے۔ بہبودِ آبادی کا عمل جاری ہے اگر آبادی کا گراف کہِیں گرتا نظر آیا ہے تو اس کی کئی دیگر وجوہ ہو سکتی ہیں اور پھر یہ بھی محلِّ نظر رہے کہ تمام کیتھولک ریاستوں میں ایسا نہیں ہو رہا۔ آپ نے جو کلیہ بتایا ہے، وہ صحیح نہیں، اصلاح فرمائیے۔
:سوال نمبر119
۔اگر، حضورِ والا، کیتھولک مسیحیوں کو دانستہ تدابیر کے ذریعے حمل روکنے کی خاطر مانع حمل آلہ یا دافع حمل تراکیب کے استعمال سے منع کر دیا گیا ہے تو کیتھولک ممالک کی شرحِ آبادی کیوں گرتی چلی جا رہی ہے؟
جواب:۔جہاں تک ضبطِ تولید کا سوال ہے، اس پر کلیسیا کا واضح مؤقف ہے۔ مسیحی عقیدہ میں رہتے ہوئے کلیسیا کے سماجی اصول و تعلیم کا خلاصہ (روم،2006عیسوی) جس کا عنوان ہے ''زندگی کا تقدس خاندان میں ہے اور وہی اس کا محافظ ہے'' اس دستاویز کے آرٹیکلز230تا237 کا مطالعہ کیجیے تو آپ کو پتا چلے گا۔ مثلاً۔۔۔۔۔۔
232۔ بڑے ممتاز انداز میں فیملی سماجی بہبود میں اپنا حصہ باقاعدگی سے بٹاتی رہتی ہے، ذمہ دارانہ مامتا اور پدری شفقت و فرض شناسی کے ذریعے۔ خُدا کے تخلیقی کام میں تو میاں بیوی کی شمولیت و عمل ایک خاص مقام کا درجہ رکھتے ہیں۔ میاں بیوی کی اس ذمہ داری کو ایک خاص تعلُّق، وظیفہء زوجیت کے پردے میں خود غرضانہ طور عارضی راحت و سکون کے لیے حق بجانب ہونے کی دلیل بناکر اسے جبلّی لطف و نشاط کا عمل نہ بنا لینا چاہیے۔ بل کہ اسے ایک مذہبی فریضہ، معاشرتی ذمہ داری اور ازدواجی زندگی کا ایک لاحقہ سمجھتے ہوئے ادا کرنا چاہیے۔ طبعی صورتِ حالات، اقتصادی، نفسیاتی اور معاشرتی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے فرض شناس والدین اپنی ذمہ د اریوں کا احساس کرتے ہیں اور ہر پہلو پر غور کے بعد معقولیت والا فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اُنھوں نے ایک بڑا کنبہ پالنا بساناہے، اور اگر کوئی ایسی خاص وجوہ ہوں تو اخلاقی قدغنوں اور اصولوں کا احترام کرتے ہوئے، عارضی وقفہ بھی لے سکتے ہیں، پھر یہ بھی کہ بطور آخری حل اس دنیا میں ایک نئے بچے کو لانے کے سامان کا پلان بھی عمل میں لا سکتے ہیں۔ ذمہ دارانہ مادریّت اور پدرانہ پن کے باوصف دونوں علّت و معلول کو سامنے رکھتے ہوئے بل کہ اُنھیں جواز بنا کر، ان جوازات کی تحریک سے خُدا کے حضور اپنے فرائض کو پہچانیں اور اس کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اقدار کی کلیسیائی رہنمائی میں، اپنے بارے میں، فیملی کے لیے اور معاشرے، سوسائٹی میں جو فرائض ان کے ذمہ ہیں انھیں نبھانے کی سعی کریں۔
233۔ ذمہ دارانہ عملِ تولید کے لیے جو طریقے ہیں ان پر عمل کرنے کے ضمن میں پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ انتہائی غیر اخلاقی و ناجائز حرکت ہے کہ قدرت کی طرف سے عطا کردہ صلاحیت کے تحت ایک فطرتی عمل کو پورا ہونے دینے کے بجاے اپنے آپ کو بانجھ کروا لینا، بارآوری کی صلاحیت ختم کروانا اور تو اور یہ کہ ارادی اسقاطِ حمل کا خطرناک عمل قبول کر لیا جائے۔ یہ حمل گروانے ولا عمل تو خوفناک جرم ہے، اخلاقی انتشار و پراگندگی اور فطری وظائف میں خلل پیدا کرتا ہے۔ ایسے عمل کو حق شمار کرنا حماقت ہے۔ یہ تو افسوسناک صورتِ حالات ہے۔ اس سے ایسی ذہنیت کو فروغ ملتا ہے جو زندگی کی نفی کرتی ہے۔ صحیح جمہوری معاشرتی وجودِ باہمی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، محتاط ہو جانا چاہیے۔
ہم خبردار کررہے ہیں کہ ایسے تمام مانع حمل طریقوں اور تکنیکوں سے باز رہنا چاہیے جن کی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ڈھکے چِھپے اور بعض اوقات کھُلے ڈُلے انداز میں تشہیر کر کے ترغیب دی جا رہی ہوتی ہے۔ حمل روکنے پہ مائل کرنے یا حمل کی رکاوٹ میں مددگار ادویات و آلات کو رد کرنے کے ہمارے مشورہ کی اساس اس راسخ اور اٹوٹ قسم کی معاملہ فہمی پر ہے جو انسان اور اس کے جنسی تقاضوں کا خاصا ہیں اور انسانیت کی نشوونما، پھلنے پھولنے، افزایشِ نسل اور خاندان کی طاقت و سماجی اثر و رسوخ کی نمایندگی کرتے ہیں۔ اسی طرح علم البشر کے ماہرین بتاتے ہیں کہ اینتھروپولوجیکل ترتیب و نظم میں جو اسباب نظر آتے ہیں وہ تائید کرتے ہیں جسمانی لطف یا لذت تک آسان رسائی کے باوجود رضاکارانہ طور پر اجتناب کے عمل کی اور یہ سودمند تبھی ہوتی ہے جب خاتون کے اولاد پید اکرنے کی صلاحیت والا سائیکل عروج پر ہوتا ہے۔ یعنی گردشی خاص ایّام کے فوری بعد۔ امتناعِ حمل کے لیے سب طور طریقے غلط ہیں،ناجائز ہیں، فطرت کے اصولوں کے منافی ہیں، کلیسیا کے احکامات کے برخلاف ہیں، بعض صورتوں میں تو اصلاً فعلِ قبیح اور بعض میں اخلاقی دیوالیہ پن ہی انھیں کہا جا سکتا ہے۔ چناں چہ اسقاطِ حمل یا روک سے باز آجانا چاہیے، عورت کے لیے جو قدرتی ایک سسٹم بنا دیا گیا ہے اسی پر بھروسا کرنے اور پروردگارِ عالم پر توکّل کرنے سے میاں بیوی کے رشتے میں خلوص، محبت، ہمدردی اور وفاداری کے جذبات کم ہیں تو اولاد کی برکت اور سبب سے بڑھتے ہیں، لائف سٹائل میں نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ معاشی حالات سدھرتے ہیں، باہمی احترام اور ایک دوسرے کو اون کرنے، ایک دوسرے کا خیال رکھنے کے جذبات کو تقویت ملتی ہے۔ بہتر تعلقات کے لیے اولاد ایک نعمت کا کردار ادا کرتی ہے۔ یاد رکھیں ہم متنبہ کیے دیتے ہیں کہ دافعِ حمل یا اسقاط وغیرہ کی ترکیبیں خواتین کی صحت، فزیک اور ہارمونز پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ بالکل وہی بات ہے کہ بچے ڈبوں کا، اوپر کا دودھ پی پی کے پل تو جاتے ہیں، خواتین اپنا دودھ بچے کو نہ پلا کر جو فائدے اُٹھانا چاہتی ہیں وہ بھی عارضی طور پر پورے ہوتے نظر آتے ہیں، مگر میڈیکل سائینس اسی پر زور دیتی ہے کہ ماں کا دودھ ہی بچے اور والدہ کے لیے بہتر بل کہ ضروری ہوتا ہے، اس کے فائدے مسلسل اور مستقل بنیادوں پر حاصل ہوتے ہیں۔ ورنہ وہی اکبر الٰہ آبادی والی تشخیص
طِفل سے بُو آئے کیا ماں باپ کے اطوار کی
دُودھ تو ڈِبّے کا ہے ، تعلیم ہے سرکار کی
مجھے آخری بات یہی کہنا ہے کہ ہاں، سوال میں آپ کے مشاہدے کو ہم چیلنج نہیں کرتے، شاید ملکی اور بین الاقوامی حالاتِ حاضرہ میں آپ کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے۔ اس کے باوجود آپ کی بات کا اتنا حصہ ہم ممکنات میں شامل کرتے ہیں کہ یہ بالکل ممکن ہے کہ دنیا کے چند ممالک ایسے ہیں کہ وہاں کے کیتھولکس کلیسیا کی تعلیم پر من و عن عمل پیرا نہیں ہوتے، بس جتنا جیسے تیسے سیکھ لیا اس پر قناعت کر کے بیٹھ رہے کہ بہت ہو گیا، اتنا بھی بہت ہے۔ جس طرف آپ نے سوال میں توجُّہ دلائی ہے وہ اس لحاظ سے درست ہے کہ، گڑبڑ تو ہے۔ بہ ہرحال مبلغین، دِینی خُدام، خواتین و مرد، بہ نفسِ نفیس اور بہ صورتِ میڈیا لوگوں کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرنے پہنچتے رہتے ہیں۔ اور یہ بھی ہے کہ کلیسیا کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ وہ اپنی تعلیمات، عقائد، اصولِ دین کے بارے میں اس بات کی محتاج نہیں کہ اکثریت اُنھیں قبول کرتی ہے تو سب ٹھیک ہے ورنہ پریشانی۔ چند لوگ مانتے ہیں یا سب مومنین، کلیسیا کا کام ہے تعلیم سب تک پہنچا دینا، محنت بھی جاری رہتی ہے کہ اس کے بتائے عقائد اور امر و نواہی پر عمل ہو، جبر و اکراہ نہیں، جس نے ماننا ہے اپنے بھلے کے لیے ماننا ہے۔ اپنا فرض پورا کرنے میں کلیسیا کوئی کوتاہی نہیں کرتی۔ چاہتی ہے بھلا ہو، سب کا بھلا۔ مسیحی کا بھی اور غیر مسیحی کا بھی۔
جہاں تک تعلُّق ہے کیتھولکس اکثریت والے ممالک کی شرحِ آبادی میں کمی بیشی کا، جیسے لاطینی امریکا، فلپائن اور افریقی ممالک، تو ہماری گزارش ہے کہ خاص، محدود حوالوں کو عام پر منطبق نہیں کرنا چاہیے۔ بہبودِ آبادی کا عمل جاری ہے اگر آبادی کا گراف کہِیں گرتا نظر آیا ہے تو اس کی کئی دیگر وجوہ ہو سکتی ہیں اور پھر یہ بھی محلِّ نظر رہے کہ تمام کیتھولک ریاستوں میں ایسا نہیں ہو رہا۔ آپ نے جو کلیہ بتایا ہے، وہ صحیح نہیں، اصلاح فرمائیے۔
:سوال نمبر119
۔اگر، حضورِ والا، کیتھولک مسیحیوں کو دانستہ تدابیر کے ذریعے حمل روکنے کی خاطر مانع حمل آلہ یا دافع حمل تراکیب کے استعمال سے منع کر دیا گیا ہے تو کیتھولک ممالک کی شرحِ آبادی کیوں گرتی چلی جا رہی ہے؟
جواب:۔جہاں تک ضبطِ تولید کا سوال ہے، اس پر کلیسیا کا واضح مؤقف ہے۔ مسیحی عقیدہ میں رہتے ہوئے کلیسیا کے سماجی اصول و تعلیم کا خلاصہ (روم،2006عیسوی) جس کا عنوان ہے ''زندگی کا تقدس خاندان میں ہے اور وہی اس کا محافظ ہے'' اس دستاویز کے آرٹیکلز230تا237 کا مطالعہ کیجیے تو آپ کو پتا چلے گا۔ مثلاً۔۔۔۔۔۔
232۔ بڑے ممتاز انداز میں فیملی سماجی بہبود میں اپنا حصہ باقاعدگی سے بٹاتی رہتی ہے، ذمہ دارانہ مامتا اور پدری شفقت و فرض شناسی کے ذریعے۔ خُدا کے تخلیقی کام میں تو میاں بیوی کی شمولیت و عمل ایک خاص مقام کا درجہ رکھتے ہیں۔ میاں بیوی کی اس ذمہ داری کو ایک خاص تعلُّق، وظیفہء زوجیت کے پردے میں خود غرضانہ طور عارضی راحت و سکون کے لیے حق بجانب ہونے کی دلیل بناکر اسے جبلّی لطف و نشاط کا عمل نہ بنا لینا چاہیے۔ بل کہ اسے ایک مذہبی فریضہ، معاشرتی ذمہ داری اور ازدواجی زندگی کا ایک لاحقہ سمجھتے ہوئے ادا کرنا چاہیے۔ طبعی صورتِ حالات، اقتصادی، نفسیاتی اور معاشرتی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے فرض شناس والدین اپنی ذمہ د اریوں کا احساس کرتے ہیں اور ہر پہلو پر غور کے بعد معقولیت والا فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اُنھوں نے ایک بڑا کنبہ پالنا بساناہے، اور اگر کوئی ایسی خاص وجوہ ہوں تو اخلاقی قدغنوں اور اصولوں کا احترام کرتے ہوئے، عارضی وقفہ بھی لے سکتے ہیں، پھر یہ بھی کہ بطور آخری حل اس دنیا میں ایک نئے بچے کو لانے کے سامان کا پلان بھی عمل میں لا سکتے ہیں۔ ذمہ دارانہ مادریّت اور پدرانہ پن کے باوصف دونوں علّت و معلول کو سامنے رکھتے ہوئے بل کہ اُنھیں جواز بنا کر، ان جوازات کی تحریک سے خُدا کے حضور اپنے فرائض کو پہچانیں اور اس کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اقدار کی کلیسیائی رہنمائی میں، اپنے بارے میں، فیملی کے لیے اور معاشرے، سوسائٹی میں جو فرائض ان کے ذمہ ہیں انھیں نبھانے کی سعی کریں۔
233۔ ذمہ دارانہ عملِ تولید کے لیے جو طریقے ہیں ان پر عمل کرنے کے ضمن میں پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ انتہائی غیر اخلاقی و ناجائز حرکت ہے کہ قدرت کی طرف سے عطا کردہ صلاحیت کے تحت ایک فطرتی عمل کو پورا ہونے دینے کے بجاے اپنے آپ کو بانجھ کروا لینا، بارآوری کی صلاحیت ختم کروانا اور تو اور یہ کہ ارادی اسقاطِ حمل کا خطرناک عمل قبول کر لیا جائے۔ یہ حمل گروانے ولا عمل تو خوفناک جرم ہے، اخلاقی انتشار و پراگندگی اور فطری وظائف میں خلل پیدا کرتا ہے۔ ایسے عمل کو حق شمار کرنا حماقت ہے۔ یہ تو افسوسناک صورتِ حالات ہے۔ اس سے ایسی ذہنیت کو فروغ ملتا ہے جو زندگی کی نفی کرتی ہے۔ صحیح جمہوری معاشرتی وجودِ باہمی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، محتاط ہو جانا چاہیے۔
ہم خبردار کررہے ہیں کہ ایسے تمام مانع حمل طریقوں اور تکنیکوں سے باز رہنا چاہیے جن کی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ڈھکے چِھپے اور بعض اوقات کھُلے ڈُلے انداز میں تشہیر کر کے ترغیب دی جا رہی ہوتی ہے۔ حمل روکنے پہ مائل کرنے یا حمل کی رکاوٹ میں مددگار ادویات و آلات کو رد کرنے کے ہمارے مشورہ کی اساس اس راسخ اور اٹوٹ قسم کی معاملہ فہمی پر ہے جو انسان اور اس کے جنسی تقاضوں کا خاصا ہیں اور انسانیت کی نشوونما، پھلنے پھولنے، افزایشِ نسل اور خاندان کی طاقت و سماجی اثر و رسوخ کی نمایندگی کرتے ہیں۔ اسی طرح علم البشر کے ماہرین بتاتے ہیں کہ اینتھروپولوجیکل ترتیب و نظم میں جو اسباب نظر آتے ہیں وہ تائید کرتے ہیں جسمانی لطف یا لذت تک آسان رسائی کے باوجود رضاکارانہ طور پر اجتناب کے عمل کی اور یہ سودمند تبھی ہوتی ہے جب خاتون کے اولاد پید اکرنے کی صلاحیت والا سائیکل عروج پر ہوتا ہے۔ یعنی گردشی خاص ایّام کے فوری بعد۔ امتناعِ حمل کے لیے سب طور طریقے غلط ہیں،ناجائز ہیں، فطرت کے اصولوں کے منافی ہیں، کلیسیا کے احکامات کے برخلاف ہیں، بعض صورتوں میں تو اصلاً فعلِ قبیح اور بعض میں اخلاقی دیوالیہ پن ہی انھیں کہا جا سکتا ہے۔ چناں چہ اسقاطِ حمل یا روک سے باز آجانا چاہیے، عورت کے لیے جو قدرتی ایک سسٹم بنا دیا گیا ہے اسی پر بھروسا کرنے اور پروردگارِ عالم پر توکّل کرنے سے میاں بیوی کے رشتے میں خلوص، محبت، ہمدردی اور وفاداری کے جذبات کم ہیں تو اولاد کی برکت اور سبب سے بڑھتے ہیں، لائف سٹائل میں نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ معاشی حالات سدھرتے ہیں، باہمی احترام اور ایک دوسرے کو اون کرنے، ایک دوسرے کا خیال رکھنے کے جذبات کو تقویت ملتی ہے۔ بہتر تعلقات کے لیے اولاد ایک نعمت کا کردار ادا کرتی ہے۔ یاد رکھیں ہم متنبہ کیے دیتے ہیں کہ دافعِ حمل یا اسقاط وغیرہ کی ترکیبیں خواتین کی صحت، فزیک اور ہارمونز پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ بالکل وہی بات ہے کہ بچے ڈبوں کا، اوپر کا دودھ پی پی کے پل تو جاتے ہیں، خواتین اپنا دودھ بچے کو نہ پلا کر جو فائدے اُٹھانا چاہتی ہیں وہ بھی عارضی طور پر پورے ہوتے نظر آتے ہیں، مگر میڈیکل سائینس اسی پر زور دیتی ہے کہ ماں کا دودھ ہی بچے اور والدہ کے لیے بہتر بل کہ ضروری ہوتا ہے، اس کے فائدے مسلسل اور مستقل بنیادوں پر حاصل ہوتے ہیں۔ ورنہ وہی اکبر الٰہ آبادی والی تشخیص
طِفل سے بُو آئے کیا ماں باپ کے اطوار کی
دُودھ تو ڈِبّے کا ہے ، تعلیم ہے سرکار کی
مجھے آخری بات یہی کہنا ہے کہ ہاں، سوال میں آپ کے مشاہدے کو ہم چیلنج نہیں کرتے، شاید ملکی اور بین الاقوامی حالاتِ حاضرہ میں آپ کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے۔ اس کے باوجود آپ کی بات کا اتنا حصہ ہم ممکنات میں شامل کرتے ہیں کہ یہ بالکل ممکن ہے کہ دنیا کے چند ممالک ایسے ہیں کہ وہاں کے کیتھولکس کلیسیا کی تعلیم پر من و عن عمل پیرا نہیں ہوتے، بس جتنا جیسے تیسے سیکھ لیا اس پر قناعت کر کے بیٹھ رہے کہ بہت ہو گیا، اتنا بھی بہت ہے۔ جس طرف آپ نے سوال میں توجُّہ دلائی ہے وہ اس لحاظ سے درست ہے کہ، گڑبڑ تو ہے۔ بہ ہرحال مبلغین، دِینی خُدام، خواتین و مرد، بہ نفسِ نفیس اور بہ صورتِ میڈیا لوگوں کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرنے پہنچتے رہتے ہیں۔ اور یہ بھی ہے کہ کلیسیا کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ وہ اپنی تعلیمات، عقائد، اصولِ دین کے بارے میں اس بات کی محتاج نہیں کہ اکثریت اُنھیں قبول کرتی ہے تو سب ٹھیک ہے ورنہ پریشانی۔ چند لوگ مانتے ہیں یا سب مومنین، کلیسیا کا کام ہے تعلیم سب تک پہنچا دینا، محنت بھی جاری رہتی ہے کہ اس کے بتائے عقائد اور امر و نواہی پر عمل ہو، جبر و اکراہ نہیں، جس نے ماننا ہے اپنے بھلے کے لیے ماننا ہے۔ اپنا فرض پورا کرنے میں کلیسیا کوئی کوتاہی نہیں کرتی۔ چاہتی ہے بھلا ہو، سب کا بھلا۔ مسیحی کا بھی اور غیر مسیحی کا بھی۔
جہاں تک تعلُّق ہے کیتھولکس اکثریت والے ممالک کی شرحِ آبادی میں کمی بیشی کا، جیسے لاطینی امریکا، فلپائن اور افریقی ممالک، تو ہماری گزارش ہے کہ خاص، محدود حوالوں کو عام پر منطبق نہیں کرنا چاہیے۔ بہبودِ آبادی کا عمل جاری ہے اگر آبادی کا گراف کہِیں گرتا نظر آیا ہے تو اس کی کئی دیگر وجوہ ہو سکتی ہیں اور پھر یہ بھی محلِّ نظر رہے کہ تمام کیتھولک ریاستوں میں ایسا نہیں ہو رہا۔ آپ نے جو کلیہ بتایا ہے، وہ صحیح نہیں، اصلاح فرمائیے۔