German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سُوال نمبر81

۔آرتھوڈاکس، کیتھولکس اور پروٹیسٹینٹس مسیحیوں میں کیا فرق ہے۔ یقین و اعتقادات کی کون سی صفات ہیں جن پر ایمان رکھتے ہیں؟

 

جواب:۔
(1)راسخ العقیدہ مسیحیّت او رکیتھولک کلیسیا

آرتھوڈاکس کلیسیائیں اصطلاح میں وہ کلیسیائیں کہلاتی ہیں جو مسیحیّت کی اُس شکل کی پیروکار ہیں جس نے بازنطینی دورِ اقتدار میں نشوونما پائی تھی۔ مسیحیّت کے اِس چہرے نے سلطنتِ روما کے مشرقی علاقوں میں مزید نمُوپائی اور پھر پھیل کر روم کی سرحدوں سے بھی مسیحیّت کی یہ قسم پرے نکل گئی۔ اور بطورِ خاص مشرقی سلاویہ تک جا پہنچی۔ بہت سی مشرقی راسخ العقیدہ کلیسیائیں اپنے آپ کو آرتھوڈاکس کلیسیاؤں کے نام سے پکارے جانے کی بھی دعوے دار ہیں۔ یہ کلیسیائیں آرتھوڈاکس سے یوں بھی مُختلف ہیں کہ بعض مذہبی اصولوں میں، تعلیم میں اور مقررہ طریقِ عبادت میں ان جیسی نہیں ہیں (حال آںکہ 1980ع میں ان کے درمیان جو اعتقادی اختلافات تھے، اُن پر ایک طرح سے موافقت کی صورت پیدا بھی کر لی گئی تھی۔ خصوصاً پاک تثلیث کے تیسرے مُقدّس اقنُوم کی پرستش پر زور دینے سے متعلّق مُعاملات پر)۔کیتھولک مسیحی مشرقی کلیسیائیں بشپ آف روم کے ساتھ قانُونی کلیسیائی اِتّحاد پر اختلاف رکھتی ہیں۔ آرتھوڈاکس کی اصطلاح، جسے عُرفِ عام میں راسخ العقیدہ کہا جاتا ہے در اصل اس سے مُراد ہے خُداوند پاک کی حمد و ثنا راست طریقے سے ادا کرنا اور یُوں آدابِ لطوریا کی مرکزی قدر و قیمت جتلانے والی بات ہے، یہ کہ آرتھوڈاکس کلیسیائیں پاک یوخرست پر اعتقاد کے ضمن میں مسیحیّت کی شہ رگ کے برابر درجہ دیتی ہیں۔

کلیسیائی اُمُور میں بشپ آف روم کو جو حقِّ فوقیّت حاصل ہے، 1054ع سے ہی آرتھوڈاکس کلیسیاؤں کی طرف سے اِس حق پر ریزرویشنز کی بِناپر آج بھی کلیسیاؤںکی جُداگانہ حیثیت برقرار رکھنے کا اصل سبب ہے جو موجُود ہے۔ (ہماری کتاب Christian Responses To Muslimsکے باب6مIII۔۔۔۔۔۔1.2جُزو کو ایک نظر دیکھ لیجیے، اِس ہوم پیج کے آغاز میں ہی اسے نقل کر دیا گیا ہے۔) 

بشپ آف روم کی فوقِیّت کا دائرئہ اختیار جب مغرب تک پھیل چُکا، خاص اِسی سبب سے نہیں کہ رومیوں کے اقتدار کی ہَوَس اِس کا محرّک بنی، دائرئہ اختیار میں وُسعت اُس ذِمّہ داری کو نِبھانے کا جواز ثابت ہُوئی جس کا اوّلیں مقصد ہی آزادی، خُود مختاری اور اِتّحاد بین الکلیسیا قرار پاچُکا تھا۔ روم کو یہ فضیلت قُدرتی طور پر دُوسروں سے بس مِلتی ہی چلی گئی، روم نے اس کے لیے خُود نہ کوئی مطالبہ کِیا تھا، نہ خواہش کا اظہار۔ یہ جو کلیسیاؤں کے مابین دراڑیں پھُوٹ پڑی تھیں اُنھیں جائز قرار دینے کے لیے بہتیرے دِینی مسائل تخلیق کر لیے گئے تھے۔ آج بھی'' مَیں کمبل کو چھوڑتا ہُوں، کمبل مجھے نہیں چھوڑتا'' والی نوبت موجُود ہے۔ نزاع کا ایک سبب مُلاحظہ ہو یوخرست پاک کی مُبارک تقریب میں فطیری روٹی کے لاطینی رواج کو متروک قرار دیا جانا، پریسٹ لوگوں کے تجرّد کی مَنَّت بھی وَجہء اختلاف ہے، مثلاً ایک اور دراڑ جسے پاٹنا مُشکل ہو گیا وُہ ہے کہ نقایہ کے عقیدہ کے الفاظ میں معمُولی سی تبدیلی نے ہلچل مچا دی، فِیلوکوے(Filioque)مطلب ہے ''اور بیٹے سے'' نقایہ کے عقائد میں اضافہ سامنے آیا جس سے یہ مُراد تھا کہ رُوحُ الحق اقدس نہ صِرف مُقدّس باپ سے بل کہ پاک بیٹے سے بھی صادر ہوتا ہے جسے مشرقی راسخ العقیدہ کلیسیائیں رد کرتی ہیں۔ چناں چہ مشرقی اور مغربی کلیسیا کے الگ ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے۔

آرتھوڈاکس اور رومن کیتھولک چرچ میں دراڑ پڑ جانے کی ان فیصلہ ساز بہُت سی وجُوہ کے ساتھ ساتھ عبادت و پرستشِ خُداوندی کے اپنے اپنے طریق اور روحانیت کے اعتقادات نے بھی جلتی پر تیل کا کام کِیا ہے۔ اب آپ کو اندازہ ہوگیا ہو گا کہ جہاں تک اِن اختلافات و اعترافات کا تعلُّق ہے یہ مذہبی اُصُول و قواعد و ضوابط عقائد و ایمان سے اتنے نہیں جُڑے ہُوئے بل کہ اس سے متعلّق ہیں کہ کوئی کیوںکر، کیسے اور کتنا مسیحی ہے۔ یہی بڑے سے بڑے اختلافات ہیں جو شاخسانہ ہیں مشرق و مغرب کا۔ مشرق و مغرب کے انداز والی خلیج کا پیٹا کم تو ہو ہی جائے گا مگر مستقبل قریب میں ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔

مشرق میں رومن ایمپائر(سلطنتِ روما) کا استحکام اور روز بہ روز بڑھتی ہُوئی اس کی سَطوَت و شوکت کے چَھتَر تلے پلتی ہوئی سلطنت کی کلیسیا، جِس کی بُنیاد کانسٹنٹائن بادشاہ نے رکّھی۔ شاہ کانسٹنٹین 306ع سے 337ع اِکتّیس برس سریر آراے تختِ روم رہا۔ بادشاہ زمین پر خُدا کا نمایندہ کہلواتا تھا۔ وُہ خُداوند یسُّوع مسیح کے مانند کُرئہ ارض پر خُدا کا نائب تھا۔ وُہ مغرب میں خادمِ کلیسیا بھی تھا اور شہنشاہ بھی تھا۔ کلیسیا بھی اُسی کی ریاست تھی۔ مذہب و ریاست جُدا جُدا اکائی نہ تھے۔ شہنشاہ کو تمام اختیارات حاصل تھے، حکمرانی کے اور دِینی اختیارات۔ کلیسیا کے قوانین اور شریعت کے اُصُول شہنشاہِ روم پر لاگُو نہ ہوتے تھے۔ مجموعہء قوانینِ کلیسیا سے بالا تھا وُہ۔ دِینی اُصُولوں اور عقیدے کا ارتقا، جُرم کی تعزیرات، عدل کے قوانین اور ضابطے، ریاستی انتظام و انصرام پر اُس کی مضبُوط گرفت تھی مگر احکام و قوانینِ خُداوندی نے اُسے شُترِ بے مُہار نہیں چھوڑا تھا۔ شریعتِ خُداوندی ہی اُسے کینڈے میں رکھ سکتی تھی۔ یہ قیصر و پوپ کا ملغُوبہ تھا یا نہیں، الگ بحث ہے مگر یہ بات پکّی ہے کہ عوام اور کلیسیا، اسی طرح کلیسیا اور مُملکت کا چولی دامن کا ساتھ تھا، اِسی لیے یہ نظام چل رہا تھا۔ آباے کلیسیا اپنی ثانوی حیثیت پر قانع تھے، روم کے شہنشاہ سے ایک درجہ نیچے ہونا بھی اُن کے لیے شانِ مرتبت اور حاکم کے احکام کی تعمیل پر شاداں و فرحاں عمل پذیر رہنا اُن کے لیے خسارے کا سودا نہ تھا، حکمتِ عملی تھی۔ اور پِھر ایک وقت آیا سلطنتِ روما کے عُرُوج کو زوال آگیا۔ ایسٹ رومن ایمپائر راکھ کا ڈھیر ہو گئی، خُدا کی بادشاہی قائم رہی۔ قومی سیادت کار آئے، حُکمرانی کے انداز بدلے چرچ کا ڈھانچا وُہی رہا۔ زارِ روس کا زمانہ دیکھا، سربیا کے اور رومانیہ کے حُکمران آئے گئے۔ کلیسیا کا بیرونی سٹرکچر وُہی رہا۔ مگر اندر ہی اندر ذہانت، طاقت، سیادت اور تزویراتی حکمتِ عملی کی فصل جب پک کر تیّار ہوگئی تو نتیجہ تھا بطریقی خُود مختاری۔ مذہب پر کاربندی زیادہ تر لطوریائی حُدُود میں محدُود رہی اور اِسی میں ہی صدیاں بِیت گئیں۔ کوئی اِختراع، کوئی نُدرت کوئی جِدّت پیدا نہ ہُوئی، سٹیٹس کو رہا بظاہر۔ علمِ الٰہیات، مسیحی فلسفہ، مُعاشرتی عُلُوم اور فُنُونِ لطیفہ لکیر کے فقیر بنے رہے۔ وقت تھم گیا، کلیسیا جمُود کا شکار نہ ہُوئی، مگر جیسے تیسے اپنا وُجُود قائم رکّھے رہی۔ انقلاباتِ زمانہ اسے دیکھ دیکھ ایک دُوسرے کو کُہنیاں مارتے تھے۔

مغرب میں مُختلف النّوع تبدیلیوں نے سر اُٹھایا۔ جب مغربی رومن ایمپائر بھی ڈھے گئی، پاپائیت اپنے پُورے طمطراق اور تقدیس کے ساتھ اُبھری، بچی کھچی سی، رابطے میں جتنی بھی تھی، ننھّی سی ریاست کی نمایندگی کا بوجھ اُٹھانے کے لیے تقدُّس مآب پوپ نے اپنے شانے پیش کر دیے۔ آگے چل کر، وسطی اور مغربی یورپ کے لیے روحانی پیشوائی مُہیّا کر کے پوپ ایک سُوپر نیشنل پُل کا کِردار نِبھانے کے لیے کلیسیا اور کلیسیائی صُوبوں اور حلقوں کے بیچ آ گئے اور اُنھوں نے مقامی اور علاقائی حُکمرانوں کی اِس درخواست کی شُنوائی شُرُوع کر دی جِس میں اُنھوں نے عرض گُزاری تھی کہ اُن کی مُملکتوں و ریاستوں پر اُن کا حقِّ حُکمرانی تسلیم کرتے ہُوئے اُنھیں برکت سے نوازا جائے، لیکن مشرقی یورپ میں حالات مُختلف تھے۔ شاہ آباے کلیسیا سے اُوپر کی ہی چیز رہا اور بدلے میں اُنھیں ہر نُقصان سے بچانے اور اُن کی حفاظت و دیکھ بھال کا ذِمّہ ریاست کے پلّے باندھ دیا، گویا پوپ کا محافظ کہلایا۔ لیکن قُوّت کا توازُن مغرب میں روایت قائم رکھتے ہُوئے مشرق سے اُلٹ ہی رہا، بالکل اُلٹ۔

کِس کی جانب سے؟ حُکُومت کی یا پوپ کی جانب سے تقرری ہو؟ اسقف کے تقرّر پر اختلافِ راے اور پِھر اس کے حل کے سبب ہی فقط نہیں، بل کہ ہُوا یہ کہ مغربی یورپی نظام کی تان بِالآخِر خُود ہی اِس نتیجے پہ آن ٹُوٹی کہ مذہب کو سیاست سے الگ کر لیا جائے۔ فلسفہء مغرب کی جِلا و ارتقا کی اپنی ایک اہمیّت تھی تو، مگر لو کِی میں چلی گئی۔ مشرقی یورپ والے اور دُنیاے اسلام قُرُونِ وُسطیٰ کی غُلام گردشوں سے باہر ہی نہ آ سکے، دونوں ہی تقابلی جائزے کے لیے کُچھ بھی پیش نہ کر سکے۔ جب بویا ہی کُچھ نہیں تو کاٹتے کیا۔ اسلام کی سُوئی آج بھی وَہِیں اٹکی ہُوئی ہے کہ

جُدا ہو دِیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

مغربی یورپ نے البتّہ خاصی لمبی اُڑان بھری ہے، نئے زمانے کے نئے تقاضوں پر پُورا اُترا ہے، بڑی ہِمّت کی بات ہے! مذہبی قُوّتیں اور سیاسی طاقتیں اپنی اپنی جگہ اٹل ہیں، دونوں میں اِقتدار کی جنگ کوئی نئی بات نہیں۔ دونوں فریق جب مصروفِ زور آزمائی تھے مغرب نے اپنی جُدا راہ نکال لی۔ اس نے دونوں کو علیحدہ علیحدہ خُود مختار کر دیا۔ 

کلیسیا بھی خُوش، کِنگ بھی خُوش۔

(بیشتر مواد پیٹر آتیس کی کتاب ماخس وِی گوٹّ، ویردے مینش، داس کرسٹینٹوم، ڈُوئی سَیلڈورف: پاٹموس،1999ع کے صفحات110تا 112سے اخذ کِیا گیا )۔

(2) 16ویں صدی۔۔۔۔۔۔تحریکِ اِصلاحِ کلیسیا۔۔۔۔۔۔ پروٹسٹنٹ اور کیتھولک کلیسیا

تحریکِ احیاے عُلُوم کے دوران روم جِس افسوسناک صُورتِ حالات سے گُذر رہا تھا، بشپ صاحبان کے محلّات سے لے کر عام کم پڑھے لِکھّے خُدّامُ الدِّین تک کہ چودھویں صدی سے ہی اُن میں تحریک پیدا ہو چکی تھی۔ اِس لیے نشأۃ الثّانیہ کے در کھُلتے ہی مغربی کلیسیا میں ہر طرح کی اصلاحات کے لیے توانا صدائیں بُلند ہونے لگیں۔ پے در پے جنگوں کی وَجہ سے جو کلیسیامیں عمل دخل کے شوقین شہزادگان کے مفاد والے مقاصد کی آبیاری کے لیے لڑی گئیں،متعدّی مرض طاعون کی وبائیں پھُوٹیں اور ایسے بھی ادوار آئے جِن میں بھُوک، ننگ، افلاس کا غلبہ رہا، بربادیوں نے ہر طرف ڈیرے جما لیے، بات بات پر عذاب و دوزخ کے ڈراوے بھی عام تھے۔ مختصر یہ کہ جِس بشر کے سانسوں کے تار سلامت تھے وُہ خوف و ہراس کی چادر میں لِپٹا نظر آتا تھا۔ یہی اُس دور کی شناخت تھی۔ نشأۃالثّانیہ سے کافی پہلے بہُت سے لوگ وطن سے دُور ہجرت کرگئے اور اکثریت مقدّس سرزمین میں جا بسی، مُقدّس چیزوں(تبرّکات) اور مُقدّس شخصیات کے جِسم کی باقیات کی پرستش کرنے لگے اور بعض کیتھولک کلیسیا میں توبہ کر کے (توبہ کی ضرورت گُناہ کے بعد ہی پڑتی ہے) دُنیاوی سزا سے معافی یعنی دُعا یا عمل سے معافی یافتہ بن گئے۔ ایسی ترکیبیں لڑانے والوں کا تعلُّق کہِیں نہ کہِیں جادُو ٹونے سے جا جُڑتا ہے۔ ایسے بھی لوگ تھے جو اُس شخص کی موجُودگی کا فائدہ اُٹھاتے تھے کہ جو قُرُونِ وُسطیٰ سے چلے آتے پیشہ سے وابستہ تھے۔ یہ عام آدمی ہوتے تھے جو فیس وُصُول کر کے کلیسیائی معافی کا پروانہ تھما دیتے تھے۔

جناب جے وائی کلِف جو 1384ع تک زندہ رہے، جے ہس 1415ع تک ہی زِندگی اُن کا ساتھ دے سکی، مارٹن لُوتھر1546ع میں اپنا آخری سانس لے چُکنے سے پہلے پہلے تک اصلاحات کے لیے کی جانے والی کوشِشوں سے حوصلہ اور تقویت پا کر جِن حالات سے مسیحیّت گُذر رہی تھی اس پر اِن بزعمِ خُود اِصلاح کاروں کی تنقید نے صِرف ایمان ہی سے راستباز ٹھہرائے جانے کے نظریہء دِینی کو مُبہم ثابت کر دیا۔ اور سراہنے والوں نے اِسے خُوب سراہا۔ کلامِ مُقدّس کی اوریجنل فارم تھی اس کو انھوں نے انگریزی ترجمہ میں ڈھالا یا وہاں تک پہنچنے میں آسان بنایا۔ اور دُوسری لُوتھرین تحریروں کو بھی چھاپہ خانہ وُجُود میں آ چُکنے سے ہاتھوں ہاتھ پہنچنے کا موقع مِلا اور ایک حد تک قُبُولِ عام کی سَنَد بھی۔ کلیسیائی انتظامی ادارے میں دخیل شہزادوں کا حُبِّ جاہ کہ روز بروز شِدّت اختیار کرتا جا رہا تھا اور روم میں ان عوامل کے اِدراک کی سطح پر زوال کے ساےے تارِیکی پھیلا رہے تھے، اِس لیے مارٹن لُوتھر کی تمام کوشِشیں جِن کی اِصلاحِ کلیسیا کے لیے داغ بیل ڈالی جا رہی تھی بَیک فائر کر گئیں اور کلیسیا میں رسمی تقسیم یا کلیسیاؤں میں علیحدگی کی تفرقہ بازی کو تاریخ میں دُوسری مرتبہ بڑے پیمانے پر شہ ملنے لگی۔ کلیسیاؤں کا اِتّحاد، نفاق میں بدل گیا۔ نتیجہ یہ کہ اِصلاح پذیر شاخ جناب یُوزونگلی کی رہنُمائی میں علیحدہ ہو گئی۔ 1531ع میں مارٹن لُوتھر کِنگ ابھی حیات تھے۔یُوزونگلی وفات پا گئے۔ ان کی وفات کے بعد مارٹن لُوتھر بھی زیادہ نہ جِیے، بس پندرہ برس بعد ہی داغِ مفارقت دے گئے، پِھر جے کیلون صاحب نے تقسیم در تقسیم کی ذِمّہ داری سنبھالی، سال 1564عیسوی تک اِس دُنیا سے اُنھوں نے بھی رختِ سفر باندھا اور کُوچ کر گئے۔ کُچھ ہی عرصہ بعد کلیسیاے انگلستان بھی افتراق کا شکار ہو گئی۔ مقامِ شکر ہے کہ آج اِتّحادِ بین الکلیسیا کے لیے مساعی عُرُوج پر تو نہیں، مگر زور پکڑ رہی ہیں۔ مسافر چل پڑے تو منزل کو بھی پا ہی لیں گے۔ 

بائبل مُقدّس کے ضِمن میں جو کم توجُّہی برتی جا رہی تھی اور اس کے حقِّ اہمِیّت میں کنجُوسی جو اب تک دِکھائی جا رہی تھی، یہ اُسی کا ردِّ عمل تھا جو سامنے آیا۔ نیک اعمال کی فوقیّت میں غُلُو سے جِس طرح کام لیا جا رہا تھا، اس کی تاثیر اور اس کا تاثُّر بھی جواز بنا کہ کلیسیاؤں نے محض اپنے طور ہی کتابِ مُقدّس کے جوہر، کلامِ مُقدّس کی رُوح پر ساری توجُّہ مُرتکز کر دی۔ اسے سولا سکریپتورا کہتے ہیں۔یہ ہُوا تو سولا گریشیا بھی ہُوا جِس کا مطلب ہے خُدا کے فضل، اُس کے کرم،اُس کی برکت پر یقین و بھروسا اور پِھر سولس ڈیئیُوس یعنی عالَمِ بالا پر خُدا کو جلال دینا۔

وُہ جو مُصلحین تھے وُہ رومن کلیسیا کو تنقید و تنقیص کا ہدف بنا نے کے باوُجُود اس کی مسیحی روایات کے ساتھ پِھر بھی مُنسلک رہے مثلاً کہ ان کی تعلیمات کی اساس اب بھی قدیمی مجالس (کونسلیں) ہی تھیں۔ بعد میں آنے والی دہائیوں کے دوران کِسی وقت یہ تعلُّق بھی ختم کر دیا گیا۔ اسی ''پروٹسٹینٹ راسخ الاعتقادی'' نے سترھویں صدی میں پہنچ کے مسیحی زِندگی کی رہنُمائی کے لیے صِرف اور صِرف بائبل پر اِکتفا کر لیا اور عامۃ المومنین کو کلامِ خُدا پر ہی فقط اِنحصار کرنے کی تاکید کر دی۔ جو کُچھ کتابِ مُقدّس میں ہے بس وُہی دُرُست ہے، لفظ بہ لفظ، حرف بہ حرف۔ کِسی اور کا کُچھ بھی کہا سُنا لِکھا پڑھا ہرگِز مُستند نہیں۔ بس بائبل ہی بائبل ہے، اور کُچھ نہیں اور اِس عقیدے کو خُداوندِ قُدُّوس کی تائید حاصل ہے۔ اس نے توفیق دی تو یہ انتہائی اہم قدم اُٹھایا گیا۔

''پروٹیسٹنٹ'' کی اِصطلاح کہاں سے آئی؟ یہ اِصطلاح اُن کلیسیاؤں نے خُود ہی اِختراع کر لی۔ انگلستان میں سولھویں صدی کے وسط میں یہ اصطلاح قُبُولِ عام کا درجہ پا گئی۔
کیتھولک مسیحیوں نے روم سے وفاداری کا حق نِبھا دیا۔ اُنھوں نے تجدیدِ کلیسیا کی اِبتدا سے اِصلاحِ کلیسیا کے پراپیگنڈا کو کاؤُنٹر کرنے کی ٹھان لی۔ تجدیدِ کلیسیا خم ٹھونک کر اِصلاحِ کلیسیا کے سامنے کھڑی ہو گئی۔

 (حوالہ کاؤنسِل آف ٹرینٹ،1563۔۔۔۔۔۔1545ع) 

اُس دور کے مسیحیوں نے مثالی جِدّوجُہد کرتے ہُوئے مُروِّج خامیوں، تقصیروں اور کوتاہیوں کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ مسیحی لائف سٹائِل کی تجدید کے پیشِ نظر اُن ذرائع پر زور دیا جو وزن رکھتے تھے اور مُمِدو مُعاوِن ثابت ہو سکتے تھے۔ مثلاً پریسٹ لوگوں کے لیے بہتر تخصیصی تربیت، اسقفی معاینہ جات میں باقاعدگی، مُقدّس اور مُقدّسہ ہستیوں کے لیے لازمی عقیدت و احترام بجا لانے کے عمل کی حوصلہ افزائی، یوخرستی تقویٰ و پارسائی کی قدردانی۔۔۔۔۔۔ 

بہ ہرحال اِس بات سے بھی اِنکار نہیں کہ جِس طرح تحریکِ اِصلاحِ کلیسیا اپنے ایجنڈا پر عمل درآمد کے لیے جبر سے کام لے رہی تھی، اس کی مخالف بہبُودی تحریکِ تجدیدِ کلیسیا بھی کم مُتَشَدِّدانہ رویّہ نہ رکھتی تھی۔ ایک سیر تھی تو دُوسری سوا سیر۔ جہاں تک کاؤنٹر کرنے والی اس کیتھولک تحریک کا تعلُّق ہے اُس کی جھلک ہمیں اُس زمانے کے فُنُونِ لطیفہ میں نظر آتی ہے۔ مثلاً اُس دور کی عمارات، طرزِ آرایش، تصاویر، مجسّمے اور اس بروق دور (سترھویں، اٹھارھویں صدی) کی تصانیف و تخلیقات۔ اِس پر مُستزاد یہ کہ نئے نئے برِّاعظم دریافت ہو رہے تھے چُناں چہ مشنری ادارے بھی خدمات سرانجام دینے کے لیے حرکت میں آگئے۔ جو تحریکیں اور تقسیمیں روم میں پیدا ہُوئیں وُہ تمام برِّاعظموں میں پھیل گئیں، اور یہ بِالکُل پہلی مرتبہ مشاہدے میں آیا کہ شدید کڑی گرما گرم مقابلہ بازیوں کو تقویت اور فروغ مِلنا شُرُوع ہو گیا۔ مذاہب مذاہب سے اور فرقے فرقوں سے ٹکرا گئے۔

 


Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?