:سُوال نمبر87
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا کہ اُنھیں تو صِرف بنی اسرائیل کی بھُولی بھٹکی بھیڑوں کی خاطر بھیجا گیا تھا: انجیلِ مُقدّس میں ہے کہ۔۔۔۔۔۔
''اُس نے جواب میں کہا کہ مَیں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہُوئی بھیڑوں کے سِوا اور کِسی کے پاس نہیں بھیجا گیا''۔ (مُقدّس متّی۔۔۔۔۔۔24:15)
تو کیا حضرت عیسیٰ علیہ اسلام نے یہُودی الاصل لوگوں کے سِوا باقی سب کو اپنا اُمّتی بنانے سے ٹھُکرا دیا؟ کیا فرمائیں گے آپ؟ ایسا نہیں ہے نا؟
جواب:۔سب سے پہلے تو درج کِیا جاتا ہے مُقدّس انجیلِ متّی سے عبارت میں اِستعمال ہونے والا بائبل پاک کا مُنتخب متن جِس کی ایک آیت مُبارکہ کو آپ نے اپنے سُوال کا حوالہ بنایا ہے:
''۔۔۔۔۔۔ اور یسُّوع وہاں سے روانہ ہو کر صور و صِیدُون کے علاقے میں گیا۔ اور دیکھو ایک کِنعانی عورت جو اُس مُلک کی تھی پُکارتے ہُوئے کہنے لگی، اے خُداوند! داؤد کے بیٹے مُجھ پر رحم کر۔ میری بیٹی بُری طرح سے بدرُوح سے ستائی جاتی ہے۔ مگر اُس نے اُسے کُچھ جواب نہ دیا۔ تب اُس کے شاگردوں نے پاس آ کر اُس کی مِنَّت کی اور کہا کہ اُسے رُخصت کر۔ کیوں کہ وُہ ہمارے پیچھے چِلّاتی ہے۔ اُس نے جواب میں کہا: مَیں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہُوئی بھیڑوں کے سِوا اور کِسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔ لیکن وُہ آئی اور اُسے سجدہ کر کے کہا۔۔۔۔۔۔ اے خُداوند! میری مدد کر۔ اُس نے جواب میں کہا کہ بچّوں کی روٹی لے کر پِلّوں کو ڈال دینی مناسب نہیں۔ تو اُس نے کہا۔۔۔۔۔۔ سچ ہے۔ اے خُداوند! کیوں کہ پِلّے بھی اُن ٹکڑوں سے کھاتے ہیں جو اُن کے مالکوں کی میز سے گِرتے ہیں۔ اس پر یسُّوع نے جواب میں اُس سے کہا۔۔۔۔۔۔ اے عورت! تیرا ایمان بڑا ہے۔ جیسا تُو چاہتی ہے، تیرے لیے ویسا ہی ہو۔
اور اُسی گھڑی اُس کی بیٹی نے شِفا پائی''۔
مُقدّس متّی۔۔۔۔۔۔21:15تا 28
برجستہ، طبعی اور زِندگی سے مَعمُور اس منظر کا نظّارہ ہم نے انجیلِ مُقدّس میں کِیا۔ مُقدّس متّی نے کیا خُوب دِلنشین، پُرتاثیر قُوّتِ محرّکہ کے ساتھ اسے بیان کِیا۔
کئی مرتبہ ایسا ہُوا کہ خُداوند یسُّوع مسیح اقدس فلسطین کی سرحدیں عبور کر کے اور اور مُلکوں میں جا پہنچا، اُنھیں میں دِیارِ مظاہر پرستاں یعنی غیر اہلِ کتاب لوگوں کے علاقے بھی تھے۔ اِس مرتبہ اُس کا دورہ صور و صیدُون کے نواحی علاقوں کی طرف تھا۔یہ بستیاں ارضِ مُقدّس کے شمالاً واقعہ ہیں۔ لیجیے! یہِیں اس کی اپنے شاگردوں اور رسولوں کی معیت میں مُلاقات ایک کِنعانی عورت سے ہُوئی جو وَہِیں کی باسی تھی۔ اُس نے دُہائی دی، اے خُداوند! ابنِ داؤد! ایک شیطانی رُوح نے میری بیٹی کو تکلیف و اذیّت سے پریشان کر رکّھا ہے، ترس کھاؤ اس پر، رحم کرو ہمارے اُوپر، ہماری مد دکرو۔
یہ بھیانک تباہی، اجیرن زِندگی، نہ ٹلنے والی مُصیبت کے خلاف پُکار تھی اُپائے کے لیے جو مجبُور و بے بس ماں کے دِل سے اُٹھّی تھی، ماؤں کو بیٹیاں بہُت عزیز ہوتی ہیں، ان کی آدھی جان بیٹیوں میں ہی ہوتی ہے۔ وُہ کِنعانی عورت اپنی بیٹی کے لیے ترلے منتاں کر رہی تھی۔ اُس کی بیٹی کی جان سخت مُصیبت میں پڑی تھی، اِسی لیے وُہ عورت بھاگی بھاگی مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح کے حُضُور پہنچ کر فریادی ہُوئی۔ خُداوند یسُّوع پاک کے بارے میں اس کی رحیمی، کریمی کے بہُت چرچے سُنے تھے اُس نے، جان لیوا امراض میں تڑپتے انسانوں کے لیے اس کی مسیحائی کے قصّے دُور و نزدِیک زبان زدِ عام و خاص تھے۔ چہار سُو اس کے مُعجزوں اور انہونیوں کے ہونے کی کہانیاں تھیں جِن کی ایک دُنیا گواہ تھی۔ چُناں چہ وُہ خاتُون اس کی بارگاہ میں پہنچی، مُلتجی ہو کر، مِنّت و زاری کرتی، سب سے بڑھ کر یہ کہ شِدّتِ اِحساس کے حامل انتہائی درجہ کے یقین کے ساتھ۔ اسے یہ بھروسا بھی تھا کہ اُس کی مدد ہو گی اوریہ اعتماد بھی تھا کہ اُن کی بَلا رد ہو جائے گی کیوں کہ وُہ اُس کے سامنے سجدہ ریز تھی جو سب کا نجات دہندہ ہے، محبّت کرنے والا، اُس ماں سے بھی زیادہ جو اپنی بیٹی کی محبّت میں ماری ماری پھر رہی تھی۔
مگر۔۔۔۔۔۔ یہ کیا؟اس کیس میں خُداوند کا ردِّ عمل سمجھ سے باہر تھا۔ درخواست گُزار کی اِلتجا میں گہرائی و گیرائی تھی۔ مگر خُداوند نے اس خاتُون کی رحم و اِستعانت کی اپیل درخورِ اعتنا نہ سمجھی۔ بل کہ دَڑ وَٹ لی۔ شفاعت کرنے والا رُجحانِ خُداوندی مترشّح نہ ہُوا۔ لگتا یہ ہی تھاپاک خُداوند یسُّوع مسیح اس کی جھولی میں رحم کی بِھیک نہ ڈالے گا۔ عورت بے نیلِ مرام لَوٹے گی۔ وُہ بے کس و بے بس عورت جیسی اُجڑی پُجڑی، مُصیبت زدہ آئی تھی، پاک خُداوند کا کوئی مُعجزہ اس کی مُشکل کُشائی نہ کرے گا اور وُہ حرماں نصیب اپنی بیٹی کا درد لیے، دُکھتے دِل کے ساتھ، روتی دھوتی خالی ہاتھ، دامن جھاڑتی پلٹ جائے گی۔
پتھر بنے، دم سادھے، رسول ٹُک ٹُک دیدم، دم نہ کشیدم کی مثال، متعجب کھڑے تھے، ایسا منظر اپنے ہوش میں اُنھوں نے نہ کبھی دیکھا، نہ سُنا۔ ان میں حرکت ہُوئی، ہِمّت واپس آئی، ادب و احترام کو ملحُوظ رکھتے ہُوئے، ہر رسول نے عقیدت بھری نِگاہ خُداوند کے قدموں میں بچھائی اور نیچی نِگاہوں سے المسیح اقدس کے حُضُور مُلتجی ہُوئے اس عورت پر رحم ہو، اُس کی بدرُوح کے چنگُل میں پھنسی بیٹی پر شفقت ہو، کُچھ تو کرم کا آسرا ملے ماں بیٹی کو! تہی دامن، خالی ہاتھ تو نہ جائے واپس ورنہ وُہ ہم پر حرف گیری کرے گی۔ صلواتیں سُنائے گی، ہمیں عاجز کردے گی۔ ترس، رحم خواری، اس عورت کے دُکھوں میں شراکت اتنی تھی یا نہ تھی مگر رسول جانتے تھے اس عورت کا شور و غوغا، اس کی باتیں، طعنے، ہائیں، ان کا پیچھا کرتی رہیں گی جہاں بھی وُہ جائیں گے۔ ایک طرف انسانی سُوچ تھا، اس عورت کی مدد کروا کے مُعاملہ رسول چاہتے تھے رفع دفع ہو جائے، دُوسری طرف وُہ اعلیٰ و ارفع خُدائی ادراک تھا کہ جو مَیں جانتا ہُوں تُم نہیں جانتے۔ رسول سُوچ رہے تھے، ہیٹی ہو جائے گی، خلقت میں اس عورت کی وَجہ سے بدنامی ہو گی۔ اُس کے آنسُو، اُس کی فریادیں، اُس کے ہَوکے لوگوں کو اپنی طرف متوجِّہ کریں گے اور سب کے مسیحا کی مسیحائی پر حرف آئے گا۔ ان سب رسولوں کے مُنہ میں اس عورت کے داد فریاد کا شور مچانے اور مسیحا تک پہنچ کے بھی برکت نہ پانے کے عوامی تاثُّر والی ریت بھری ہُوئی تھی۔ وُہ سب غیر مُلکی یہُودی تھے اور کِسی اور ہی مُلک سے آئے تھے، اِس لیے سب کی نظر میں تھے اور عورت مُسلسل واویلا کر رہی تھی، چُپ ہی نہیں ہو کے دے رہی تھی، چُپ خُود خُداوند تھا۔ رسول ڈر گئے اور اُنھیں یہ تمام صُورتِ حالات چُبھنے لگی۔
الٰہی عِلم اس کے برعکس تھا، ربّی سُوچ مختلف تھا، دِلوں کا بھید جاننے والے خُداوند قُدُّوس کے سامنے صُورتِ حالات کچھ اور ہی تھی۔ مُقدّس خُداوند یسُّوع ایسی گمبھیر صُورتِ حالات میں اپنے آپ کو کیوں سمیٹے رہا، اپنے اِس الگ تھلگ ہونے کے بارے میں اُس نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ یہ سب کُچھ اُس کے مشن سے ہٹ کر ہے۔ اُس نے کہا کہ اُسے تو راہ گُم کردہ اسرائیلی بھیڑوں کو ہی راہ پر ڈالنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ مُقدّس یسُّوع کہ ابنِ خُدا ہے، بخُوبی جانتا تھا کہ جِتنی بھی مُدّت اُس نے زمین پر گُزارنی ہے اس مُدّت میں اُس کے ذِمّہ جو کام ہے وُہ بنی اِسرائیل کی دنیوی فلاح اور اُخروی نجات تک محدُود ہے۔ یہُودیوں کو دِین کی پٹڑی چڑھانا ہے، بھٹکی ہُوئی قوم کو واپس راہ پر ڈالنا ہے۔ یسُّوع پاک، نرم خُو، منکسرالمزاج، اس کے لیے جو حُدُود مقرر کر دی گئیں اُن سے ماورا اس نے نہیں جانا۔ اُس کے پاؤں کہاں تک پھیلائے جا سکتے تھے وُہ جانتا تھا۔ اور ایسے کِسی کام میں ہاتھ ڈالنے کا روادار نہ تھا جِس کا وُہ مجاز نہ ہو۔ یہ اظہار تھا اُس کے بہترین انکسار کا، مُقدّس خُدا باپ کی بارگاہ میں تابع فرمانی و اطاعت شعاری کا۔ اب بھی، اس ذِکر کی گئی سچوایشن میں کیسے ہو سکتا ہے کہ اُس کا دِل نہ پسیجا ہو، ضرُور پسیجا ہو گا، مگر خُداوند پاک یسُّوع مسیح یہاں مُعجزے دِکھانے کو نہ آیا تھا۔
مگر عورت نے آس نہ توڑی، اس پر خُداوند کے رویّے کا کوئی اثر نہ ہُوا۔ وُہ کِسی پتھّر میں تو جونک نہ لگا رہی تھی۔ وُہ جانتی تھی کہ وُہ مہربانوں کے مہربان خُداوند کے سامنے تھی۔ اُسے یقین تھا اُس کی آشا، نراشا نہیں ہو سکتی۔ اُس نے پِھر اپنی ساری ہِمّت جمع کی اور خُداوند یسُّوع مسیح کے آگے ڈھیر ہو گئی، اُس کے قدموں میں، سجدہ ریز، منمنائی: خُداوندا! مَیں تیری مدد کی محتاج ہُوں۔ میری فریاد سُن، میری دادرسی کر۔ خُداوند کا جواب وُہی تھا جو وُہ دے چُکا تھا۔ وُہ بچّوں کے مُنہ سے اُن کا لُقمہ چھین کر اُن کے کُتّوں کو کیسے کھِلا سکتا تھا۔ رِزق تو سب کا فِکس ہے۔ وُہ تو یہُودیوں میں اسے بانٹنے آیا تھا۔۔۔۔۔۔ اوروں کا رِزق اور ذرائع سے اُن تک پہنچے گا، خُدا کے لاکھ کروڑ ہاتھ۔ بڑا سخت جواب تھا جسے سُن کر بھی عورت مایُوس نہ ہُوئی، اُ س نے اپنی تذلیل کی طرف دھیان بھی نہ دیا۔
کوئی اور عورت ہوتی تو محسوس کرتی کہ اُس کے ساتھ بہُت بُری ہُوئی، پیر پٹختی بھاگ کھڑی ہوتی۔ نامُرادی و ناکامی کی چادر اوڑھ لیتی۔ جاتے جاتے یسُّوع پاک سے کہہ جاتی، نہ تے نہ سہی! ہور در بہتیرے!!۔۔۔۔۔۔ مگر کِنعانی عورت جانتی تھی اور کوئی دروازہ نہیں۔ ملے گی اَمَاں تو یہِیں سے مِلے گی۔ اُس نے مُقدّس یسُّوع کی باتیں ایک کان سے سُنیں دُوسرے سے نِکال دیں اور کان مزید سخت سُست الفاظ نہ سُننے کو دونوں بند کر لیے، مُنہ کھولا تو وُہی فریاد، وُہی پُکار، وُہی اِلتجا دِلدوز چیخ بن کر دِل سے نِکلی اور اثر کر گئی، عورت کہہ رہی تھی میرے آقا، میرے خُداوند خُدا! تُو نے دُرُست کہا۔ مگر اِتنی گُزارش ہے تُو یہ بھی تو دیکھ وُہی خوراک کُتّوں تک بھی پہنچ جاتی ہے جو مالکوں کے دسترخوانِ نعمت والی میز سے بھوروں کی صُورت نیچے گِرتی ہے۔ تُو سب کُچھ کا مالک ہے، کُچھ اِدھر بھی۔
عورت کی طرف سے خاکساری کی یہ اِنتہا تھی ، کُتّوں سے اُس کا موازنہ اُس کے سفر کی راہ میں دیوار نہ بن سکا۔ ایک محتاج نے ایک غنی کے سامنے پِھر دستِ سُوال دراز کِیا تھا۔ کُتّوں کی مثال اُس نے بھرے خزانوں سے ہزاروں لاکھوں حمر سونا نہیں، فقط جِیرہ بھر چاندی کے لیے اِتنی بڑی جھولی پھیلائی تھی۔ مالکوں کے بچّوں کے مُنہ کا لُقمہ نہیں، اُن کی میز سے نیچے گِرے لُقمے کا ذرّہ مانگا تھا۔ اِتنا تو اُس کا حق بھی تھا۔
اُسے کُچھ بُرا نہیں لگ رہا تھا، وُہ یہ سب کُچھ اپنی عزیز از جان بیٹی کے لیے کر رہی تھی۔ اس ذِلّت میں اُسے رُسوائی نہیں بل کہ سرنگ کے دُوسرے سِرے پر روشنی نظر آ رہی تھی۔ اُس کا اعتقاد، اُس کا اعتماد پکّا تھا، وُہ پکّے پیریں کھڑی تھی۔
برف پگھلی! یسُّوع پاک اُس عورت سے گویا ہُوا۔۔۔۔۔۔ عورت! تمھارا یقین بہُت کامل ہے ۔ ایسا ہی ہو گا، جیسا تُم چاہتی ہو۔
خُداوند نے اُس کے بھروسے، اُس کے عقیدے کی تعریف کی، اُس کے مقصد کی لگن کو اُس نے سراہا۔ اور اپنے مشن کی سرحدوں کو وُہ پار کر گیا۔ اُس نے اُس عورت کو تسلّی دی کہ تُم مُراد لے کر آئی تھیں، نامُراد نہیں لوٹو گی۔ اور اُسی لمحے ہی اس بدرُوح سے کِنعانی عورت کی بیٹی کی جان چھُٹ گئی۔ اُس نے شفا پائی۔
حال آں کہ یسُّوع پاک کا مشن اُس کے باپ خُدا شان والے نے متعیّن و محدُود کر دیا تھا۔ مگر خُدا بیٹے کو معلُوم تھا کہ وُہ ان طے شُدہ وسعتوں سے سرتابی کر سکتا تھا کیوں کہ اُس کو یہ بھی معلُوم تھا کہ عورت کے اس پُختہ وشواس کو آسمانی خُدا جلال والے کی تھپکی حاصل تھی ورنہ وُہ جو ارادہ لے کر ائی تھی اس پر جم نہ سکتی۔ یہ اُس کے مقدُور سے باہر تھا۔ اور خُداوند یسُّوع مسیح کے دِل میں بھی تو جذبہء ترحّم اس کے مُقدّس خُد اباپ نے ہی اُجاگر کِیا تھا۔ اُس کو یہ بھی معلُوم تھا۔ اِسی لیے اُس عورت پر ترس کھا کے خُداوند یسُّوع کا دِل بھی ہمکنے لگا تھا۔ا ور وُہ اُس کی مدد پر تیّار ہو گیا۔ یُوں ایک ربّی حُکم ابنِ خُدا نے ٹال دیا۔ چُناں چہ انجیلِ مُقدّس کے اِس مضمُون سے ہمیں پتا چلتا ہے بل کہ ایک دُنیا پر عیاں ہو گیا، کائناتِ الٰہی پر یہ راز فاش ہو گیا کہ مُقدّس یسُّوع المسیح کی ذات پاک اصل میں کیا ہے، اُس کے اختیار میں کیا ہے، اس کی طاقت و قُدرت، شان و تمکنت سب پر کھُل گئی۔ اس کی کارسازی سبھی مانتے تھے، اس کے مشن کی کامیابی پر سب کو بھروسا تھا، اب زیادہ ماننے لگے، زیادہ بھروسا کرنے لگے۔ مسیحی اچھّے ہو گئے، اچھّے مسیحی مومن ہو گئے اور سب خُداوند قُدُّوس کی پسندیدہ اُمّت بن گئے۔