:سوال نمبر112
۔مسیحیت دعوے دار ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اکیلے خُدا کے اکلوتے فرزندِ ارجمند ہیں کیوں کہ دنیا میں ان کا کوئی باپ ثابت نہیں۔ باپ تو باوا آدم علیہ السلام کا بھی کوئی نہ تھا۔ تو پھر آیا آپ حضرت آدم علیہ السلام کے بھی خُدا کا بیٹا ہونے کا اعتراف کریں گے؟ سوال قدرے ٹیڑھا سا نہیں؟
جواب:۔سوال حضرت جیسا بھی ہے،جواب بڑا سیدھا، سادہ اور واضح سا ہے۔ کلیسیا کا ایمان بھی ہے اور ببانگِ دُہل ہر خاص و عام کے لیے اعلان بھی کہ خُداوند پاک یسوع ناصری ابنِ خُدا ہے۔ اس ایقان و عقیدہ تک کلیسیا کیوں کر پہنچی، اس کی تفصیل سوال نمبر50کے جواب میں دی جا سکی ہے۔
کیتھولک کلیسیا کی مسیحی تعلیم کی کتاب کے لُبِّ لباب(خلاصہ)(The Compendium of the Catechism of the Catholic Church)میں کلیسیائی عقیدے کے بارے میں مُکمَّل وضاحت کر دی گئی ہے جس کا تعلق خُداوند پاک یسوع مسیح کی ذاتِ بابرکات سے ہے:
94۔ روح القدس سے حاملہ پائی گئی
اس سے کیا مراد ہے بھلا؟
اس کا فقط یہ مطلب ہے کہ مقدسہ کنواری مریم کے رحم میں روح القدس کے اقدام کے طفیل لافانی بیٹا آگیا اور یہ انہونی ہونے میں کِسی مرد کی طرف سے قطعاً کوئی عمل دخل نہ تھا، بس حکمِ ربی تھا جو پورا ہوا:
اور فرشتے نے جواب میں اُسے کہا: روح القدس تجھ پر نازل ہو گا اور حق تعالیٰ کی قدرت تجھ پر سایہ ڈالے گی اور اس سبب سے وہ قدوس مولود خُدا کا بیٹا کہلائے گا۔
بمطابق مقدس لوقا۔۔۔۔۔۔35:1
اطلاعِ بشارت کے موقع پر فرشتے نے اس سے یہی کہا تھا۔
95۔ وہ مقدس کنواری ماں عفیفہ مریم کے بطن سے پیدا ہوا
مقدسہ مریم فی الحقیقت مادرِ خُدا کیوں ہوئی؟
اور تیسرے دِن قاناے جلیل میں بیاہ ہوا اور یسوع کی ماں وہاں تھی۔
مقدس یوحنا۔۔۔۔۔۔1:2
مقدس یوحنا باب1کی تلاوت کی جائے تو معلوم ہو گا کہ خُدا بیٹا خُدا کا کلمہ کہلاتا ہے کیوں کہ ''ابتدا میں کلمہ تھا اور کلمہ خُدا کے ساتھ تھا اور کلمہ خُدا تھا''۔ کلمہ عقل کی راہ سے جنم لے کر باپ کا خیال ہے اور خیال ہم پر بولے ہوئے کلمہ کے ذریعہ ظاہر کِیا جاتا ہے۔ وہ ازلی ہے، باپ سے علیحدہ شخص ہے اور حقیقی خُدا ہے۔ اور اس نے مصلوب ہونا تھا جب:
اور یسوع کی صلیب کے پاس اس کی ماں اور اس کی ماں کی بہن۔ حلفائی کی بیوی مریم اور مریم مجدلی کھڑی تھیں۔
مقدس یوحنا۔۔۔۔۔۔25:19
مقدسہ مریم صحیح معنوں میں خُدا کی ہی ماں ہے کیوں کہ وہ خُداوند پاک یسوع مسیح کی والدہ ہے۔ جس کو مقدس کنواری ماں نے روح القدس سے پایا۔ قدرتِ خُداوندی سے اس باکرہ کے رحمِ مادر میں روح القدس سے پاک یسوع خُداوند آیا اور وہ اس کا حقیقی بیٹا بن گیا جو خُدا باپ اقدس کا ابدی بیٹا ہے اور وہ خود خُدا ہے۔
باتحفظ ِبکر
98۔مسیح اقدس کے بے داغ حمل میں آنے کا کیا مطلب ؟
روح القدس جو مقدس روح الحق ہے، مشیتِ ایزدی کے سبب اور روح القدس کے اختیار و قدرت کے ذریعے، عفیفہ کنواری مقدسہ مریم کے رحم میں وہ حمل ٹھہر گیا جس سے مقدس خُداوند یسوع کی پیدایش ظہور میں آنا تھی۔ اس سارے الوہی تدریجی عمل میں کِسی بھی مرد نے پوتر ہستی باکرہ ماں مریم کو ہرگز چھوا تک نہ تھا، کبھی بھی۔ اپنی خُدائی فطرت میں یسوع پاک آسمانی باپ کا بیٹا ہے۔ ابنِ خُدا ۔ اور وہ اپنی انسانی طبیعت اور خواص میں بیٹا ہے کنواری پاک ماں مریم کا۔ ابنِ آدم۔ تاہم ربی اور آدم زادوں والے طور واطوار، دونوں کے لحاظ سے یہ حتمی بات ہے کہ وہ بیٹا خُدا کا ہی ہے۔ کیوں کہ وہ ذات میں ایک ہے، ہستیِ خُداوند خُدا۔
مسلمانوں کی مذہبی کتاب القرآن جسے وہ ضابطہء حیات والممات مانتے ہیں اور مسیحیوں کی مقدس کتاب بائبل پہلے پہلے انسانی جوڑے کی تخلیق کے بارے میں بتاتی ہیں کہ وہ بابا آدم اور اماں حوّا تھے جو پہلے پہلے میاں بیوی بنے۔ قرآنِ مجید میں بیوی کا ذکر تو موجود ہے مگر اُس کا نام نہیں بتایا گیا۔ تمام متن اپنے سیاق و سباق سمیت مذکورہ مضمون میں صاف صاف واضح کرتے ہیں کہ پہلا انسان آدم اور اس کی بیوی حوّا محض ذی بشر تھے، خاک سے، کھنکھناتی مٹّی گارے سے گُندھے ہوئے پُتلے، مرد و عورت، دو انسان جن سے گناہ سرزد ہونا کوئی بعید نہیں، دونوں انسان تھے تو گناہ کی لپیٹ میں بھی آئے، پشیمان ہوئے اور عفو و درگذر کے لیے لگے خُدا سے گڑگڑا کر معافیاں مانگنے، توبہ کی قبولیت کے لیے مِنّت زاریاں کرنے۔ اُن انسانوں کے برعکس خُداوند یسوع پاک معصوم تھا۔ وہ گناہ کرنے کی پاداش میں دنیا میں نہ اُترا تھا، وہ تو گناہوں کی بخشش کرنے دنیا میں آیا تھا۔ ا س لیے دنیا اس کو جلال دیتی ہے اور اس کے نام کی تمجید ہوتی ہے۔