German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سوال نمبر115

۔''۔۔۔۔۔۔لیکن جب تُو روزہ رکھے، سر پر تیل لگا اور مُنہ دھو''۔ مقدس متی۔۔۔۔۔۔17:6

پاک اناجیل میں روزہ داروں کو مسح کرنے اور منہ دھونے کے لیے کہا گیا ہے۔ اس میں کیا مصلحت تھی؟

 

مسیحیوں کی روزہ داری کے بارے میں کچھ بتائیں مہربانی ہو گی۔

جواب:۔اس سوال میں جس آیت مبارک کا حوالہ دیا گیا ہے وہ مقدس انجیل کے ایک سیکشن کا ایک پارٹ ہے۔ پورا متن یوں ہے جو خیرات، دُعا اور روزہ پر مبنی ہے:

خبردار! اپنے راستی کے کام لوگوں کے سامنے دِکھانے کے لیے نہ کرو۔ نہیں تو تمھارے باپ کی طرف سے جو آسمان پر ہے تمھیں اجر نہ ملے گا۔ پس جب تُو خیرات کرے تو اپنے سامنے تُرہی مت بجوا، جیسے ریاکار عبادتخانوں اور کُوچوں میں کرتے ہیں تا کہ لوگ ان کی تعریف کریں۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پا چکے۔ مگر جب تُو خیرات کرے تو جو تیرا دہنا ہاتھ کرتا ہے اُسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے تاکہ تیری خیرات پوشیدہ رہے اور تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دے گا۔

اور جب تم دُعا کرو تو ریاکاروں کے مانند نہ ہونا کیوںکہ وہ عبادتخانوں میں اور بازاروں کے موڑوں پر کھڑے ہو کر دُعا کرنا پسند کرتے ہیں تا کہ لوگ اُنھیں دیکھیں۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پا چکے۔ لیکن جب تُو دُعا کرے تو اپنی کوٹھڑی میں جا اور دروازہ بند کر کے اپنے باپ سے پوشیدگی میں دُعا کر اور تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے، تجھے بدلہ دے گا۔ اور جب تم دُعا کرتے ہو تو غیر قوموں کے لوگوں کے مانند بک بک نہ کرو۔ کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری زیادہ گوئی سے ہماری سُنی جائے گی۔ پس ان کے مانند نہ ہونا کیوں کہ تمھارا باپ تمھارے مانگنے سے پہلے ہی جانتا ہے کہ تمھیں کیا درکار ہے۔ بس تم اسی طرح دُعا کِیا کرو، کہ

اے باپ ہمارے باپ تُو جو آسمان پر ہے
تیرا نام پاک مانا جائے
تیری بادشاہی آئے
تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے
زمین پر بھی ہو۔
ہمارے روزینہ کی روٹی آج ہمیں دے
اور جس طرح ہم اپنے قرضداروں کو بخشتے ہیں
تُو ہمارے قرض ہمیں بخش!
اور ہمیں آزمایش میں نہ پڑنے دے
بل کہ ہمیں بُرائی سے چھُڑا!

کیوں کہ اگر تم آدمیوں کو ان کے قصور بخشو گے تو تمھارا آسمانی باپ تمھیں بھی بخشے گا۔ لیکن اگر تم آدمیوں کو نہ بخشو گے تو تمھارا باپ تمھارے قصور تمھیں نہ بخشے گا۔

اور جب تم روزہ رکھو تو ریاکاروں کے مانند اپنا چہر ہ اُداس نہ بناؤ کیوں کہ وہ مُنہ بگاڑتے ہیں تا کہ لوگ اُنھیں روزہ دار جانیں۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجرپا چکے۔ لیکن جب تُو روزہ رکھے، سر پر تیل لگا اور مُنہ دھو۔ تا کہ آدمی نہیں بل کہ تیرا باپ جو پوشیدگی میں ہے تجھے روزہ دار جانے اور تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دے گا۔

مقدس متی۔۔۔۔۔۔1تا18


اِن آیات میں مقدس خُداوند یسوع مسیح نے خیرات، دعا اور روزہ کے بارے میں حکم فرمایا ہے۔ یہ عظیم تثلیث پرانے عہد نامہ سے اخذ کی گئی ہے جس سے حقیقی پارسائی کا اظہار ہوتا ہے۔ خُداوند یسوع مسیح کے فرمان بموجب ان تینوں پیمانہ ہاے تقویٰ پر پورا اُترنے کے لیے ضروری ہے کہ چھپے میں ان پر عمل کِیا جائے۔ یہ دکھاوے کے عمل نہیں۔ یہ خلوت کی عبادتیں ہیں۔ جلوت کی چیزہیں ہی نہیں۔ صالحیت اور اپنے اوپر طاری کی گئی راستبازی کی نمایش سے منع کِیا گیا ہے۔ اسی طرح ذات کے شوکیس میں لگی شخصی پاکیزگی کو بھی پسند نہیں کِیا گیا۔ یہ دکھاوے، یہ نمایشیں وہ خطرات ہیں جن سے اغماز نہیں برتا جا سکتا۔ خُداوند کے فرمان پر دوبارہ، سہ بارہ غور کیجیے: مقدس متی۔۔۔۔۔۔16:6تا18

اور جب تم روزہ رکھو تو ریاکاروں کے مانند اپنا چہرہ اُداس نہ بناؤ کیوں کہ وہ مُنہ بگاڑتے ہیں تا کہ لوگ اُنھیں روزہ دار جانیں۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پا چکے۔ لیکن جب تُو روزہ رکھے سر پر تیل لگا اور مُنہ دھو۔ تا کہ آدمی نہیں بل کہ تیرا باپ جو پوشیدگی میں ہے تجھے روزہ دار جانے اور تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دے گا۔

مرکزی بات دھیان سے محو نہیں ہونا چاہیے۔ خُداوند پاک یسوع المسیح کے اس وعظ مبارک کی تفصیل میں جانے سے بہتر ہے اس کے چیدہ چیدہ نکات پلّے باندھ لیے جائیں۔

روزہ بندہ خُدا کے لیے رکھتا ہے، آدمیوں کے لیے نہیں۔ مقصود خُدا تعالیٰ کی رضا ہے بندوں کی واہ وا نہیں۔ روزہ روزہ دار سے ایمان و ایقان کا مطالبہ کرتا ہے، عقیدے کی سچائی اور بندے کے اندر کے موسموں میں تبدیلی چاہتا ہے جو تقویٰ اور پرہیزگاری سے حاصل ہوتی ہے اور اس کی سمت کا صحیح تعین ہو کر اسے خُدا شان والے تک رسائی ملتی ہے، جو بندے کی معراج ہے۔ مزید برآں کہ روزہ ترکِ لذات ہی کی مشق نہیں بل کہ۔۔۔۔۔۔

کیا میرے پسند کا روزہ یہ نہیں کہ شرارت کے بندھن کھولے اور کج روی کی کڑیوں کو توڑے اور مظلوموں کو آزاد کرے بل کہ ہر ایک جُوئے کو توڑ ڈالے؟ کیا یہ نہیں کہ بھوکے کے لیے تو اپنی روٹی توڑے اور آوارہ محتاجوں کو اپنے گھر میں لائے اور جب کِسی کو ننگا دیکھے تو اُسے کپڑے پہنائے اور اپنے ہمجنس سے چھپ نہ جائے۔

اشعیا۔۔۔۔۔۔7,6:58

روزہ تو ہے ہی بس خُدا کے لیے جو زندگی ہی زندگی ہے، اس خُداے لم یزال کے لیے جو خالق ہے زندگی کا، زندگی کی نمو اسی سے ہے۔ ہر طرح کی غلامی کے پھندوں سے گُلُو خلاصی کی راہیں وہی سجھاتا ہے اور کوشش کرنے والوں کی مدد کر کے انھیں آزادی کی راہوں کا راہرو بناتا ہے جس کے آخری سرے پر موعودہ سرزمین، خُدا کی بادشاہت ہے۔ جہاں تمام انسان بھائی بہن ہیں۔

سرِ دست جو مسئلہ زیرِ بحث ہے، اس کے بارے میں عرض یہ ہے کہ روزہ بنیادی طور پر انسان کے ظاہر کی اصلاحی مشق پر ہی مکتفی نہیں، یہ تو ماہیتِ قلب کے لیے اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ اور احساسِ ندامت کو جِلا دے کر بندے کو توبہ کرنے کی ترغیب دیتا ہے اور اس وعدہ پر پکا رہنے کی مشق کراتا ہے کہ ایسے کردہ گناہ دوبارہ نہیں کیے جائیں گے جن پر خجالت ہوئی اور توبہ کرنا پڑی۔ یہ باطن کی اصلاح ہے۔ اس کے بغیر، وہ تمام عمل جو انفعال و معافی خواستگاری کا بس خارجی اظہار ہوتا ہے، بارگاہِ ایزدی میں نامقبول اور قابلِ استرداد ہوتا ہے کیوں کہ اس میں انسان کے باطن کی ایمانداری و دیانتداری شامل نہیں ہوتی۔ اندرونی طور، دلی طور تبدیلی پیدا ہونا، خُدا کی سیدھی راہ اختیار کرنے پر مائل ہونا اور ابھی اس صراطِ مستقیم پر چلنا شروع کر دینا، ذہن و دِل کی تسکین تو ہو گی، لوگوں کو بھی یہ تبدیلی نظر آئے گی، اصلاح شدہ تبدیلیاں، اعمال، افعال،ا قوال خود بول رہے ہوں گے، تصنّع اور نمایش سے پاک صورتِ حالات دیکھنے والوں کے لیے درسِ اصلاح و بہبود کا درجہ رکھے گی۔ یہی توبہ قبول ہونے کی عملی اطلاع ہوتی ہے جو ظاہر و باطن دونوں کی صفائی پر مستند گواہی بھی ہے۔

لیکن اب بھی (خداوند کا فرمان ہے) روزہ رکھ کر گریہ و زاری کرتے ہوئے اپنے سارے دِل سے میری طرف رجوع لاؤ۔ اپنے کپڑوں کو نہیں بل کہ دلوں کو چاک کر کے خُداوند اپنے خُدا کی طرف متوجِّہ ہو کیوں کہ وہ رحیم اور مہربان ہے۔ وہ طویل الصبر اور نہایت شفیق ہے۔ آفات نازل کرنے سے پچھتانے پر آمادہ ہے۔

یوئیل نبی۔۔۔۔۔۔13,12:2

پس نہاؤ اور پاک ہو اور اپنے کاموں کی شرارت میری آنکھوں کے سامنے سے دُور کر دو اور بدی کرنے سے باز آجاؤ۔ نیکوکاری سیکھو، عدل کے طالب ہو۔ مظلوموں کی فریادرسی کرو۔ یتیموں کا انصاف کرو اور بیوہ کے حامی ہو۔

نبی اشعیا۔۔۔۔۔۔17,16:1

اور مقدس متی۔۔۔۔۔۔1:6تا6اور 18,17,16:6 آیات سے بھی آنکھوںکی طراوت کا سامان کیجیے، روحانی فیضان سے سرفراز ہوں گے۔

ضمیر کی ملاقات سے وہ جو انسان کے اندر سے ایک آہ نکلتی ہے اور وہ دِل سے گریہ و زاری کرتا ہے تو یہ تلافی معافی کا خواستگار ہوتا ہے وہی فطری سمت ہے جو نئے سرے سے زندگی کے ہر موڑ پر، لمحہ بہ لمحہ اس کی مددگار و راہنما ہوتی ہے۔ بندے کا دل ہر طرف سے منہ موڑ کر خُدا کی عبادت، طاعت، بندگی اور اس کے بندوں کی خدمت، دیکھ بھال اور ان کے دین، دنیا اور آخرت کو سنوارنے کی کوششوں میں بس جُت ہی جاتا ہے۔ یہی وہ سراغِ زندگی ہے جو اُس نے اپنے من میں ڈوب کر پا لیا۔ خُدا نے اسے اپنا کر لیا اور وہ خُدا کا ہو گیا۔ گناہوں سے، عصیاں و خطاکاریوں سے ایساکنارہ کش ہوتا ہے کہ بس رہے خُدا کا نام۔ بندے کی جُون ہی بدل جاتی ہے۔ برائیوں سے بِدکنے لگتا ہے۔ کل تک بدی کی جو لیپا پوتی کی ہوئی اشکال دِل لبھاتی تھیں آج ان سے اسے کراہت محسوس ہونے لگتی ہے۔ جو ہو گیا سو ہو گیا۔ کیے پر پچھتاوا ہے، کیوں کِیا۔ اب یہ خواہش اور فیصلہ دونوں اپنی پیک پر ہیں کہ اگر زندگی اور اس کے چلن میں انقلاب آیا ہے، تبدیلی آئی ہے اور اُس اُوپر والے سے الٰہی رحمت کی امیدیں بندھی ہیں اور اس کے رحم و کرم پر اعتماد بڑھا ہے تو خُداوند اقدس یسوع مسیح کی روح القدس میں معاونت سے یہ انقلاب ابدی ہو گا، یہ تبدیلی تاحیات قائم رہے گی، خُدا کی خوشنودی ہمیشہ شاملِ حال رہے گی۔

مسیحیوں کی طرف سے کیے گناہوں پر ایسی پشیمانی کا احساس اور توبہ کی فکر کہ زندگی ہی بدل جائے اس کا اظہار، تاثر انگیز اظہار، بہت سے مختلف انداز میں سامنے آتا ہے۔ بائبل مقدس اور بطریق یعنی بزرگانِ کلیسیا اُن درج بالا اظہاریوں کے بل پر یعنی روزہ، دُعا اور شکرگزاری دینے، خیرات و امداد کے اہم ترین حوالوں کے ذریعے کہتے ہیں کہ یہ تو اپنی تقصیروں، خطاؤں اور اپنے عصیاں پر پچھتاوے کا اسلوبِ اظہار ہے، اپنی ذات کے سانچے، ہستیِ خُداوند کے حضور اور جملہ انسانیت کے رُوبرو۔ گہرے تزکیہ و تہذیبِ نفسی کے بعد جو پاک اصطباغ کے ذریعے مؤثر ہوتی ہے اور راہِ حق میں جان دینے کی عظمت کے بعد جو چیز اہم ہے وہ گناہوں سے معافی طلب کرنے کی بڑائی ہے جسے حاصل کِیا جا سکتا ہے اپنے ہمسایوں کے ساتھ ہمدردانہ و پُرخلوص میل ملاپ کے ذریعے، ان کے ساتھ مصالحانہ رویوں کو ترویج دے کر اور مقدسین کی زیارت ر فاقت کے ذریعے، ان کی سفارش و شفاعت کا اپنے آپ کو حقدار ثابت کر کے اور ایک طریقہ یہ بھی ہے جو کیٹالیٹک ایجنٹ ہے نجاتِ اُخروی کے لیے یعنی نجات بخش عملِ خیرات، شکرگزاری۔

سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ ایک دوسرے سے بڑی محبت رکھو۔ کیوں کہ محبت گناہوں کی کثرت کو ڈھانپ دیتی ہے۔

1۔ پطرس۔۔۔۔۔۔8:4

کلیسیائی سال (روزوں کے ایّام، ہر جمعہ خُداوند کے انتقال کی یاد) کی برکت والے دنوں میں توبہ کے ایام ہی کلیسیائی ایامِ تشکیل و تکمیلِ عفو و درگذر ہیں جو سودمند ہیں، موافق ہیں اعتکاف کا فیض پانے کے لیے گناہوں پر ندامت، آیندہ کے لیے توبہ اور مغفرت کی لطوریائی عبادت و پاک یوخرست کے لیے زواریوں زیارتوں کی سعادت پانے کے لیے اور رضاکارانہ نفی کرنے کے لیے مثلاً روزہ رکھ کے ہر غلط کام سے پرہیز اور الٰہی محبت میں فیاضانہ خیرات اور اس کے سہارے فلاحی انجمنوں، خیراتی اداروں اور مشنریوں کے ساتھ ہر طرح کا ہرممکن تعاون و رفاقت و شراکت۔

کلیسیائی قواعد براے روزہ داری

ایسٹر (عیدِ قیامتِ مسیح) اور ایامِ صوم سے پہلے کے روزوں کا مقصد نجات بخش عظیم موت کی تقریبات منانے کے لیے روحانی تربیت و تیاری ہے جو محمول ہے مقدس خُداوند یسوع المسیح کے مُردوں میں دوبارہ جی اُٹھنے پر۔ لاؤڈ قسم کی موسیقی اور اعتدال سے بڑھی ہوئی تفریح سے احتراز کرتے ہوئے مطلوب امن و سکون اور سکھ چین کے لیے مواقع پیدا کیے جانے چاہییں تا کہ مقدس تقریبات کی تیاری میں خلل نہ پڑے۔ سنجیدگی اور وقار ملحوظِ خاطر رکھے جائیں۔ مقصد موج میلا نہیں، خوشیوں کا اظہار ہے۔

ضبطِ نفس کے ایام (گوشت، شراب، لذت وغیرہ سے اجتناب کے ایام) سب کے سب جمعہ کے روز ہیں ہر سال توبہ کے لیے خاص ایام کہلاتے ہیں۔ ورنہ تو ہر روز، ہر لمحہ توبہ کے دروازوں پر لجاجت کی دستک کا اِذنِ عام ہے۔ روزوں کے دنوں میں کیتھولک مسیحیوں کو گوشت کی ممانعت ہے۔ سال کے دیگر ایامِ جمعہ میں مسیحیوں کو چاہیے گوشت سے پرہیز کریں یا پھر کوئی اور روحانی عمل سرانجام دیں اور خیرات کے طبعی عمل سے بہرہ ور ہوں۔ جانتے بوجھتے سادہ و متوازن غذا کا انتخاب یا عمداً لذیذ و مرغوب غذا سے پرہیز اور شغل میلے سے اجتناب سب کے سب نفس کُشی کے زُمرے میں آتے ہیں۔ 14سال کی بالی عمریا سے تاحیات اس طرح کی پرہیزداری لازمی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔ کیتھولک کلیسیا کی مسیحی تعلیم کی کتاب، نمبر2447کے مطابق خیر کے اعمال یہ ہیں:

رحم و رحمت کے تمام جسمانی کام مخیرانہ کارکردگی میں آتے ہیں جن کے طفیل ہم اپنے ہمساےے کے کام آتے ہیں اور اس کی روحانی اور جسمانی ضروریات کے پورا کرنے میں اسے ہماری معاونت حاصل ہوتی ہے۔ توریت پاک میں شامل اشعیا نبی کی کتاب کے باب59کی آیات 6 اور7کا اعادہ کیجیے، جس میں لکھا ہے کہ ''کیا میرے پسند کا روزہ یہ نہیں کہ شرارت کے بندھن کھولے اور کج روی کی کڑیوں کو توڑے اور مظلوموں کو آزاد کرے بل کہ ایک ہر ایک جُوئے کو توڑ ڈالے؟ کیا یہ نہیں کہ بھوکے کے لیے تُو اپنی روٹی توڑے اور آوارہ محتاجوں کو اپنے گھر میں لائے اور جب کِسی کو ننگا دیکھے تو اسے کپڑے پہنائے اور اپنے ہمجنس سے چھپ نہ جائے؟''۔

راکھ کا بُدھ اور پاشکا سے پہلے کا مبارک جمعہ جس میں خُداوند پاک یسوع مسیح کے مصلوب ہونے کی یاد منائی جاتی ہے، یہ دو دن روزے کے لیے خاص ہیں۔ روزہ رکھنے کے ان کڑے دنوں میں کیتھولک مسیحی بھائی بہنیں کِسی بھی قسم کا گوشت کھانے سے باز رہیں، ان کی خوراک جتنی ممکن ہو اتنی سادہ ہو، بس چوبیس گھنٹوں میں ایک وقت کے کھانے پر اپنے آپ کو محدود کر لیں یا پھر سنیکس (ہلکی پھلکی ناشتا جیسی خوراک) کے دو ٹکڑے، بِگ نہیں، سمال پیس۔

جہاں تک ممکن ہو یہ ایام خاموشی اور سکون سے گذرنے چاہییں، دعاؤں میں اضافہ ہو جائے اور عبادتوں میں شامل رہیے، گرجا گھروں کی حاضری میں باقاعدگی اختیار کر لی جائے۔ روزہ کی صورت میں یہ بات ضروری ہے کہ کھانے پینے سے یوں ہاتھ روک لیا جائے کہ خواہ مخواہ یہ بات دوسروں کے نوٹس میں آنے لگے۔ روزوں کے یہ دو دن ہم سے تقاضا کرتے ہیں کہ ان دنوں میں موسیقی کا شور و غوغا، بلند آواز حمدیہ گیت، نغموں گانوں نیز رقص و تفریح اور ڈانس پارٹیوں کو اتنا دھیمے پن (لو کِی) میں لے آئیں کہ روزہ دار و عبادت گزاروں اور آپ کے حق میں اور اپنے لیے دعا کرنے والوں کے عمل میں حرج واقع نہ ہو۔ منع بھی نہیں کِیا جا رہا مگر درخواست ہے کہ آپ کی تفریح آپ تک محدود رہے، دوسرے اس سے نالاں نہ ہوں۔

اوہ یس! ایک آخری بات۔18سال کی عمر سے لے کر ساٹھویں سال میں قدم رکھنے تک روزہ رکھنا ہر مسیحی کے لیے ضروری ہے اگر۔۔۔۔۔۔ کوئی شرعی عذر حائل نہ ہو۔


Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?