سوال نمبر297:۔
ہیلو! مَیں نے خاصی ویب سائٹس کھنگال ماری ہیں تا کہ صحیح مذہب تک رسائی حاصل کر سکوں کیوں کہ مَیں کھوج میں ہُوں اور جان نہیں پا رہا ہُوں کہ کون سا مذہب حق سچ ہے اور کون سا نہیں۔ مَیں نے مفت بائبل وصول کرنے کے لیے ایک ویب سائٹ سے درخواست کی اورا مید ہے وہ مجھے عنقریب مل جائے گی لیکن مَیں سمجھ نہیں پا رہا کہ مجھے اپنے مطالعہ کی ابتدا کس سے کرنا چاہیے، آیا رومن کیتھولک چرچ کی...... بذریعہ سوال جواب مسیحی تعلیم کی کتاب، مفصل سے یا بائبل سے۔ اور ہاں، یہ رہنمائی ضرور کیجیے گا کہ کِس مسلک، فرقہ یا گروہ کی کتاب سے استفادہ کروں۔
مَیں شِدّت سے متلاشی ہُوں، اپنے تئیں مطالعہ بھی برابر جاری ہے مگر جُوں جُوں جانکاری بڑھتی جا رہی ہے نِت نئے نئے سوالات ذِہن میں کُلبُلانے لگے ہیں۔ مَیں خدا پر ایمان رکھتا ہوں لیکن حق پہچاننے کے لیے کون سا مذہب اختیار کروں جو راسخ و راست ہو؟
(اگر مَیں نے غلط پیج کی کُنڈی کھٹکھٹائی ہے، تو معذرت! سہو ہو گئی) (ترکی زبان میں ایک سوال)
:جواب
۔سبھی اپنے اپنے دِین کی صداقت کے دعوے دار ہیں، آپ کا سوال ہے، ”مَیں کسے دِینِ حقیقی مان لُوں؟“...... سب سے پہلی بات تو مَیں یہی کہوں گا کہ اُس صداقت، اس مذہب کو اختیار کر لیں جو آپ کو قابلِ یقین لگے، یعنی بامعنی ہو، اس میں آپ کو معقولیت دِکھائی دے۔ یا یوں کہیے ایسا مذہب جس کا پیغام آپ کو اپنے ذہن دِل میں اُترتا محسوس ہو، آپ کی آرزوؤں، تمنّاؤں اور توقعات پر پُورا اُترے اور وہ شک میں ڈالنے والے آپ کے وسوسوں اور آپ کے ہر سوال کا اطمینان بخش جواب آفر کر سکے۔ حق کی جستجو جس کے آپ مشتاق ہیں انجامِ کار آپ کو اس نتیجہ خیز حل پر پہنچائے گی جس کا ہم ذِکر کر چکے ہیں، درست کہا ناہم نے؟
تاریخ کے اوراق گواہ ہیں ہر زمانے میں کہیں نا کہیں مختلف مذاہب اور اُن کے بانی مبانی موجود رہے ہیں اور یہی اُن کا دعویٰ تھا کہ ہر انسانی ذہن کے لیے اُن کی اُلجھنوں، عمیق و ادق سوالات اور تشکیک کا جواب اور حل ان کے پیغام اور دعوت کا حصہ ہے جس سے تسلّی و تشفّی پائی جا سکتی ہے۔ ایسے اہم ترین داعیوں میں گوتم بدھ، یسوع المسیح اور محمد عربی کے اسماے گرامی تواریخ کا نمایاں ترین حصہ ہیں۔
مندرجہ ذیل سطور میں مَیں اپنے آپ کو مقدس خداوند یسوع مسیح کے صدق و صفا سے معمور پیغامِ ابدی تک محدود رکھوں گا تا کہ اختصار و اعتبار بھی قائم رہے اور وضاحت بھی ہو جائے، اس دِینِ حق کی جس کی تبلیغ و ترویج خداوند کی برکت و فضیلت سے اس کی کلیسیا کے ذریعے آج بھی جاری و ساری ہے۔
ہم مسیحیوں کے ایمان و ایقان کی صداقت مصلوب ہونے اور پِھر مُردوں میں سے دوبارہ جی اُٹھنے والے مقدس یسوع ناصری کی پاک ہستی سے منسوب اور اُسی کی مرہونِ منّت ہے۔ ہمیں ادراک ہے اور عقیدے کے لحاظ سے ہمارے شاملِ حال ہے جو رُوح القُدُس کی عظیم قدرت و طاقت ہے۔
صدیوں سے برابر مسیحی کلیسیا کو خداوند یسوع پاک کے دعواے حق و صداقت کی نمایندگی حاصل رہی ہے۔ کلیسیا کو دعوت و پیغامِ مسیحی کا جو حق تفویض ہوا ہے کیا عین وہی کا وہی ہے جو اور جیسا خداوند نے دنیاوی زندگی میں ادا کر دِکھایا تھا؟ اس دِینِ صادق کی اتھاہ تک پہنچنے کے لیے، ہمارا صائب مشورہ ہے، آپ کو اولاً فوری طور پرکیتھولک کلیسیا کی سوالاً جواباً ”مسیحی تعلیم کی کتاب“ سے استفادہ کرنا ہو گا۔ اور اگر ممکن ہے تو آپ ان سوالوں اور جوابوں کے بارے میں کسی نہ کسی ایمان دار رومن کیتھولک مسیحی سے رابطہ میں رہیں تا کہ کوئی ابہام آپ کو زِچ کر رہا ہو تو وہ دُور ہو جائے۔
(یہ کتاب جس کا مطالعہ اور فہم پیدا کرنے کی ہم نے سفارش کی ہے ANGEBEN کے نام سے تُرکی زبان میں بھی ترجمہ ہو چکی ہے۔
اب اس مختصراً مختصراً دو حوالوں سے رومن کیتھولک چرچ کی طرف سے تعلیماتِ مسیحی عام کیے جانے والی کاوشوں کی توضیح آپ کی توجُّہ اور فائدہ کے لیے رقم کرتا ہوں
۱) خداوند یسوع مسیح کا واضح اعلان ہے کہ خدا، محبّت ہی محبّت ہے۔ محبّت خدا اور خدا محبّت ہے۔ اور مسیح میں اس محبّت ہی محبّت خدا نے نتیجتاً کُلّی اور اٹل صورت میں پوری کی پوری انسانیت کو اپنی محبّت کی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اسی خداوند یسوع میں تمام انسانوں کو اُس نے اپنے قریب تر کر لیا ہے اور انھیں اپنی طرف سے یہ قدرت تفویض کر دی ہے کہ وہ اپنی ذات سے بالا ہو کر دوسرے لوگوں کو بھی اپنی پُرخلوص اور بے لوث محبّت سے سرشار کرتے ہوئے محبّت بھری ہی زندگی بسر کرنے کے لائق بنا دیں۔
۲) پاک خداوند کی منادی ہے کہ لوگوں کی تعمیل و تکمیل اسی میں ہے، خدا پُرجلال کی عقیدت اور اس کا احترام دِلوں اور اپنے عمل میں بسائیں کیوں کہ اسی ربِّ جلیل نے انھیں پیدا کِیا۔ وہی پروردگارِ حقیقی ہی ان سب کا باپ ہے۔ اگر وہ اس کے الٰہی پیغام و دعوت کو قبول کریں گے اور اس پر قائم دائم رہیں گے، اور اُس کی مخلوق، اس کے بندوں کے ساتھ ایثار و محبّت سے پیش آئیں گے تو اس کا صلہ یہی ہو گا کہ دنیا کی اور آخرت کی ابدی زندگی میں خود بھی امن و امان و آرام میں رہیں گے اور دوسروں کو بھی امن و آشتی، ہم احساسی، ہمدلی و محبّت والی خوشحال زندگی گزارنے والے بنا دیں گے۔