German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سوال نمبر136

۔پروٹسٹنٹ کلیسیا میں مذہبی خدمت کے لیے خواتین کو بھی مخصوص کر لینے کی روایت جڑ پکڑ چکی ہے۔ کیا یہ تخصیصِ خواتین اس پر منتج ہو سکتی ہے کہ کل کلاں اُنھِیں میں سے کوئی خاتون پوپ بھی بن جائے؟ کیا خیال ہے آپ کا؟

 

جواب:۔خواتین کو مقدس مناصب عطا کرنے یعنی انھیں پریسٹ بنانے کے عمل کی مناسبت سے کیتھولک مسیحی کلیسیا کا ردِّ عمل وہی ہے جس کا اظہار برملا تقدس مآب پوپ جان پال ثانی نے اپنے رسولی خط میں کر دیا تھا اورجو22مئی 1994عیسوی میں لکھا گیا اور اُس میں اُنھوں نے صرف مردوں کو ہی اس مذہبی فریضہ کی ادائی کے لیے مخصوص کیے جانے کو موضوع بنایا تھا۔ جناب پوپ نے لکھا:

1) پریسٹ صاحبان کا تقرر جب عمل میں آتا ہے تو وہ اپنے کاہنانہ عہدہ کے مطابق انتظام و رہنمائی کا اختیار سنبھالتے ہیں جس کی ابتدا خود مقدس خُداوند یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو یہ فریضہ تفویض فرما کے اپنی دنیاوی زندگی میں ہی شروع کر دی تھی تا کہ وہ عقائد و ارشاداتِ خُداوندی کی تعلیم سے دنیا کو روشناس کرائیں، تقدیس کریں، مسیحیوں کو دین کے تابع رکھیں اور مومنوں کو فیض پہنچائیں، نیز نظم و ضبط قائم رکھنے کی خدمت سرانجام دیں۔ یہ مذہبی خدمت اور فریضہ اس وقت سے اب تک ایک مقدس تسلسُل کے ساتھ کیتھولک کلیسیا کی رہنمائی میں مردوں کے ہی توسط سے جاری و ساری چلا آرہا ہے۔ مشرقی کلیسیاؤں کے ہاں بھی پوری دیانت داری کے ساتھ اس روایت کو برقرار رکھا گیاہے۔۔۔۔۔۔ البتہ خواتین کو یہ خدمت سونپے جانے کی تاریخ ایک زمانے سے دینی علما و الٰہیات کے ماہرین کے علاوہ بعض کیتھولک حلقوں میں بھی گرما گرم موضوعِ بحث رہی ہے۔ ایمان و تعلیم کے لیے قائم مجلس (Congregation for the Doctrine of the Faith) کو تقدس مآب جناب پوپ پال ششم نے اس کے اعلان، وضاحت و فروغ کے لیے ہدایت صادر فرمائی تھی کہ اس مسئلہ پر کلیسیا کی تعلیمات کو عام کِیا جائے تا کہ کلیسیا کے تعلیمی نظریے کی وضاحت کے ساتھ توجیہہ و تصریح و ترجیح کا بہتر طور ابلاغ ہو جائے۔
2) ڈیکلیرشن انٹر انسگنیؤرزDeclaration Inter Insigniores اعلامیہ 15اکتوبر1976عیسوی کے ذریعے یاد تازہ کرائی گئی اور اس تعلیم کی بنیادی وجوہ پر روشنی ڈالی گئی جن اسبابِ ضروری کے لحاظ سے یہ شعبہ مردوں کے لیے خاص کِیا جاتارہا ہے۔ تقدس مآب پوپ پال ششم کی تصریحات کے پیشِ نظر یہ نتیجہ اخذ کِیا گیا کہ کلیسیا اس ضمن میں اپنے آپ کو مجاز و مختار نہیں سمجھتی کہ خواتین کا ان کاہنانہ خدمات پر تقرر عمل میں لایا جا سکے۔۔۔۔۔۔ اپنے رسولی خط میں مولیرس دگنیتاتم (از 15اگست1988عیسوی) میں مقدس پوپ جان پال دوم نے بھی تحریر کِیا تھا کہ مقدس خُداوند یسوع نے صرف مردوں کو ہی اپنے شاگرد بنانے کی تخصیص دے کر اپنی مُکمَّل آزادی اور خود مختارانہ انداز سے کام لیا تھا۔ اس دو ٹوک فیصلے پرکِسی کو بھی کِسی قسم کے اعتراض کی جسارت نہ ہوئی۔ اس کارِ خُداوندی کے ساتھ ساتھ پاک خُداوند یسوع مسیح اپنی تعلیمات میں اسی آزادی کے عز و وقاراور خُدا باپ کی طرف سے راہبانہ زندگی گزارنے کی بلاہٹ، طلب کو بھی تقدیس عطا کی اور اس وقت کے رواجوں اور روایات جن پر اُس دور کے قوانین کا اطلاق ہوتا تھا ان کی توثیق تو دُور کی بات خُداوند یسوع پاک نے اُنھیں ذرا سی بھی خاطر میں لانے کی زحمت گوارا نہ کی۔

در حقیقت، اناجیلِ مقدس اور محترم رسولوں کے اعمال تصدیق کرتے ہیں کہ یہ اعلانِ خُداوندِ قدوس کے ازلی ابدی عزائم ارفع و منزّہ اور ہر خامی سے پاک منصوبہ کے عین مطابق تھا۔ خُداوند اقدس یسوع مسیح نے اُنھِیں نابغہء روزگار مردوں کو اپنی شاگردی میں لیا جو رسولی خدمات نبھانے کے عین لائق تھے۔

پھر وہ پہاڑ پر چڑھ گیا اور جن کو وہ آپ چاہتا تھا اُنھیں اپنے پاس بُلایا تو وہ اُس کے پاس آگئے۔ اور اُس نے بارہ کو مقرر کِیا جو اُس کے ساتھ رہیں اور جن کو وہ منادی کے لیے بھیجے۔

مقدس مرقس۔۔۔۔۔۔14,13:3

۔۔۔۔۔۔ تب یسوع نے اُن بارہ سے کہا کہ کیا تم بھی چلے جانا چاہتے ہو؟ شمعون پطرس نے اُسے جواب دیا کہ اے خُداوند! ہم کِس کے پاس جائیں؟ ہمیشہ کی زندگی کی باتیں تو تیرے ہی پاس ہیں۔ اور ہم تو ایمان لائے ہیں اور جان گئے ہیں کہ خُدا کا قدوس تُو ہی ہے۔

مقدس یوحنا۔۔۔۔۔۔68:6تا70

مقدس خُداوند یسوع مسیح نے اپنے باپ اقدس کی مشیّت و اتفاق کے مطابق ہی روح القدس میں ایسا کِیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔ اُس دِن تک جس میں وہ رُوح القدس سے اپنے اُن رسولوں کو جن کو اُس نے چُن لیا تھا حکم دے کر اوپر اُٹھایا گیا۔

اعمال۔۔۔۔۔۔2:1

اس نے وہ رات عبادت میں بِتائی۔

او ر اُن دنوں میں وہ پہاڑ پر دُعا کرنے کو گیا اور خُدا سے دُعا کرتے ہوئے تمام رات گزاری۔

مقدس لوقا۔۔۔۔۔۔12:6

المختصر یہ کہ دینی خدمت کی ادائی بطور پریسٹ یعنی قسوسیت، کہانت کی سپردگی کے سلسلے میں کلیسیا نے تسلیم کر رکھا ہے اس حقیقت کے پیشِ نظر کہ یہ سدا بہار مُکمَّل مثال اور مدامی قاعدہ و معیار کلیسیا کے اقدس خُداوند یسوع کا طرزِ عمل رہا ہے، اس نے بارہ مردوں کو چُنا اور اُنھیں کلیسیا کی اساس ہونے کا مقام بخشا۔۔۔۔۔۔

اور اُس شہر کی دیوار کی بارہ بُنیادیں تھیں اور ان پر برّے کے بارہ رسولوں کے بارہ نام لکھے ہوئے تھے۔

مُکاشفہ۔۔۔۔۔۔14:21

مفوضہ کام پورا کرنے کے لیے ان مردوں کو فقط منصب ہی نہ عطا ہوا تھا جو بعد میں بھی فرضِ منصبی کے طورپر دیگر مقدسین کو سونپا جاتا رہا جسے ارکانِ کلیسیا باباے کلیسیا اپنے لیے عمل میں لاتے رہے، بل کہ بالخصوص اور فطری انداز میں یہ حضرات متجسم کلمہء اقدس کے مشن، اس کی رسالت و خدمت میں شریکِ کار بھی رہے۔ اور اپنے آپ کو اس کی انجام دہی کے لیے کلیۃً وقف کر دیا۔

پھر اُس نے اپنے بارہ شاگردوں کو پاس بُلا کر اُنھیں ناپاک روحوں پر اختیار بخشا کہ اُن کو نکالیں اور ہر طرح کی بیماری اور ہر طرح کی کمزوری کو دُور کریں۔

مقدس متی۔۔۔۔۔۔1:10

اور چلتے چلتے یہ مُنادی کرنا کہ آسمان کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے۔ بیماروں کو اچھا کرنا، مُردوں کو جِلانا، کوڑھیوںکو پاک صاف کرنا، بد رُوحوں کو نکالنا، مُفت تم نے پایا،مُفت ہی تم دینا۔

مقدس متی۔۔۔۔۔۔7:10اور8

اور وہ گیارہ شاگردجلیل کے اس پہاڑ پر گئے جو یسوع نے اُن کے لیے مقرر کِیا تھا، اور اُسے دیکھ کر سجدہ کِیا لیکن بعض نے شک کِیا۔ اور یسوع نے پاس آ کر اُن سے باتیں کیں اور کہا کہ آسمان میں اور زمین پر سارا اختیار مجھے دیا گیا ہے۔ پس تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ۔ اور باپ اور بیٹے اور روح القدس کے نام سے اُن کو بپتسمہ دو اور اُن کو تعلیم دو کہ ان سب باتوں پر عمل کریں جن کا مَیں نے تم کو حکم دیا ہے۔ اور دیکھو! مَیں دنیا کے آخر تک ہر روز تمھارے ساتھ ہوں۔

مقدس متی۔۔۔۔۔۔16:28تا20

پھر وہ پہاڑ پر چڑھ گیا اور جن کو وہ آپ چاہتا تھا اُنھیں اپنے پاس بلایا تو وہ اس کے پاس آ گئے۔ اور اس نے بارہ کو مقرر کِیا جو اُس کے ساتھ رہیں اور جن کو وہ منادی کے لیے بھیجے۔ اور جو بیماروں کو اچھا کرنے اور بد روحوں کو نکالنے کا اختیار رکھیں۔ اور اُس نے یہ بارہ مقرر کیے۔ شمعون جس کا نام اُ س نے پطرس رکھا۔۔۔۔۔۔

مقدس مرقس۔۔۔۔۔۔13:3تا 16

آخر وہ اُن گیارہ کو دِکھائی دیا جب وہ کھانا کھانے بیٹھے تھے۔ اور ان کی بے اعتقادی اور سخت دِلی کے سبب سے اُن کو ملامت کی۔ اس لیے کہ اُنھوں نے ان کا یقین نہیں کِیا تھا جنھوں نے اُسے جی اُٹھنے کے بعد دیکھا تھا۔ اور اُس نے اُن سے کہا کہ تم تمام دنیا میں جا کر ساری خلقت کو انجیل کی منادی کرو۔

مقدس مرقس۔۔۔۔۔۔14:16،15

مقدس رسولوں نے ایسا ہی کِیا۔ اُنھوں نے اپنے رفیق چُنے جو کلیسیائی اُمور کی انجام دہی، دینی خدمت میں کاہن اور خُدامِ دِین بن کر اُن کی پیروی کریں۔ اس چناو میں وہ لوگ بھی آگئے جنھوں نے کلیسیا میں خدمات کے دوران خُداوندِ خُدا یسوع مسیح جو مکتی داتا ہے کی نمایندگی کرتے ہوئے رسولی مشن جاری رکھا۔

3)مزید برآں یہ کہ درحقیقت مقدسہ و برکت یافتہ کنواری مریم خُداوند یسوع مسیح کی ماں، مادرِ کلیسیا کو نہ تو رسولوں کے لیے مخصوص رسالتی خدمت سونپی گئی، نہ خادمانِ دِین و کلیسیا کو تفویض کی گئی توفیق کہ وہ قریہ قریہ بشارتیں بانٹتی پھرتی۔ اسی سے صاف پتا چلتا ہے کہ خواتین پر ترویج و تبلیغِ دین کی خدمت انجام دینے پر دروازوں کا بند کیے جانا اس پر محمول نہیں کِیا جا سکتا کہ اُن کی تحریم و تکریم میں کمی روا رکھی گئی ہے۔ نہ نا۔ ہر گز نہیں۔ ان کا احترام و اکرام اپنی جگہ۔ ان کو پریسٹ نہ مقرر کیے جانے سے قطعاً یہ مراد نہیں لی جا سکتی کہ ان کے خلاف مردوں کے مقابلے میں تمیز و تفریق کو ہوا دی گئی ہے۔ مسیحیت میں ایسا ممکن ہی نہیں۔ اُن کا درجہ اپنی جگہ۔ اس پرہیز کو اس زاویے سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ کاہنانہ خدمات مردوں کے سپرد کر کے وفادارانہ و مومنانہ بجاآوری مقصود رہی ہے جو عقل و دانش اور فہم و فراست کہ منسوب ہے اس منصوبہ بندی سے جو کائنات کے حاکم و مالک خُدا باپ کے خُدا بیٹے سے روح القدس میں ہم پر منکشف ہوئی اور اس کے مطابق عمل کرنا ہمارے ایمان کا اہم ترین جُزو ہے۔ یہ اطاعتِ عملِ خُداوندی ہے جو فرض کا درجہ رکھتی ہے۔ اور اس کی تعمیل میں مقدس خُداوند یسوع مسیح ہی ہمارا راہبر و مددگار ہے۔
خواتین کی ہر شعبہء مسیحیت میں موجودگی اور تعاون اور ان کا کردار جو کلیسیائی زندگی، اس کے روز مرہ اور کلیسیائی مشن میں ادا کِیا جارہا ہے، وہ بھلے قسوسیت و کہانت کے منصب پر فائز نہ بھی ہو سکیں اپنی جگہ، قطعی طور پر ضروری و اہم تر ہے۔ خواتین کی خدمات کا تو بدل ہی نہیں۔ کلیسیا پورے صدق و صفا سے اس کا اعتراف کرتی ہے اور خواتین کی کارکردگی کی ہمیشہ تحسین کرتی آئی ہے۔ ڈیکلیریشن انٹر انسگنیؤرز میں ڈھکے چھپے نہیں، کھلے طو رپر بتایا گیا ہے کہ کلیسیا متمنی ہے اور خواتین سے توقع وابستہ کیے ہوئے ہے کہ وہ بھی اپنی خدمتِ دینی میں بڑھ چڑھ کے حصہ لینے کی عظمت کو پہچانیں، مشنری خدمات بھلا ان سے بہتر اور کون ادا کر سکتا ہے۔ مسیحیت کے لیے ان کا کردار کلیسیا کی نگاہوں میں ایک عظیم سرمایے سے کم قیاس نہیں کِیا جاتا، خصوصاً ان کا کِردارجو وہ ادا کر رہی ہیں مسیحی معاشرت کے احیا، تازگی و تجدید اور انسانوں اور قوموں کو انسانی صفات سے متصف کرنے کے ضمن میں۔

مسیحیت پر یقین رکھنے والے ایمانداروں کو کلیسیا کا بھولا ہوا اصل چہرہ دِکھانے میں، وہ حقیقی عکس کہ مرورِ ایام نے جسے طاقِ نسیاں میں جا چھپایا تھا، پھر اس کو روشناس کر کے مسیحیوں بل کہ کل انسانیت کوو اپس اس کا گرویدہ بنا دِکھانے میں خواتینِ کلیسیا نے اہم ترین خدمات انجام دی ہیں جن کا اعتراف نہ کرنا بہت بڑی چُوک اور گناہِ عظیم ہو گا۔

نیا عہد نامہ مقدس اور کلیسیا کی مُکمَّل تاریخ واضح و وسیع شہادت پیش کرنے میں بُخل سے کام نہیں لے سکتے، تاریخ اور بائبل مقدس عہدِ جدید میںبھی مثالیںموجود ہیں جو ثبوت ہیں کہ کلیسیا میں خواتین ہمیشہ ہی فعال رہی ہیں۔ خُداوند یسوع پاک کی سچی اور کھری پیروکار ہونے میں ثابت قدم رہتے ہوئے خاندان اور سماج میں خُداوند کی صداقتوں کی گواہی میں بڑا معتبر کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ خدمتِ کلیسیا و اناجیلِ مقدس اور عبادتِ الٰہی میں احترام و تقدیس کے ساتھ خواتین اپنی زندگیاں تج دینے میں بھی کِسی سے پیچھے نہیں رہیں۔

علاوہ ازیں، یہ دین میں صادق لوگوں کی پرہیز گاری و پارسائی ہے جس کے رہینِ مِنّت کلیسیا کا نظام و مراتب کے سٹرکچر ہیں اور اِنھِیں مقدسین کی برکت سے کلیسیا مُکمَّل طور پر منظم و مرتب ہے۔ محض یہی سبب ہے کہ انٹر انسگنیؤرز کا اعلامیہ واضح کرتا ہے: بہترین تحفہ تو ایک ہی ہے جس کی تمنّا کی جا سکتی ہے او ربلا کی آرزو رکھنے کے لیے وہ عین مستحق بھی ہے، وہ تحفہ دوسروں میں بانٹ کے بھی مسرت ملتی ہے اور مل جائے تو گویا جہان بھر کی خوشیاں سمٹ کے دِل و نگاہ میں سما جاتی ہیں۔ وہ تحفہ ہے ۔۔۔۔۔۔ محبت۔۔۔۔۔۔ محبت جو فاتحِ عالم ہے اور اس کی ودیعتِ خُداوندی انسان کے لیے تحفہء عظیم ہے جو روح القدس میں اس کے لیے وقف ہے۔

حوالہ کے لیے 1۔ قرنتیوں باب12اور 13کی تلاوت کا حظ اور فیض کشید کیجیے۔ غرضِ ایمان اُمید، محبت یہ تینوں قائم ہیں، مگر ان میں افضل محبت ہی ہے۔
آسمان کی بادشاہی میں جنھیں سب سے بڑا مرتبہ حاصل ہے وہ خادمانِ دین پادری صاحبان نہیں، قداست یافتہ مقدسہ و مقدس ہستیاں ہیں۔


Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?