:سوال نمبر106
کیا ایک مسلم دوشیزہ جس نے کِسی مسیحی سے شادی رچائی ہو، اسے دو ٹوک احکام و فتاویٰ کے تحت دائرئہ اسلام سے فوراً خارج کر دیا جائے گا؟
جواب:۔بہتر تھا اگر یہ سوال برادرانِ اسلام سے کِیا جاتا۔ وہ آپ کو اسلامی شریعت کے تحت تسلّی بخش جواب سے سرفراز کر سکتے تھے۔
بظاہرتو رُوے سخن مسلمانوں ہی کی طرف ہے لیکن اس کی زد میں کچھ نہ کچھ ہم بھی آتے ہیں، وہی بات ہے۔۔۔۔۔۔ آکھاں دِھی نُوں، سُناواں نونہہ نُوں۔ اِس احتمال کے تحت جیسے سوال کنندہ نے کان ادھر سے نہیں، اُدھر سے پکڑا ہے۔ بالواسطہ طور وہ سوال ہی ہمِیں سے کرنا چاہتے ہوں شاید اور کیتھولک کلیسیا کا اِس مسئلہ پر نقطہء نظر جاننے کے متمنی ہوں کہ مجموعہء قوانینِ کلیسیا کے تحت کیا ہو گا۔ جب صورتِ حالات یوں سامنے آئے کہ کوئی مسلمان علی اعلان کِسی کیتھولک مسیحی کو بطورِ شریکِ حیات قبول کرنے پر تُل جائے، کیا ایسی شادی کی اجازت دے دی جائے گی؟ایسی مخلوط شادی پر کیتھولک فریق، کلیسیا کی طرف سے کِسی دباو میں نہیں آئے گا کیا؟ یہ بندھن جائز قرار پائے گا؟ آئینے کے دوسری طرف بھی ایک تصویر ہے، وہ بھی غور طلب ہے کہ آیا ایک کیتھولک مرد ایک مسلم خاتون سے بیاہ رچا سکتاہے یا نہیں؟کیا وہ اپنی بیوی کو اجازت دینے میں حق بجانب ہو گا کہ اس کی زندگی میں آ چکنے کے بعد بھی وہ اپنے پہلے مذہب پر قائم رہے؟ ان مسیحیوں میں رہتے ہوئے جگہ بہ جگہ اپنے مصلّے بچھائے پھرے، تلاوت و عبادت کے علاوہ اسلامی روایات، عید تیوہار محرم رمضان منانے کی اسے مُکمَّل آزادی ہو سکتی ہے کیا؟ اگر یہ آزادی دی جا سکتی ہے تو کِس اتھارٹی پر، تعزیرِ شریعتِ مسیحی کے تحت اسے ملامت کے ساتھ مجرم نہیں ٹھہرایا جائے گا؟ کلیسیا مُنہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھی رہے گی؟ کلیسیا ایسے نکاح کی اجازت دے کر جوڑے کو شاد کر دے گی؟ اور پسند و استحقاق کے ان کے اختیار کو تسلیم کرتے ہوئے ایسی شادی کی توثیق کردے گی؟ استحقاق کا جواز تو بہ ہرحال اپنی جگہ وزن دار ہے۔
ایسی شادی، خانہ آبادی پر منتج ہو گی، کیا گارنٹی ہے؟ گارنٹی تو کِسی بھی شادی کی نہیں دی جا سکتی۔ یہ ضرور ہے شادیوں میں اس قسم کی آمیزش بہت سے مسائل، اُلجھنیں اور مشکلات پیدا کرتی ہے۔ شادی سے پہلے فریقین نے چہرے کا بہتر رُخ سامنے لایا ہوتا ہے، عادات، اطوار، رویوں کو اچھے سے اچھا بنا کر پیش کِیا ہوتا ہے۔ شادی کے بعد اس سب کچھ کا دوسرا رخ، اصل رخ، تادیر اوجھل نہیں رکھا جا سکتا۔ شروع میں تو صبر دِکھایا جاتا ہے بعد میں صبر کے پیمانے لبریز بھی ہونا ہوتے ہیں۔
تُو خُدا ہے نہ میرا عِشق فرشتوں جیسا
دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں
یوں حالات کٹھن ہونے لگتے ہیں، ہمارے ہاں فیملی سسٹم ہے، بڑے بزرگ، رشتہ دار، ہمدرد سمجھانے بجھانے بھی آجاتے ہیں، دُولھا دُلھن کے سر میں بھی بھیجا موجود ہوتا ہے، اکثر دیکھنے میں آیا ہے معاملات سنبھل بھی جاتے ہیں، اور نہیں بھی سنبھلتے۔ مختصر یہ کہ یہ مسائل یہ معاملات کبھی ختم ہو جائیں، یہ خوش فہمی ہو گی، ہاں البتہ دب سکتے ہیں، تا دیر دبے رہ سکتے ہیں اور پڑے پڑے گل سڑجائیں، تو عفونت ان مسائل سے کہِیں بڑھ کر بجاے خود بدتر ثابت ہوتی ہے۔ ہے تو یہ ''ایک کریلا اوپر سے نیم چڑھا'' والی بات، وہ جسے اصطباغ نہیں مِلا اُس سے شادی کیتھولک مسیحی نے کر لی، ایسی صورتِ حالات میں مشکلات تو سر اُٹھاتی ہیں، کیتھولک کلیسیا اکثر مشورہ دیتی ہے کہ بہتر ہے اوکھلی میں سر مت دو، نہیں مانو گے تو مُوسلے تو پھر پڑیں گے ہی۔کلیسیا کی طرف سے نہیں، سماجی، ثقافتی، معاشرتی و معاشی اور سب سے بڑھ کر مذہبی نقطہء نظر سے آگے چل کر بڑے اختلافات پیدا ہوتے ہیں جو زندگی اجیرن کر دیتے ہیں۔ بہ ہرحال ایسی شادیاں ہو تو رہی ہیں، اس سب کچھ کے باوجود، ہو رہی ہیں، چل رہی ہیں، بعض کامیاب، بعض درمیان درمیان میں کہ واپسی کِسی فریق کی نہیں۔ کیتھولک کلیسیا کے پیشِ نظر تو یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں، فریقین کی رضامندی پر موقوف ہے۔ وہی بات کہ سرائیکی لوکائی میں مثل ہے:
گھوٹ، کُوار، راضی،کیا کریسی قاضی
کیتھولک نقطہء نگاہ ایسی شادیوں پر واضح ہے کیتھولکس کے نزدیک دونوں پارٹنرز کو آزادی ہے کہ اپنے اپنے مذہب پر جمے رہیں۔
کیتھولک کلیسیا کے پیشِ نظر حقائق کے مطابق تو مسیحی مرد اورمسلم خاتون کے درمیان رشتہء ازدواج میں منسلک ہونے کے لیے جو چند شرائط ہیں وہی کیتھولک خاتون اور مسلمان مرد کے درمیان شادی کا مرحلہ طے ہونے کے لیے بھی لاگو ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو قانونی موشگافیاں آڑے نہیں آتیں۔ بالغ مرد و عورت کو کیتھولک مسیحی نقطہء نظر سے شادی کے لیے برابر کے حقوق حاصل ہیں۔
عام طور پر ایک کیتھولک مسیحی کی بے بپتسمہ شخصیت سے جب شادی طے پانے لگتی ہے تو پھر اختلافِ مسلک سے پیدا ہونے والا معاملہ مسیحی نکاح کے جائز ہونے میں البتہ رکاوٹ بنتا ہی بنتا ہے۔ ایسے موقع پر مجموعہء قوانینِ کلیسیا پنجابی فلموں کے وِلّن کی طرح عین نکاح کے موقع پر شور مچا دیتا ہے۔۔۔۔۔۔ ''ایہہ شادی نہیں ہو سکدی''۔ ایسا شور نہ غلط ہوتا ہے، نہ بے موقع۔ عبادات اور شادی وغیرہ کے لیے ہر سماج، ہر مذہب میں کچھ اصول متعین ہوتے ہیں اور کلیسیا بھی اپنے اصولوں کی پاسدار ہے۔ تاہم اگر شادی کا جوڑا کِسی کی نہیں مانتا اور مُصِر ہے کہ ایہہ ویاہ ہووے ای ہووے۔ تو ایسے موقع پر بشپ صاحب یا ان کا نمایندہ جو اڑچن ہے اسے دُور کر سکتا ہے۔ یہ فعل اتنا بھی سادہ نہیں۔ اڑچن دُور کی جا سکتی ہے مگر تب جب ان شرائط کو پورا کرنے کی ہامی بھرلی جائے:۔
کیتھولک فریق عہد کرے کہ اس نے ہر صورت اپنے مذہب پر قائم رہنا ہے اور اس کی پوری پوری کوشش ہو گی کہ ان کے بچوں کو کیتھولک مسیحی چرچ میں بپتسمہ دیا جائے گا اور مسیحیت کے دائرہ میں ہی ان کی پرورش ہو گی۔ اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ وہ مسیحی پیدا ہوئے تھے، مسیحی ہی رہیں گے۔ اس بات کو عملی جامہ پہنانے کی ہرممکن سعی جاری رکھی جائے گی۔ سعی!
مسلم فریق کو مندرجہ بالا عہد کا نوٹس وصول کرایا جائے، جو ضروری ہے۔ اسے واضح طور پر مطلع کِیا جائے کہ شادی کے اس سمجھوتے کی کیتھولک شقیں کیا کیا ہیں۔
چلیے، یہ تو ہو گیا۔ اب جس طرف توجُّہ دینی ہے وہ یہ امر ہے کہ کیتھولک پارٹنر کو بخوبی علم ہونا چاہیے کہ دوسرے غیر مسیحی فریق کا بھی دِل چاہے گا کہ بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی نگہداشت و پرداخت اس کے عقیدے کے مطابق ہو۔ یہ لائسنس لینا ا س کا بھی استحقاق ہے۔ چناں چہ کلیسیا نے وسعتِ قلبی اور ذہنی بالیدگی سے کام لیتے ہوئے اس انسانی مسئلے کو اہمیت دی اور فیصلہ کِیا کہ وہ بچوں کے بارے میں اپنے مطالبہ کو اٹل نہیں بنائے گی۔ نئی نسل کی اُٹھان لازماً کیتھولک مسیحی مذہب پر ہی ہو اس مطالبے پر اس نے لچک قبول کر لی۔ ترجیح کو سعی یعنی کوشش یا کہہ لیں کہ بھرپور کوشش کی شکل دے دی گئی۔ کیتھولک نقطہء نظر کے مطابق اب یہ ہو گیا کہ اجازت دے دی گئی کہ یہ اب والدین پر منحصر ہے، آزادی سے فیصلہ کریں کہ ان کے بچوں کو کِس مذہب کی گھٹّی دی جائے گی۔ بپتسمہ یا کان میں اذان!۔۔۔۔۔۔