:سُوال نمبر12
چلیے ہم فرض کر لیتے ہیں کہ مسیحی دوست تین خُداﺅں والے عقیدے کو سپانسر نہِیں کرتے، تو پِھر حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کی اُلُوہیت پر ایمان کا کیا مطلب؟ ایسا کیوں کر ممکن ہے کہ ایک اِنسان جس نے بطنِ مادر میں نشوونما پائی ہو، عہدِ شیری میں اسے آغوشِ مادر نصیب رہی ہو، اِنسانوں میں ہی اس کی نگہداشت و پرداخت ہُوئی جیسے بچے کی پرورش ہوتی ہے اور پِھر وُہ خُدا ہونے کا دعویٰ کر دے یا وُہ فانی اِنسان بڑا ہو کر لافانی خُدا بن جائے؟ کیا اللہ تعالیٰ کی عظمت و حشمت پر، اُس عظیم تریں خُدا جل شانہ کی عالمِ مادّی سے ماورائیت پر، ایسے مسیحی عقیدے سے حرف نہِیں آئے گا؟ کیا مسیحیت کے ہاں یہ مناسب عقیدہ ہے؟
جواب:۔ہر امرِ ربی اس کی عظمت و بزُرگی کے شایانِ شان ہوتا ہے، اس کی رفعت لا محدود ہے۔ اس کی مطلقیت میں کلی مقتدری و مختاری ہے۔ ہم کمزور، عاجز و بے بس اِنسان بھلا اس سے اپنی من مانی شرائط کیسے قُبُول کروا سکتے ہیں، خُدا پاک کے حضور ہمارا کیا دباو؟ ہم اور اُسے ڈکٹیٹ کر سکیں، ہم کیا اور ہماری اوقات کیا۔ اس کے جلال کے سامنے ہماری کیا مجال۔ جب ہم پُکارتے ہیں، اللہ اکبر۔ تو کیا اس کا یہ مطلب نہِیں کہ خُدا ہمارے فہم، ادراک اور احساسات سے کہیں بلند ہے۔ اگر لا محدود رحم و رحمتِ الٰہی نے چاہا کہ وُہ اِنسان بن جائے تا کہ تمام نسلِ اِنسانی اس کی عظیم و متبرک آسمانی مَحَبّت سے سرشار اور فیضیاب ہو سکے، تو ہم کون ہیں جو ایسا کرنے سے اسے روک سکیں، ہماری کیا بساط، ہم میں ایسی سکت کہاں! (حوالہ کے لیے تھِیم2 اور سیکشن4 پر براہِ کرم ایک نظر پِھر ڈال دیکھیے)، شکریہ۔