:سوال نمبر116
۔مسلمانوں سے آپ لوگ بڑی مخاصمت رکھتے ہیں، یہ تو کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، مگر یہ تو بتائیں جناب! آرتھوڈاکس مسیحیوں سے کیا بَیر تھا کہ صلیبی جنگوں میں آپ اُن کا بھی قتلِ عام کرتے رہے؟
اُن سے اتنی نفرت!!! آخر کیوں؟ وہ تو راسخ العقیدہ ہونے کے ہمیشہ داعی رہے ہیں۔
جواب:1۔اِس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ ماضی میں مسلم مسیحی تعلقات دینی فلسفہ میں بنیادی اختلافات کے سبب معاندانہ رویوں پر مبنی رہے۔ اپنی اشاعتِ خاص ''غیر مسیحی مذاہب کے ساتھ کلیسیا کے تعلقات'' کے اعلامیہ نوسترا ایتات3میں کیتھولک کلیسیا نے تمام کیتھولک مسیحیوں کے لیے کھلم کھلا اعلان کر دیا تھا (اور اس پر عملدرآمد کی پابندی کی بھی تاکید کر دی تھی) کہ کلیسیا مسلمانوں کے بارے میں بھی کوئی بُری راے نہیں رکھتی، ان کا احترام کرتی ہے جس کی تقلید کی جائے۔ مسلمان بھی ایک ہی خُدا کی پرستش کرتے ہیں، اس خُدا کی جو زندہ ہے، جو غنی ہے، کِسی کا محتاج ہرگز نہیں، رحم کرنے والا ہے۔ زبردست ہے، قوی و قادر۔ اس کائنات، اس ارض و سما کا خالق مالک ہے اور وہ انسانوں سے بھی متکلم ہوا۔
2:۔سوال کے دوسرے حصہ کے سلسلے میں ہم آپ کی توجُّہ مندرجہ ذیل کی طرف مبذول کرواتے ہیں:
کیتھولک صلیبی جنگ آزماؤں نے 1204عیسوی میں قسطنطنیہ (استنبول) فتح کر لیا تھا۔ انھوں نے قسطنطنیہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ تاخت و تاراج کردی۔۔۔۔۔۔ اس شہر کی جو اُن دنوں یونانی آرتھوڈاکس یعنی ابتدائی کلیسیائی مروّجہ اصولوں پر راسخ لوگوںکا مثالی مرکز تھا۔ بازنطینی سلطنت کا یہ دارالخلافہ اس عظیم صدمہ سے ابھی پورے طور پر باہر ہی نہ آپایا تھا کہ عثمانیوں نے 1453عیسوی میں اس پر قبضہ جما لیا۔
سنہ 2000عیسوی کے مبارک جمعہ کے روز بین اکلیسیائی وحدت (پاک بدنِ مسیح میں وحدت) کے خلاف روا رکھے گئے گناہوں کا واشگاف لفظوں میں سب کے سامنے اعتراف کِیا گیا:
رومی مجلسِ اعیان کی نمایندگی کرتے ہوئے جناب رئیس اسقف راجر ایچیگارے، پریذیڈنٹ سنٹرل کمیٹی نے 2000عیسوی کے سالِ غفران یعنی سنہ دوہزار میں منائے جانے والے عظیم جشن (گریٹ جوبلی) کے موقع پر اپنے خطبہء استقبالیہ کی ابتدا یوں کی:
آئیے! ہم سب مل کر دُعا کریں، ہم نے اپنے جن گناہوں کو تسلیم کر لیا ان کی وجہ سے مسیح پاک کے بدنِ مبارک کا اتحاد پارہ پارہ ہوا تھا اور بردرانہ محبت جو محبتِ الٰہی تھی اسے ہم سے نقصان پہنچا اور وہ زخم زخم ہوئی۔ ہمارے گناہوں کے اقبال پر، ندامت بھرے اعتراف پر ہم دعا کرتے ہیں کہ مسیحی رفاقت و شراکت، میل و مصالحت میں آسانی پیدا ہو جائے!
(سکوتِ خاموش دعا طاری ہوتا ہے)
خداوند قدوس!
اے خُداے رحیم و مہربان!
مسیح کے دُکھ۔۔۔۔۔۔ اذیت و آلام
ختم ہونے سے ایک شب پہلے
وہ جو فرزندِ ارجمند ہے تیرا
جانتا تھا نفاق کا انجام
اُس نے داماں کو تھام کر تیرے
تجھ سے خلوت میں اک تمنّا کی
اتحادِ مسیحیت کے لیے
۔۔۔۔۔۔ اُس کی منشا اور اُس کے فرماں کے،
جو ہُوا، برخلاف ہُوا
زیرِ تلوار تھے گلے سب کے
۔۔۔۔۔۔ دِل کا آئینہ بال بال تھا جب
آبگینوں میں سب کے تھا زہر آب
تھے وہ تقسیم۔۔۔۔۔۔ فرقوں فرقوں میں
ہم کہ تیرے ہیں ماننے والے
تجھ سے التجائیں کرتے ہیں
ہم ہیں تیرے ہی چاہنے والے، کیے پہ اپنے بہت ہی نادم ہیں
عفو پہ تیرے تکیہ اپنا ہے
بخش دے تیرا جاتا ہی کیا ہے
۔۔۔۔۔۔ مفاہمت کا۔۔۔۔۔۔ تجھ سے وعدہ ہے
مفاہمت کا سبھی سے وعدہ ہے
سب مسیحی کہ آج زندہ ہیں
وہی پہلا سا اُن میں ایکاہے
بالا ہو کر تفرقات سے، ربّا!
نئی رفاقتوں کا یقیں دلاتے ہیں
جان و جسم و رُوح اور دِل سے
تیرے مسیح کے مومن
اُسی کا واسطہ دے کر
تری رضا کے طالب ہیں
تری مدد کے جُویا ہیں
مددی یا خُدا، مددی!
(اے خُدا ہماری دعا قبول فرما!)
بعد میں، اپنے دورئہ یونان کے دوران جو 2001عیسوی کے ماہ مئی کی 4اور 5تاریخوں کو کِیا گیا جناب تقدس مآب پوپ جان پال ثانی نے کلیسیا کے بھٹکے ہوئے (بے ہدایتے) فرزندان و دُختران کی بھول چوک، خطاؤں اور گناہوں کے حوالے سے اپنے خطبہ کے دوران قریباً آٹھ سو سال گذرنے کے بعد دیر آید، درست آید کی مثال، اعتراف کے ساتھ ساتھ اظہارِ ندامت بھی کِیا اور دِل سے کِیا۔
1204عیسوی کے حالات وواقعات کی بازبینی کئی گئی اور پھر جناب پرتقدس پوپ انوسینٹ سوم کے کردار پر جو اُنھوں نے ادا کِیا اور کیتھولک کلیسیا کا رول جو مِن جُملہ طور ادا کِیا گیا اُس پر تقدس مآب پوپ جان پال ثانی نے بات کی، جو ضروری تھی کیوں کہ وہ بالواسطہ حوالے بنتے تھے بہت سے سوالوں کے جنھیں تاریخ1204عیسوی سے 2001عیسوی تک مسلسل دُہراتی آ رہی تھی۔
1198عیسوی میں منتخب ہونے کے فوراً بعد جناب پوپ انوسینٹ سوم نے، جو 1216 عیسوی تک ویٹی کن میں اس مقدس سیٹ پر متمکن رہے، چوتھی صلیبی جنگ کے آغاز کا طبل بجوا دیا۔ انھوں نے خادمانِ دین، منتظمینِ کیتھولک کلیسیا، فرانسس کے امرا و خواص کے علاوہ اطالیہ کے ساحلی شہوں کے باسیوں کے سامنے خطاب کِیا۔ سنہ بارہ سو دو میں مارگریو بونی فیس آف مونفرات، بالڈوِن ہفتم آف فلانڈیرس (بیلجیئم)، کاؤنٹ لُڈوگ فون بلوئس اور کئی دوسرے سورمے سمندری سفر طے کر کے مصر آ پہنچے۔ قرضوں کے بوجھ تلے دبے شرفا، امرا اور خواص نے قرضوں سے گلوخلاصی کے لالچ میں پوپ صاحب کی مرضی کے برخلاف اپنی من مانی کرتے ہوئے ڈالمیشیا کے ساحلی شہر اور بندرگاہ زارا (زادار) پر قبضہ جما کے لوٹ مار شروع کر دی اور حال آں کہ زارا 1186عیسوی سے ہی مرکز سے علیحدہ ہو کر صلیبی جنگجوؤں کا ساتھ دے رہا تھا۔ اپنے بھائی آئزک دوم کی درخواست درخورِ اعتنا گردانتے ہوئے (بھلے بھائی نے بھائی کو دیس نکالا دے رکھا تھا) شہنشاہ الیکسیئس سوم اور الیکسیئس چہارم جو اس کا بیٹا تھا، دونوں شاہِ جرمنی کی مدد سے اپنی صلیبی فوجیں لے کر قسطنطنیہ پر پِل پڑے، اسے فتح کِیاا ور1204عیسوی کے موسمِ بہار اس آباد و خوب صورت علاقے کو خزاں رسیدہ کر دیا۔ ایسی لوٹ مار مچائی کہ صدیوں یہ شہر ہرا نہ ہو سکا۔ عثمانیوں نے جب ادھر کا رُخ کِیا تو رہی سہی کسر اُنھوں نے پوری کر دی۔ یہ بربادی بعد میں اس کی آبادی و خوشحالی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔
13اپریل 1204عیسوی کے دِن، اس کے باوجود کہ ایک معاہدہ ماہِ مارچ میں طے پا چکا تھا، اور معاہدے کی سیاہی ابھی خشک بھی نہ ہوئی تھی کہ وینیشین اور فرانکونین نے بالڈون کو لاطینی شہنشاہ چن لیا۔ رسمی طریقوں اور دستور کے مطابق ایک متحدہ کلیسیا کی بِنا رکھ دی گئی۔ مگر یونانی پرجا نے ایسی کِسی بھی تشکیل کو کھڑے کھڑے ہی رد کر دیا۔ لاطینی حکمرانی قائم رکھنے اور اس کے احکام و قوانین کا پابند بنانے کی کوششوں میں صلیبی جنگجو اتنے اُلجھے کہ وہ اپنے اصل مقصد کو بیک برنر کی طرف دھکیل بیٹھے۔
عینی شاہدوں کے مطابق ''اہلِ کلیسیا اور وہ جنھیں پاپائی مختاری سے نوازا گیا'' انھوں نے صلیبی جنگوں کے نابروں سے کہا کہ حتمی اور فیصلہ کُن حملہ کرنے سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھنا کہ جو جنگجو میدانِ جنگ میں کام آیا، اپنے گناہوں سے پاک ہوا، وہ اپنے آپ کو تمام گناہوں سے بری سمجھے۔ وہ بخشا گیا۔ جان دے کے اس نے مخلصی پالی۔
شہر کے شہر راکھ کا ڈھیر کر دیے گئے، جو سامنے آیا مٹ گیا۔ صلیب کے دشمنوں کو، بدعتیوں کو مار ڈالا گیا یا قیدی بنا لیا گیا۔ جو قیدی بنے ان کی غلاموں کی منڈیوں میں بولیاں لگنے لگیں۔ عزتیں لُٹ گئیں، برباد ہوئیں، خاک میں مِلا دی گئیں، عورتیں بچے جوان بزرگ گاجر مولی کی طرح کاٹ پھینکے گئے۔ وہ لوٹ مار مچی کہ خُدا کی پناہ! گرجا گھر پیوندِ زمین کر دیے گئے، بے حرمتی کی گئی اور تاجدارِ سلطنت بالڈوِن کا لاطینیوں نے تقدیس دیے جانے والوں میں شمار شروع کر دیا۔ لڑائی میں معجزانہ فتوحات کے قصے نمک مرچ مصالحہ لگ لگ کے دُور و نزدیک عام گردش کرنے لگے اور مشہور ہُوا کہ مشیّتِ ایزدی حاصل ہے اس لیے فتح پر فتح مل رہی ہے۔ ہرکامیابی و کامرانی کے پیچھے خُدا کا ہاتھ ہے اور تو اور مقدس پوپ نے بھی لکھ بھیجا:
خدا کے حضور ہم شادماں ہیں، اس کی بارگاہ میں ہمارا دِل باغ باغ ہے۔ ہم سر جھکاتے ہیں اس کی طاقت و قدرت کے آگے کہ اس خُداے خلیق و شفیق نے کرم فرمائی کی اور اپنے شاندار معجزوں سے آپ (شہنشاہ) کے ذریعے مسیحیوں کو فتح مند کِیا اور ہولی سی(تقدس مآب پوپ) پر خُدا کا جلال ظاہر ہوا اور اسے ستایش ملی اور اس کی عظمت میں اضافہ ہوا اور شہنشاہ کے ذریعے عالمِ مسیحیت کو رفعت و برتری ملی جس کے لیے ہم خُدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
یونانی آرتھوڈاکس عالمِ دین اناستاسِیئُس کیلس بتاتا ہے کہ جو بات راسخ العقیدہ برادری کو سخت ناگوار محسوس ہوتی بل کہ چبھتی ہے اور جس سے لوگ آج بھی نالاں ہیں، وہ یہ ہے کہ
مقدس صلیب کے نام پر شرمناک و نامبارک جنگوں کا آغاز کرنے والے پوپ انوسینٹ سوم کے بھی دانتوں میں پسینا آگیا ہو گا جب اس نے ان ہولناک صلیبی جنگوں میں ڈھائے جانے والے مظالم کی تازہ بتازہ داستانیں سنی ہوں گی۔ ان جنگ آزماؤں نے تین تین دن تک محلات میں لوٹ مار کا بازار سجائے رکھا، گرجا گھروں میں بھی قتل و غارت سے باز نہ آئے، راہب خانے اور خانقاہیں، مسیحیوں اور غیر مسیحیوں، کیتھولکس یا غیر کیتھولک جو سامنے آیا بچ نہ پایا۔ مدر ہو یا نن، عزت اس کی لوٹ لی گئی۔ گویا تقدس کو ریپ کِیا جاتا رہا۔۔۔۔۔۔ حد ہو گئی، تقدس مآب پوپ کی طرف سے ان بہیمانہ کرتوتوں پر جشن منانے والے صلیبی جنگ آزماؤں کو خیرسگالی اور نیک تمناؤں کے پیغامات ارسال کیے گئے۔ لاطینیوں کی قائم کردہ اقومانی پیڑی آرکی اور بازنطینی حکومت کے خاتمہ کو پوپ انو سینٹ سوم نے ''کارنامہ'' قرار دیتے ہوئے اپنے مقدر کے لکھے سے تعبیر کِیا۔ گویا خُدا کو یہی منظور تھا۔ جس سے کلیسیاؤں کا اتحاد عمل میں آئے گا۔ پوپ نے اسے خوشی خوشی مشیّتِ ایزدی قرار دیا۔ جو کرتا ہے اوپر والا کرتا ہے، زمین پر رہنے والوں کے لیے اعتراض کی گنجایش نہیں ہے۔ ''سونے پر سہاگا'' یوں پھرا کہ پوپ صاحب آنجناب نے ایک لاطینی کلیسیائی بزرگ کو کوئی مانے نہ مانے، زبردستی قسطنطنیہ کی کلیسیا میں لا بٹھایا۔ جو نصف صدی سے زیادہ عرصہ آرتھوڈاکس پیڑی یاک، کی جگہ رہبر و راہنما بن کر سربراہی کی نعمتوں سے حظ اُٹھاتا رہا۔ کیوں کہ یونانی کلیسیا کے راسخ العقیدہ بطریق اعظم کی چھٹی کی جا چکی تھی۔ اور وہ شکست خوردہ شہنشاہ خود بھی جان بچا کر ایشیاے کوچک میں نقائیہ جا پناہ گزیں ہوا۔
بس، یہ ہے وہ دکھتی رگ جس سے آج بھی ٹیسیں اُٹھتی رہتی ہیں اور دونوں کلیسیاؤں کے روابط کولڈ سٹوریج میں جا سماتے ہیں۔
جب تک سانس، تب تک آس، اب 4مئی2001عیسوی کی ایک مبارک گھڑی جب یونان میں طلوع ہوئی تو اس لمحے کی تاریخ نے ان الفاظ کی گونج سُنی۔ تقد س مآب (ایک اور پوپ سات سو ستانوے سال پہلے کے سانحہء قسطنطنیہ پہ نوحہ پڑھ رہا تھا):
بعض یادیں بڑی سوہانِ روح ہوتی ہیں، بہت تلخ، بہت اذیت پرور، دُور دراز ماضی سے آج بھی بعض دردناک مناظر رِس رِس کر لوگوں کے دل و دماغ پر لگے ظالمانہ چرکوں پہ نمک گھولتے رہتے ہیں۔ آج بھی مظلوم انسانیت کی چیخیں سن کر کلیجہ منہ کو آجاتا ہے۔ مَیں محسوس کر سکتا ہوں، میری نگاہوں کے سامنے وہ ہولناک واقعات اُبھر، ڈُوب، اُبھر ڈوب رہے ہیں، شاہانہ عظمتوں کا امین شہر قسطنطنیہ اُجڑ گیا، فاتحین نے اپنی فتح کو تباہی و بربادی، قتل و غارتگری کا کلوک پہنا دیا۔ یہ شہر تو ایک مدت سے مسیحیت کا مضبوط قلعہ تھا مشرق میں۔ ٹریجڈی! بہت بڑی ٹریجڈی تھی یہ کہ حملہ آور، یہ جنگ آزما تو کوئی ا ور مقصد لے کر نکلے تھے۔ یہ تو روانہ ہوئے تھے کہ ارضِ مقدس تک تمام مسیحیوں کی رسائی سہل اور محفوظ بنا دیں، مگر ہوا کیا؟ ہوا یہ کہ وہ اپنے ہی دِینی بھائیوں پر چڑھ دوڑے۔
(تقدس مآب پوپ جان پال دوم نے اپنا کلام جاری رکھا)
ماضی اور حال کے حسبِ حال، جب بھی فرزندان و دُخترانِ کیتھولک کلیسیا نے اپنے آرتھوڈاکس بہن بھائیوں کے خلاف ارتکاب یا فروگذاشت کی غلطیاں کیں، یا کِسی نے غفلت برتی، بھول چوک سے بھی اُنھیں کوئی دُکھ پہنچا یا، جُرم کِیا، ان سے گناہ سرزد ہوا۔ ہم خُدا سے رحم کی بھیک مانگتے ہیں اس آس کے ساتھ کہ وہ عفو و درگذر سے کام لے گا۔ ہمارے گناہ ہمیں معاف کر دے گا۔ آپ سے، سب سے بھی دعا کی تمنّا ہے۔۔۔۔۔۔
آرتھوڈاکس آرچ بشپ آف ایتھنز فضیلت مآب جناب کرسٹو ڈُولس نے بے اختیار ہو کر پُرزور تحسین و آفرین کے لیے سٹینڈنگ اوویشن دی۔ وہاں موجود دیگر قابلِ تقدیس بشپ صاحبان نے تقلید کی۔
جناب پوپ جان پال دوم نے فرمایا:
سب سے پہلے مَیں سمجھتا ہوں، لازم ہے کہ مَیں رومن کلیسیا کی طرف سے آپ تک ان کا عقیدت بھرا محبت و احترام کا پیغام پہنچاؤں۔
آپ کا اور ہمارا رسولی عقیدہ مقدس خُداوند یسوع مسیح میں جو سب کا مالک، آقا، خُداوند خُدا اور نجات دہندہ ہے، ہمارے درمیان قدرِ مشترک ہے، ہماری رسولی میراث ایک، انجیلِ پاک ایک، ساکرامنٹی اصطباغ کا لزوم بھی ہم میں پکا اور ایک جیسا ہے۔ اسی لیے الٰہی فیملی کا حصہ ہیں ہم دونوں۔ ایک خُدا کی عبادت کرتے ہیں، صرف اُسی کا حکم بجا لاتے ہیں، اسی کے دِین کے خادم ہیں ہم۔ دنیا کے کونے کونے تک اس کی پاک انجیل کی منادی میں آپ بھی پیش پیش ہیں اور ہم بھی۔
سیکنڈ ویٹی کن کونسل نے تمام کیتھولک مسیحیوں کو پابند کر دیا کہ وہ دوسری کلیسیاؤں کے ارکان، خُدام الدین کو پاک خُداوند یسوع مسیح میں اپنے بھائی اور بہنیں گردانیں۔ بحوالہ: اقومانیت 3( بین الکلیسیائی اتحاد،3)۔ یہ مافوق الفطرت سیمنٹ ہے بھائی بندی کا جو رومن کلیسیا اور یونانی کلیسیا کے درمیان کارفرما ہے انھیں آپس میں جوڑے رکھنے اور پایداری و مضبوطی پر قائم رکھنے کے لیے۔ بے شک۔
زمانہء ماضی اور عرصہء حال میں پیش آمدہ نزاعی مسائل ہمارے لیے عذابِ جاں بنے رہے ہیں اور واقعی پیداشدہ غلط فہمیوں اور رنجشوں کو بھگتے جھیلتے صبر کرتے زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ لیکن ابھی بھی ہمارا خیال ہے کہ خُداوند یسوع پاک میں باہمی اُلفتِ کاملہ کے جذبہ سے کام لیا جائے تو یہ تضادات کی اڑچنیں، کج فہمیاں اور اختلافات اور اُلجھنیں زیر کی جا سکتی ہیں، کیوں کہ یہی خُداوند پاک کی بھی توقع ہے جو ہم تمام مسیحیوں سے وابستہ ہے۔ ہم کیتھولکس نے تو پیمان باندھ لیا ہے کہ ہم اُس کے چاہے پر پورا اُتریں گے۔ دیگر مسیحیوں سے بھی امید ہے وہ بھی پُرعزم ہو کر ایسا ہی کر دکھائیں گے۔ اس میں اب کیا شبہ کہ سخت ضرورت ہے اب یہ بوجھ ہلکا پڑنا چاہیے، سہنے، برداشت کرنے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ متنازع باتوں سے اب وقت آگیا ہے کہ جان چھڑوا لی جائے، منہ کڑوا کر دینے والی یادداشتوں کو بپتسمہ دینے کی ضرورت ہے۔ گذرے زمانوں اور عصرِ حاضر کے حالات وواقعات اور ممکنات سامنے رکھتے ہوئے، کیتھولک کلیسیا کے بیٹوں اور بیٹیوں نے اپنے افعال یا ترکِ افعال سے آرتھوڈاکس بھائیوں اور بہنوں کے خلاف گناہ کا جرم کِیا۔ ہم معافی کے خواستگار ہیں اور خُدا بلند و برتر سے بھی التجا ہے ہم آرتھوڈاکس بھائیوں اور بہنوں کے گنہگار ہیں، اس پر وہ بھی ہمیں معاف کردے!
بڑے دردناک حالات جو کبھی پیش آئے تھے، اُن کی یاد اُن سے بھی زیادہ کربناک ہوتی ہے۔ بعض چرکے انسان کو ایسے لگتے ہیں کہ رُوح تک زخم زخم ہو جاتی ہے اور درد ان سے ہمیشہ بُوند بُوند رِستا رہتا ہے۔ تقدس مآب پوپ نے قسطنطنیہ کی تاخت و تاراج اور جانوں کے اِتلاف کا ذِکر دُکھ بھرے جذبات کے ساتھ کِیا۔ قسطنطنیہ مشرق میں مسیحیت کا گڑھ تھا جسے بے لگام صلیبی جنگجوؤں نے برباد کر دیا۔ تقدس مآب پوپ جان پال دوم نے کہا کہ انھیں تو ٹاسک یہ دیا گیا تھا کہ پاک سرزمین کے زائرین کے لیے محفوظ راستے کا اور ان کے آرام اور حفاظت کا انتظام کِیا جائے تا کہ تمام مسیحی آزادی کے ساتھ زیارات پر حاضری دے سکیں۔ جنگجوؤں نے کلیسیا کا ساتھ دینے کے اخراجات رعایا سے وصول کرنے کی ٹھان لی۔ اور ان کی حریص تلواروں نے اپنا دیکھا نہ بےگانہ سب کو تہِ تیغ کِیا۔ نہ کِسی کی جان کو امان ملی، نہ مال بچا اور نہ عزت محفوظ رہی۔ آرتھوڈاکس مسیحیوں کے لیے کہِیں جاے امان نہ تھی۔ یہ لاطینی مسیحی تھے جن کی وجہ سے کیتھولک مسیحی متاسِف، پشیمان اور شرمندہ ہیں۔ یہ خواب نہیں، حقیقت ہے جو ہمیں نظر آتی ہے۔ یہ کچھ نہیں بس'' مسٹیرئیم ان ایکوی ٹیٹس'' ہے۔ بدی کے اَسرار جنھوں نے انسانوں کے جذبات و احساسات کو اپنے سحر کی اسراریت میں گُم کر لیا تھا۔ اُس کے اندر کے وحشی کو پنجر سے باہر لے آئے۔ وہ بپھرا اور بپھر کے بے قابو ہو گیا۔ عدل خُدا کا شیوہ ہے، ماضی کے گناہوں کا سارا بوجھ ہم خُدا پُرجلال کے رحم و کرم کے آگے ڈھیر کرتے ہیں۔ تقدس مآب پوپ نے کہا کہ ہم گڑگڑا گڑگڑا کے اس کے سامنے منّت زاری کرتے ہیں اور ملتجی ہیں کہ ہمارے بھائیوں بہنوں آرتھوڈاکس مسیحیوں کے تمام نئے پرانے زخموں پراپنی رحمت کا پھاہا رکھ دے، ان کے زخم بھر دے یا خُدا! یونانی دوست جس اذیت کو آج بھی محسوس کرتے ہیں اس میں ہم ان کے ساتھ شریک ہیں، وہی درد ہم بھی محسوس کرتے ہیں۔ غم میں، درد میں ہم ان کے ساجھی ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لینا چاہیے۔ نئے سرے سے سربلند کرتے ہوئے یورپ نے اگر اپنی شناخت بنانی ہے تو ہم بھی اسی کا حصہ ہیں۔ ہمیں آپس کی نفرتیں کدورتیں ختم کرنا ہوں گی، گلے شکوے بھلانا ہوں گے۔ ہماری ندامت اور معذرت قبول کرنا ہو گی، ہم سب ایک ہوں گے تو نئے یورپ کو نئی شناخت بھی میسر آئے گی۔ دِل بڑا رکھنا چاہیے۔ خُداوند پاک بھی ہمارا اتحاد چاہتا ہے اور ہم میں ہماری رگوں میں پیار محبت بھائی چارے، رواداری، برداشت اور خیر سگالی کا لہو دوڑتے دیکھنے کی ہمیں روح القدس میں برکت دینا چاہتا ہے۔ا تحاد بین الکلیسیا کے لیے وقت آ گیا ہے کہ مضبوط ہو جائے۔مشرق ہو یا مغرب۔۔۔۔۔۔ ہم ایک ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔