German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سوال نمبر113

۔حضرت عیسیٰ ابنِ مریم کے بارے میں مقدس انجیل یا اناجیلِ پاک میں ذکر آیا ہے کہ انھوں نے بے ثمر انجیر کے درخت کو اپنی ملامت کا نشانہ بنایا، بل کہ اسے بے برگ و بار کر دیا۔ یہ کِس قسم کی ''الفت آمیز شفقت'' اور ''محبت بھری توجُّہ'' تھی، جناب؟ حضرت یسوع المسیح کہ جنھیں آپ خُدا کا بیٹا بتاتے ہیں، بھوک پیاس نے انھیں عاجز کیے رکھا۔ ہو خُدا شان والے کا مقدس بیٹا اور تنگ کرے اُسے بھوک پیاس! بات سمجھ سے باہر ہے، ہے نا، جی؟

 

جواب:۔

اور جب صبح کو شہر کو واپس جا رہا تھا تو اُسے بھوک لگی۔ اور انجیر کا ایک درخت راہ کے کنارے دیکھ کر اُس کے پاس گیا۔ اور پتوں کے سوا اُس میں کچھ نہ پایا۔ تو اس سے کہا: آیندہ تجھ میں کبھی پھَل نہ لگے، اور اسی دم انجیر کا درخت سوکھ گیا۔ اور شاگردوں نے یہ دیکھ کر تعجب کِیا اور کہا کہ انجیر کا درخت کیوںکر ایک دم سُوکھ گیا!

یسوع نے جواب میں اُن سے کہا: مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر تم ایمان رکھو اور شک نہ کرو تو نہ صرف یہی کر سکو گے جو انجیر کے شجر کے ساتھ ہوا بل کہ اگر اس پہاڑ سے بھی کہو گے۔۔۔۔۔۔ تُو اکھڑ جا اور سمندر میں جا پڑ۔۔۔۔۔۔ تو یہ ہو جائے گا۔ اور جو کچھ تم ایمان کے ساتھ دعا میں مانگو گے وہ سب تمھیں ملے گا۔

مقدس متی۔۔۔۔۔۔18:21تا22

یہیں سے آپ نے اپنا سوال کشید کِیا ہے نا؟

کلیسیائی عقیدہ کے مطابق خُداوند اقدس یسوع المسیح سو فی صد خُدا تھا اور سو فی صد ہی انسان تھا۔ اس سیارئہ زمین پر وہ کِسی بھی دوسرے آدمی کی طرح ایک آدمی تھا، ہاں البتہ اس فرق کے ساتھ کہ یسوع پاک گناہوں سے پاک تھا۔ معصوم۔ نئے عہد نامہء مبارک کی چاروں اناجیلِ مقدسہ میں اس دعوے کی تصدیق موجود ہے۔

مناسب مقدار میں پانی ملے اور ضرورت کے مطابق کھاد خوراک بھی، چاہے زمین بنجرہو یا بے شک پتھریلی پڑی ہو، شجرِ انجیر وہاں بھی شاداب و ثمربار ضرور ہو جائے گا۔

اور اس نے یہ تمثیل کہی کہ کِسی کے تاکستان میں انجیر کا ایک درخت لگا ہوا تھا۔ اس نے آ کر اس کا پھل ڈھونڈا، مگر نہ پایا۔ تب اس نے کرّام سے کہا: دیکھ! تین برس سے مَیں آ کر اس انجیر کے درخت میں پھل ڈھونڈتا ہوں، مگر نہیں پاتا۔ اسے کاٹ ڈال، یہ زمین کو بھی کیوں روکے رہے؟

پر اس نے جواب میں اُس سے کہا کہ اے خُداوند! اس سال اور بھی اسے رہنے دے کہ مَیں اس کے گِرد تھالا کھودُوں اور کھاد ڈالوں۔ شاید کہ آیندہ پھلے۔ نہیں تو پھر کٹوا دینا۔

مقدس لوقا۔۔۔۔۔۔6:12تا9

نام کا شجرِ انجیر! بے ثمر و بے فیض! بے پھَلے اس درخت کو بجا طو رپر کہا گیا ہے وبالِ جاں ۔۔۔۔۔۔وبال ہے اپنے لیے اور دوسروں کے لیے بھی۔

بائبل مقدس کی جس عبارت کے حوالے سے بات ہو رہی ہے، وہ کوئی محیر العقول تادیبی واقعہ نہیں۔ غور فرمائیے، قدرت کی پیدا کردہ نباتات میں سے بھی بھلا کِسی کو سزا دی جا سکتی ہے؟ البتہ اسے علامتی کارروائی کا نام دیا جا سکتا ہے۔ ہیکل میںجو کچھ مقدس خُداوند یسوع مسیح نے کِیا، اُس کا ذکر مقدس متی کی ا نجیلِ پاک میں یوں آیا۔۔۔۔۔۔

اور یسوع نے ہیکل میں داخل ہو کر اُن سب کو، جو ہیکل میں خریدو فروخت کر رہے تھے، نکال باہر کِیا اور صرّافوں کے تختے اور کبوتر فروشوں کی چوکیاں اُلٹ دیں اور اُن سے کہا: یہ لکھا ہے کہ میرا گھر دُعا کا گھر کہلائے گا مگر تم اسے ڈاکوؤں کی کھوہ بناتے ہو۔

اور لنگڑے اور اندھے ہیکل میں اس کے پاس آئے اور اُس نے اُن کو شفا بخشی۔

اور جب سردار کاہنوں اور فقیہوں نے ان تعجب انگیز کاموں کو جو اس نے کیے او رلڑکوں کو ہیکل میں پکارتے اور داؤد کے بیٹے کو ہو شعنا کہتے دیکھا تو خفا ہوئے، اور اُس سے کہا تُو سنتا ہے کہ یہ کیا کہتے ہیں؟

یسوع نے اُن سے کہا: ہاں۔ کیا تُم نے کبھی نہیں پڑھا کہ بچوں اور شیر خواروں کے مُنہ سےتُو نے کامل حمد کروائی۔

اور وہ اُنھیں چھوڑ کر شہر کے باہر بیت عنیا میں گیا اور وہیں رہا۔

مقدس متی۔۔۔۔۔۔12:21تا17

ان سے اگلی آیاتِ مبارکہ شجرِ انجیر کا قصّہ ہیں۔ ان کی وضاحت میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ اسرائیل کے بارے میں انصاف کا فیصلہ، فتویٰ ہے۔ خُداوند یسوع پاک کی راہ میں یہ انجیر کا درخت پڑتا تھا۔ وہ خوشی خوشی اس کے قریب پہنچا، اس آس میں کہ اسے کھانے کے لیے اس سے اس کا پھل ملے گا۔ خُداوند اقدس کی بھوک تو حوالہ بنی اس کی اس دلچسپی کا جو وہ انجیر کے درخت میں لے رہا تھا کیوں کہ اس کی مثال دے کر اُس نے اپنے امتیوں کے پلے کوئی اور ہی بات باندھنا تھی۔ درخت، بھوک، پھل اُجاڑ اور ویرانیاں سب استعارہ تھے آنے والے واقعات و حادثات کا۔ اسے اس موقع کے درخت سے کوئی پھل حاصل نہ ہوا۔ وہ کوئی سوکھا سڑا درخت بھی نہ تھا۔ پتّے ہر شاخ پہ موجود تھے، درخت ہرا بھرا تھا مگر بے پھلا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پل نہ سہی انجیر کے شگوفے ہی میسر آجاتے جو درختوں کا پھل سے لدنے کا پہلا عمل ہوتے ہیں۔ غنچے بھی غائب تھے۔ ورنہ اُن سے کام چلایا جا سکتا تھا۔ اور انھیں چکھنے کا اپنا ہی ایک مزہ ہوتا ہے۔ نہ ثمر نہ غنچے، نہ انجیریں نہ ان کے شگوفے، پھر تو دل سے نکلی بد دعا، شدید قسم کی الٰہی پھٹکار، خُداوند کی لعنت ملامت اس بدنصیب شجر کے حصہ میں آنا ہی آنا تھی، وہ تاب نہ لایا، فوراً ہی اس کی ٹہنیاں بالن بن گئیں، پتّے سوکھ کر جھڑ گئے اور درخت ٹُنڈ مُنڈ ہو گیا۔ ہم نے جو اخذ کِیااس کے آسان ابلاغ کے لیے عرض ہے صاحب! کہ یہ جو کچھ ہوا علامتی پیشینگوئی تھی۔ اشارہ تھا کہ یہ تو کچھ بھی نہیں۔ اصل پت جھڑ تو وہ ہے جو بڑے پیمانے پر، بہت بڑا وبال بن کر اسرائیل پر آگے آنے والا ہے، یا بنی اسرائیل یعنی یہودیوں کے آگے آنے والا ہے۔ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ اس معجزے کو جس کی زد میں انجیر کا درخت آیا اسے کِسی نامرادی، مایوسی، ناکامی یا اشتہا سے کوئی علاقہ واسطہ نہ تھا۔ یہ تو اہلِ یہود کے لیے بس ایک وارننگ تھی۔

مزید حوالوں کے لیے دیکھیے:

مقدس متی۔۔۔۔۔۔43:21اور3:22و 23

مثبت خارجی علامات کے باوجود اندرونی طور اسرائیل بے ثمر درخت کی مثال تھا۔ دور سے دِکھائی دیتا تھا انجیر کا پھلدار درخت ہے، واسطہ پڑنے پر، قریب آنے پر پتا چلتا تھا، ثمرندارد۔ چناں چہ یہ پتوں کا جھڑنا مکاشفائی انداز کا کلمہ ہے، تمثیلاً جزا و سزا کا فیصلہ ہے جس نے پورا ہونا تھا یروشلم مقد س کی مُکمَّل تباہی کی صورت میں اور اس کا وبال اس کے ہیکل پر سب سے زیادہ پڑنا تھا۔ یہ مکافاتِ عمل کی پیشینگوئی تھی۔ حوالہ کے لیے اعادہ فرمائیے:مقدس لوقا۔۔۔۔۔۔6:13تا9

یہاں یہ جو تمثال ہے انجیر کے درخت کی، یہ در اصل وہ طرزِ ادا ہے اس ابلاغ کی جس میں خیالات کو تمثیل کے رنگ میں ظاہر کِیا جاتا ہے۔ا نجیر کے بے برگ و بار درخت کے علامتی اظہار سے اسرائیلیوں کو تنبیہ کی گئی ہے:

میرا دُکھ حد سے باہر ہے،

میرا دِل مجھ میں غمناک ہے۔

ارمیا۔۔۔۔۔۔18:8

مجھ پر افسوس! مَیں تابستانی میوہ جمع ہونے اور انگور توڑنے کے بعد کے خوشہ چین کے مانند ہوں۔ کھانے کے لیے نہ انگور نہ پہلا پکّا مرغوب انجیر ہے۔

میکا۔۔۔۔۔۔1:7

مَیں اپنے رفیق کا گیت گاؤں گا، یعنی اس محبت کا گیت جو وہ اپنے تاکستان سے رکھتا ہے۔

پہاڑی پر زرخیز جگہ میں میرے رفیق کا ایک تاکستان تھا۔ اور اُس نے اسے کھودا اور اس کے پتھر نکالے اور اس میں عمدہ تاکیں لگائیں اور اس کے درمیان ایک بُرج بنایااور اُس میں کولھو گاڑے اور انتظار کِیا کہ وہ انگورکا پھل دے تو اس میں بدبودار چیزیں لگیں۔

اب اے باشندگانِ یروشلیم اور مردانِ یہودہ! میرے اور میرے انگور کے درمیان تم ہی انصاف کرو۔ کون سی بات ہے جو مجھے اپنے تاکستان کے لیے کرنی چاہیے تھے اور مَیں نے نہیں کی۔

تو پھر

جب مَیں نے انگور کے پھل کا انتظار کِیا، تو اس میں بدبودار چیزیں کیوں پیدا ہوئیں؟

مَیں اس کی باڑ دُور کروں گا اور وہ چرا گاہ ہو گا اور مَیں اس کی دیوار گِرا دوں گا تو وہ پایمال کِیا جائے گا۔ مَیں اسے ویران کروں گا۔ وہ نہ چھانٹا جائے گا اور نہ کھودا جائے گا۔ سو اس میں خاردار جھاڑی اور کانٹے نکلیں گے اور مَیں بادلوں کو حکم دُوں گا کہ اس پر مینہ نہ برسائیں۔

پس ربّ الافواج کا تاکستان اسرائیل کا گھرانا ہے اور مردانِ یہودہ اس کے پسندیدہ پودے ہیں۔

اور وہ عدل کا منظر رہا

پر دیکھ! خون ریزی ہے

اور وہ صداقت کے انتظار میں تھا، پر دیکھ!

ظلم ہے۔

افسوس اُن پر جو گھر سے گھر ملاتے اور

کھیت سے کھیت نزدیک کرتے ہیں، یہاں تک کہ جگہ نہیںچھوڑتے

تا کہ تم اکیلے ہی زمین میں سکونت کرو''۔

اشعیا۔۔۔۔۔۔1:5تا 8

اسرائیل خُدا کی طرف سے مردود قرار پانے پر ارشاد ہوا:

چوں کہ اُنھوں نے ہوابوئی ہے، وہ بگولا کاٹیں گے۔ نہ اُن کی فصل بالیوں کی ہو گی، نہ اُس میں اناج سے آٹا نکلے گا اور اگر نکلے بھی تو پردیسی اُسے نگل جائیں گے۔اسرائیل نگلا گیا ہے اب وہ قوموں کے درمیان ناپسندیدہ برتن کے مانند ہیں۔

ہوشیع۔۔۔۔۔۔7:8اور8

اسرائیل نے اپنے خالق کو فراموش کر کے مندر بنائے ہیں اور یہودہ نے بہت سے حصین شہر تعمیر کیے ہیں۔ لیکن مَیں ان کے شہروں پر آگ بھیجوں گا اور وہ اس کی عمارتوں کو بھسم کر دے گی''۔ 

ہوشیع۔۔۔۔۔۔14:8

عقلمند کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے۔


Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?